16 مارچ اور اس کے بعد

March 21, 2013

16 مارچ پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم دن بن گیا، جب پہلی مرتبہ قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ نے اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کی اور قانونی طور پر تحلیل کر دی گئیں۔ دراصل اس کارروائی کا آغاز دو ہفتے قبل اس وقت ہوا جب دفعتاً سابق وزیر خزانہ سے استعفیٰ دلوایا گیا اور ان کا نام نگراں وزیراعظم کی فہرست میں شامل کر لیا گیا اور خزانے کے وزیر مملکت کو وزیر خزانہ بنا دیا، بعد میں ان کا نام واپس لے لیا گیا اور ان کو سندھ کے وزیراعلیٰ کا امیدوار تصور کیا گیا پھر وہاں بھی دوسرے نام پیش کئے گئے۔ نئے وزیر خزانہ چونکہ ریاستی ایچ پیچ سے زیادہ واقف نہیں تھے، اس لئے ایک تجربہ کار وزیر کے ساتھ ان کی پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا تاکہ یہ کہیں ایسی ویسی بات نہ کہہ دیں جس سے حکومت کو پریشانی ہو۔ اس پر مجھے ایک لطیفہ یاد آیا کہ جیل میں ایک قیدی مر گیا، جیلر نے ایک نئے رنگروٹ سے کہا کہ اس کے گاؤں جا کر اس کے عزیزوں کو مرنے کی اطلاع دو اور چائے پانی کے لئے کچھ لے کر آؤ۔ سپاہی نے کہا سر جی ایک تو ان کا بندہ مر گیا، ان سے چائے پانی کیسے ملے گا۔ جیلر نے ایک گھاگ سپاہی کو بلا کر اس کے ساتھ جانے کا حکم دیا۔ گھاگ سپاہی نے گاؤں جا کر لوگوں کو جمع کیا اور کہا آپ کا ایک بندہ مر گیا ہے مگر اس کی ایک سال کی سزا باقی ہے لہٰذا ہمیں ایک بندہ دو جو اس کی بقیہ سزا پوری کرے۔ گاؤں والے پریشان ہو گئے، سپاہیوں کی خوشامد کی اور ان کی مٹھی گرم کر کے اپنی جان چھڑائی۔ وزیر صاحب اور ان کے ساتھی نے بعض اچھی باتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ہم یہ چیزیں نئی حکومت کو منتقل کر کے رخصت ہو رہے ہیں اور تاریک باتوں کا نام تک نہیں لیا۔حالانکہ صورتحال یہ ہے کہ ملک میں ایک طرف امن و امان کی حالت بڑی خراب ہے، بلوچستان میں صورتحال ابتر ہے گورنر راج میں بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔ حکومت بحال کر دی گئی تو وزیراعلیٰ کے خلاف بغاوت کر دی گئی۔ اب دیکھنا ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ عام ہے اور روزانہ آٹھ دس بے گناہ مارے جاتے ہیں۔ ہر طرف سے مذمت کی صدائیں آتی ہیں لیکن مذمتی الفاظ ضعیفوں، بیواؤں اور یتیموں کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتے۔ مالی حالت بھی قابل اطمینان نہیں۔ رواں سال کے وفاقی بجٹ کے اہم اہداف تبدیل کئے جا رہے ہیں۔سال رواں بجٹ کی ابتدائی دستاویز میں متوقع آمدنی کا تخمینہ 2381/ارب روپے رکھا تھا۔ بعد میں اس میں 150/ارب روپے کی کمی کر کے2231/ارب کر دیا۔ بعد میں41/ارب کم کر کے یہ ہدف 2,190/ارب کر دیا۔ اس ہدف کا حصول بھی مشکل نظر آتا ہے کیونکہ جولائی سے فروری تک آٹھ مہینوں میں 1167/ارب روپے وصول ہوئے اور اب چار مہینوں میں 1023/ارب کی رقم جمع کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر سال بھر میں2000/ارب روپے کی رقم ہی وصول ہو جائے تو یہ ایک بڑا کارنامہ ہو گا۔ 15 فروری 2013ء کو زرمبادلہ کے ذخائر 13/ارب ڈالر تھے۔ ان میں سے 8.1/ارب ڈالر اسٹیٹ بینک کے پاس تھے۔ اولاً یہ کم ہو کر 6.8/ارب اور سال رواں کے اختتام تک 5.2/ارب ڈالر رہ جائیں گے جو ایک ماہ سے کچھ زائد مدت کی درآمدات کی ادائیگی کے لئے کافی ہوں گے۔سال رواں میں آمدنی بڑھانے کے لئے جن مدات کا سہارا لیا جا رہا تھا وہ کسی نہ کسی وجہ سے بروئے کار نہ آ سکے جیسے ایمنسٹی اسکیم، 3G ٹیلی کام کے لائسنس کی فیس، یورو، ڈالر بانڈز اب صرف ایک مد رہ گی، وہ ان قیمتی اسمگل شدہ گاڑیوں کی ہے جن کی تعداد دس ہزار کے قریب، جن پر کسٹم ڈیوٹیز اور دوسرے ٹیکس ادا نہیں کئے گئے اور جو فیڈرل بیورو کے علم میں ہیں۔ یہ گاڑیاں بلوچستان، خیبرپختونخوا اور کراچی میں ہیں۔ بیورو نے ایک اسکیم بنائی کہ اگر ان کے مالکان واجب الادا ٹیکسوں کا ایک فی صدی ادا کر دیں تو گاڑیوں کی حیثیت قانونی ہو جائے گی۔ جب یہ تجویز صدر مملکت کے سامنے رکھی گئی تو انہوں نے کہا کہ اگر یہ یقین دلایا جائے کہ آئندہ اسمگلنگ کا یہ سلسلہ بند ہو جائے گا تو اس کی اجازت دی جا سکتی ہے ورنہ ایک مرتبہ اجازت دے دی گئی تو آئندہ اس سے دگنی گاڑیاں آئیں گی۔ آئندہ سال کے بجٹ کا جو خاکہ پیش کیا جا رہا ہے اس میں بجٹ کا حجم 32 کھرب کے لگ بھگ ہو گا۔ دفاع پر 599/ارب، ترقیاتی اخراجات 450 ارب، وزارتوں کے بجٹ میں 5 سے7 فیصد اضافہ، پنشن کیلئے 135/ارب، سبسڈیز کیلئے 165/ارب رکھے جائیں گے، اس میں اصل اور سود کی ادائیگی کا ذکر نہیں۔اب آئیے الیکشن کمیشن کی طرف، 16 مارچ کو قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ تحلیل ہو گئیں۔ نگراں وزیراعظم کا ابھی تک فیصلہ نہیں ہو سکا۔ فی الحال پانچ نام زیر بحث ہیں لیکن مزید ناموں پر بھی غور کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ وزیراعظم اس وقت تک اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے جب تک کہ نگراں وزیراعظم حلف نہیں اٹھاتے۔ چار وزراء سینیٹ کے رکن ہونے کی وجہ سے مستعفی نہیں ہوئے۔ ان میں وزیر داخلہ اور خزانہ شامل ہیں۔ نگراں حکومت کو 60 دن کے اندر انتخابات کرانا ہوں گے، اس پر اتفاق ہو گیا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن ہوں گے چنانچہ سندھ اور بلوچستان اسمبلیاں تحلیل ہو گئی ہیں ۔ نگراں وزیراعظم کو وہی اختیارات حاصل ہوں گے جو ایک مستقل وزیراعظم کو حاصل ہوتے ہیں۔ نگراں وزیراعظم نامزد ہوتے ہی کمیشن انتخابی نشانات الاٹ کرنا شروع کر دے گا۔ توقع ہے کہ اس ذیل میں کوئی بڑا اختلاف رونما نہیں ہو گا۔ ایک نکتہ واضح نہیں ملک میں ووٹروں کی تعداد 8 کروڑ 57 لاکھ ہے جبکہ کمیشن نے 20 کروڑ بیلٹ پیپر چھپوائے ہیں۔ 11 کروڑ کا مصرف کیا ہو گا۔ بیلٹ پیپر ایک قیمتی دستاویز ہے۔ یہ کسی غیر متعلقہ شخص کے قبضے میں نہیں جانا چاہئے۔ یہی تو دھاندلی کا بڑا سبب بن سکتا ہے۔ ہر پولنگ اسٹیشن پر جتنے ووٹر ہیں وہاں صرف 2 یا 3 فی صد سے زائد بیلٹ پیپر نہیں پہنچنا چاہئے،کیا کمیشن اس سلسلے پر غور کرے گا؟سیاسی پارٹیوں کے منشور جو زیادہ سنہرے خوابوں پر مشتمل ہیں، شائع ہونا شروع ہو گئے ہیں جیسے ایک پارٹی نے 15 ہزار ماہانہ تنخواہ کا اعلان کیا، دوسری نے نہلے پر دہلا مارا اور اٹھارہ ہزار کا اعلان کیا۔ سوال یہ ہے کہ ان کی ادائیگی کیلئے روپے کہاں سے آئینگے اور کیا صنعت کار اور کاروباری یہ تنخواہیں دینے پر آمادہ ہو جائیں گے؟ انتخابی اشتراک کے جوڑ توڑ بھی ہو رہے ہیں۔ ہمارے محترم بزرگ بھی وطن واپس تشریف لا چکے ہیں۔ انتخابات میں حصہ نہ لینے کے ساتھ پولنگ اسٹیشنوں پر دھرنے کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔ اس سے خدانخواستہ کہیں ہنگامہ آرائی کی صورت پیدا نہ ہو جائے۔ ووٹر کو سوچ سمجھ کر اپنے ووٹ کا استعمال کرنا ہو گا۔