انسان بے توقیر کیوں؟

March 21, 2013

18فروری 2008ء کو منعقد ہونے والے عام انتخابات کے بعد معرض وجود میں آنے والی وفاقی پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں نے اپنی مدت کیا پوری کی، کہ پورے پاکستان میں حضرتِ انسان کو بے توقیر کیاجانے لگا۔ میرا اشارہ اُس امر کی جانب ہے کہ جس کے ذریعے سے ملک میں غیر جانبدار اور غیر سیاسی نگراں حکومت کا قیام عمل میں لایاجانا ہے۔ چاروں صوبوں میں نگراں وزیر اعلیٰ اور وفاق میں نگراں وزیر اعظم کے تقرر کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنے تئیں غیر جا نبدار ،غیر سیاسی اور اہل امیدواروں کے نام پیش کیے، لیکن نام سامنے آجانے کے بعد سیاسی جماعتوں کے اپنے مقاصد اور اہداف کی وجہ سے انسانوں کو بے توقیر کیاجانے لگا اور جنہیں غیر سیاسی ، غیر جانبدار اور اہل قرار دے کر سامنے لایا گیا تھا، انہی پر انگلیاں اٹھنے لگیں۔ تو محسوس ایسا ہوتا ہے کہ یہ ملک اور اس میں بسنے والے عوام ایک دوسرے پر نہ تو بھروسہ کرتے ہیں اور نہ اعتبار۔ اور اگر یہ دونوں اوصاف ہماری زندگیوں سے محو ہوجائیں تو کاروبارِ زندگی آگے نہیں بڑھ سکتا۔
بنیادی طور پر وفاقی پارلیمانی نظام میں جانے والی حکومت ہی انتخابات مقرر کراتی ہے۔ لیکن پاکستان کی بے اعتبار اور ناپائیدار تاریخ نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم ایک ایسا نظام وضع کریں جس پر سب کو اعتماد ہو سکے اور آج پاکستان کے قانون سازوں نے نگراں حکومت کے قیا م کے لئے ایک ایسا قانون دے دیا جو انسانوں کی رسوائی اور ذلت کا سبب بن رہا ہے۔ جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد اس لئے قابل قبول نہیں کہ تمام مقدمات میں انہوں نے قانون کی عملداری کے لئے شدت کے ساتھ اپنے اختیارات کو استعمال کیا۔ بالکل اسی طرح جب جسٹس (ر) شاکر اللہ جان کا نام واپس لیا گیا تو مولانا فضل الرحمن نے اس فیصلے کو سختی کے ساتھ آڑے ہاتھوں لیا۔ گو کہ مجوزہ قوانین کسی نہ کسی طور ملک کو نگراں وزیر اعظم دے دیں گے لیکن اس عمل کے دوران جن بطل ہائے جلیل کی توہین ہوئی ہے، اس کا مداوا کون کرے گا؟ پاکستان کے پڑوسی ملک میں متعدد بار ایسا ہوا ہے کہ صدر کے منصب کے لئے امیدوار سامنے آئے اور کانٹے کے مقابلے کے بعد ایک امیدوار کامیاب ہوا لیکن اس کے بعد تمام سیاسی جماعتوں نے اسے ملک کا صدر تسلیم کیا اور یہ کہا کہ اس منصب پر بیٹھ کر وہ وہی فیصلے کریں گے جس کا تقاضا یہ منصب کرتا ہے۔ اس کی قریب ترین مثال پرناب مکھرجی کی ہے جن کی پوری زندگی کانگریس کے پلیٹ فارم سے سیاست کرتے گزری اور جب وہ ملک کے صدر منتخب ہوئے تو سب سے پہلے بھارتی جنتا پارٹی کے سربراہ نے انہیں مبارکباد دی۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں نگراں حکومت کے لئے ہم کسی شخصیت پر متفق نہیں ہو پا رہے ہیں۔ کہنے کو ادارے آزاد ہیں لیکن وہ بھی مسلسل بے توقیر ہو رہے ہیں۔ ان کے فیصلوں پر قدغن لگی ہے۔ باالفاظ دیگر پاکستان میں کسی نہ کسی سطح پر آمریت موجود ہے جو اکثریتی فیصلوں کو سبو تاژ کر رہی ہے۔
ضروری نہیں ہے کہ آمریت فوجی جرنیل کی شکل میں ہی ہو۔ بلکہ اسٹیبلشمنٹ بھی کسی نہ کسی حیلے بہانے سے جمہوری اداروں کے فیصلوں پر عمل درآمد میں روڑے اٹکا دیتی ہے۔ آخری وقت تک حکومت طویل المدت فیصلے کر رہی ہے جو اس حکومت کا مینڈیٹ نہیں تھا۔ کہنے کو اعلیٰ عدالتیں اور الیکشن کمیشن آزاد اور خودمختار ہیں لیکن ان کے فیصلے بھی ردی کی ٹوکریوں کی نذر ہو گئے ۔ دوسری جانب یہ بھی الزام لگا کہ عدالتی ادارے متوازی حکومت کے طور پر ری ایکٹ کر رہے ہیں۔غرض یہ کہ پاکستانی قوم 65 برس گزرنے کے باوجود بھی یہ صلاحیت حاصل نہ کرسکی کہ وہ پر امن طریقے سے اپنے مسائل کو حل کرسکے۔ آج پہلی بار پاکستان پر امن سیاسی انتقال اقتدار کے موقعے تک پہنچا ہے۔ اگر یہ عمل جانے والی حکومت چند ماہ پہلے شروع کردیتی تو آج اتنی ہیجانی کیفیت ملک پر طاری نہ ہوتی۔ آخر وہ طریقہ کار جو پوری دنیا میں رائج ہے، اسے ہم نے کیوں نہ اختیار کیا؟ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں بسنے والے عوام تو ایک دوسرے سے محبت اور باہم اعتبار بھی کرتے ہیں لیکن وہ طبقہ جو حکمرانی کا خواہاں ہے، وہ بد گمان ہے۔ شاید یہ اس کے اندر کا چور ہے۔ اسی وجہ سے وہ اکابرین قوم جن کی زندگیاں قوم کے لیے وقف رہیں، کسی نے معاشیات کے شعبے میں ملک کی خدمت کی تو کسی نے جج کے منصب پر بیٹھ کر لوگوں کو انصاف فراہم کیا۔ لیکن یہ سب کے سب ان سیاسی جغادریوں کے چکر میں رسوا ہو رہے ہیں۔ لہٰذا ان تمام اراکین کو چاہئے کہ وہ عدالت عظمیٰ سے رجوع کریں۔ تاوقتیکہ سیاسی قائدین کسی نام پر متفق نہ ہوجائیں، اس وقت تک انہیں مشتہر نہ کیاجائے کیونکہ اس عمل سے نہ صرف انسان کی شہرت متاثر ہوتی ہے بلکہ اس کا بنیادی حق بھی متاثر ہوتا ہے۔ قانون سازوں نے کیا سوچ کر اٹھارہویں، انیسویں اور بیسویں ترامیم کرکے ایک ایسا طریقہ کار وضع کر ڈالا جو انسان کی بے توقیری کا باعث بن رہا ہے؟ سیاسی پارلیمانی نظام اس وقت تک مضبو ط نہیں ہوسکتا تاوقتیکہ عظمت انسان بلند نہ ہو اور ایسے لوگوں کو تلاش نہ کیاجائے جن کا ملنا مشکل ہو۔ بلکہ حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے ایک متوازن انسان تلاش کرکے اسے منصب پر بٹھایاجائے اور جب وہ منصب کی ذمہ داری کا حلف اٹھائے تو اس کے پیش نظر ذاتی مفادات نہ ہوں۔ اس کا سیاسی ماضی فیصلے کرنے میں حائل نہ ہو اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب انسان، انسان پر بھروسہ اور اعتماد کرکے آگے بڑھے۔