غیرطبقاتی موذی کورونا وائرس

March 28, 2020

روز آشنائی … تنویرزمان خان، لندن
آج کل کرونا وائرس کے علاوہ کچھ اور لکھنے کی کوشش کروں تو لگتا ہے بے وقت کی راگنی گانے لگا ہوں۔ یہ وائرس تو اپنی شدت کی طرف بڑھتا جارہا ہے۔ مجھ سمیت کتنے انسانو ں کا کیا کیا کچھ بگڑ جائے گا، کون کون اس وائرس میںکھو جائے گا، کچھ اندازہ نہیں۔ یہ ہزاروں جانوں پر مک مکا کرے گا یا کروڑوں پر تعداد پہنچنے پر خلاص ہوگی۔ یہ ایک دو مہینوں میںکنٹرول میںآجائے گا، یا اپنی طبعی عمر پوری کرکےہی جان چھوڑے گا تاحال کسی کو کچھ نہیں پتہ۔ ہم لاک ڈاؤن میں بیٹھے ہیں،نہ تو ہم نے کسی کے گھر جانا ہے نہ ہی کسی نے ہماری طرف آنا ہے۔ سب رابطےڈیجیٹل ہو کررہ گئے ہیں یہ جتنا طویل ہوتا جائے گا دنیا بھر میں اتنی ہی تبدیل ہوتی جائے گی۔ ابھی تو وائرس انسانوں کو دفن کررہا ہے جب خود دفن ہوگا تو ہماری سماجی Patternبھی بدل رہے ہو ںگےیا پھر ہمیں انہیں بدلنا ہوگا۔ لاک ڈاؤن پرانے سوشل سیٹ اپ کو توڑنے کی کوشش کررہا ہے اور کچھ نئی اقدار کی بنیاد بھی رکھ رہا ہے جب یورپ میں چوہدویں صدی میں طاعون یا بلیک ڈیتھ یا پلیگ کی وبا نے یورپ کی 60 فیصد آبادی ختم کردی تھی اور کل دنیا سے 5کروڑ انسان اس چوہوں کے کیڑوں سے پیدا ہونے والی وبا کی نذر ہوگئے تھے۔ اس وقت دنیا کی کل آبادی45کروڑ تھی، یعنی 11فیصدآبادی صفحہ ہستی سے مٹ گئی اور یہاںیورپ میں صنعتی انقلاب تو اپنی جڑیں تیزی سے مضبوط کررہا تھا۔ اس لئے یہاں ورکنگ کلاس کی شدید قلت پیدا ہوگئی اور مزدور طبقے کی طلب میں اضافہ ہوگیا تو مزدور کے معاوضے میںتبدیلیاں رونما ہوئیں۔ یورپ میںSlave industryتو برقرار رہی البتہ جاگیرداری نظام کے خاتمے میںکافی مدد ملی۔ اس طرح 2003میںسارس SARSکی وبا نے چین کی معیشت میںتیزی کے انجیکشن لگائے۔ اس وبا نے تقریبا ایک سال کیلئے کئی کروڑ انسانوں کو آج کی طرح ہی جان لیوا وائرس سے بچنے کیلئے گھروں میںرہنے پر مجبور کردیا تھا۔ لیکن اس پابندی نے چین کے کامرس سیکٹر کو آگے بڑھنے میں بہت مدد کی تھی حالانکہ اس وائرس سے چین کے صرف آٹھ سو لوگ جاں بحق ہوئے تھے۔اس وقت چین میںانٹرنیٹ سے متعلقہ ٹیکنالوجی بھی بہت مضبوط ہوگئی تھی اور انٹرنیٹ Mass Medium کے طور پر ابھرا اور اسی وبا کے نتیجے میں ڈیجیٹل موبائل فون ٹیکنالوجی میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔ اس وائرس نے Texting کے استعمال کو چین میںبہت بڑھا دیا۔ میرا مقصد آج اس کرونا وائرس
سے ہونے والے ممکنہ فوائد گنوانا قطعا مقصود نہیں ہے۔ جب گزشتہ دونوں وباؤں سے انسان لڑرہا تھا تو اس لڑائی میں وائرس ہار تو گیا تھا لیکن جتنی جانیں لے کر گیا وہ تعداد سن کر ہی دل سے خون کے آنسو ٹپکنے لگتے ہیں۔ ویسے انسان کا ارتقاء فطرت سے لڑتے لڑتے اسی طرح سے ہوا۔ کبھی انسان، انسانوں سے لڑتا اور کچھ ناپسندیدہ انسانوں کو ختم کرنا چاہتا ہے اور کبھی فطرت سے لڑتا ہے اور اسے اپنے حق میں ڈھالنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اب یہ موجودہ کورونا وائرس جس میں آپ اور مجھ جیسے سبھی ایک انتہائی خوفناک تجربے سے گزررہے ہیں یہ وائرس امیر اور غریب کے ایشو سے بھی بالاتر ہے ۔ اگر شہزادے چارلس کا وائرس ٹیسٹ Positiveآسکتا ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس وائرس کے آگے تو نگر کیا اور مفلس و ناچار کیا۔ گویا یہ وائرس طبقاتی شعور سے بے بہرہ ہے سبھی کا دشمن ہے پوری انسانیت کا دشمن ہے۔ جب یہ پوری انسانیت مل کر اسے شکست دے ہوچکی ہوگی تو سوچا جاسکتا ہے کہ کئی انسان دوست تبدیلیاں بھی اس دنیا میں آجائیں گی یا لائی جاسکتی ہیں۔ مشکل وقت میںلوٹ مار کا کلچر بھی ختم کیا جاسکتا ہے۔ ہزاروںکاروبار ختم ہوجائیں گے۔ لاکھوں لوگ بے روزگار ہوں گے مگر نئے آجر بھی ابھریں گے اور نئے مزدور بھی۔ کئی نئے احساسات جڑیں پکڑیں گے۔ لگتا ہے فطرت (نیچر) نے اپنی جگہReclaim کی ہے اور نیچر انسان کو یہ احساس دلارہی ہے کہ تم نے اپنے منافعوں اور فوائد کی خاطر سب کچھ بھلا دیا حالانکہ تم اکیلے اس کے مالک نہیں۔ تم صرف ایک شیئر ہولڈر ہو مگر تم نے میرا شیئر بھی ہضم کرلیا ہے۔ میرے جنگل کا ٹ دیئے میرے دریاسکھا دیئے ہیں۔ میری ہواؤں کو آلودہ کردیا ہے، میرے پانیوں میںزہر ملاد یا ہے۔ میرے پرندوں پر ہوائیں تنگ کردی ہیں۔ میری مچھلیاں سمندروں میں زہر اور پلاسٹک کھانے لگی ہیں۔ میرے جانور ناپید کرکے رکھ دیئے ہیں۔ اب میں محبت(Love) کو نئے معانی کے ساتھ پھر سے پیدا کرنا چاہتی ہوں۔ اب آپ انسانوں کو Reset کا بٹن دبانا ہے اور ابCo Existence کو بڑھانا ہے، نفرت کو مٹانا ہے۔ اب صرف محبت سے خوش آمدید کہنے والی عمارات بنانی ہیں۔ جہاں موت بھی محبت کو جنم دے جہاں کوئی ہنگامی حالت کو کمینگی کی نظر سے نہ دیکھے۔ جہاں صرف خوشحالی کی منصوبہ بندی ہوگی تاکہ مجھے آئندہ کسی وائرس کا سہارا نہ لینا پڑا۔ یہ وہ منشور ہے جو اس وائرس کے در دزہ سے جنم لے گا لیکن ہم آج سے موجود سب انسانوں کو اس منشور کے حصول کیلئے اس موذی وائرس سے لڑنا ہے اور اس منشور کو اپنی زندگی ہی میںلانا اور لاگو کرنا ہے، مجھے سب نے بچانا اور میں نے سب کو بچانا ہے ، اگر یہ وائرس طبقاتی شعور سے بے بہرہ وائرس ہے تو ہم انسان کو بھی اپنے اندر سے اس موذی طبقاتی تقسیم کو مٹانا ہے اور اس وائرس کو مٹانے کیلئے اپنی بقا کی جنگ بھی لڑیں بھی اور اسے سیکھیں بھی۔