کورونا وائرس اور آئسو لیشن وارڈز

March 29, 2020

آج پوری دنیا کورونا وائرس کی وجہ سے ایک عجیب و غریب خوف و ہراس میں مبتلا ہے۔ روز بروز شرح اموات میں اضافہ ہو رہا ہے، اب تک دو سو کے قریب ممالک اس خطرناک اور جان لیوا وائرس کی زد میں آ چکے ہیں۔ حکومت کا یہ کہنا کہ اس وائرس سے ڈرنا نہیں، سمجھ سے باہر ہے۔ ایک طرف ایک ہزار سے زائد مریض اس وائرس میں مبتلا اور 8افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں جبکہ روز بروز یہ وائرس بڑھ رہا ہے۔ پورے سندھ کو دو ہفتوں کے لئے لاک ڈائون کیا ہوا ہے اور پنجاب کو بھی اب لاک ڈائون کر دیا گیا ہے مگر پنجاب میں لاک ڈائون والی کوئی صورت نظر نہیں آئی۔ پوری دنیا میں چھ لاکھ کے قریب افراد اس موذی وائرس میں مبتلا ہو چکے ہیں، 26ہزار افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، ایک لاکھ سے زائد افراد صحت یاب بھی ہو چکے ہیں۔

اٹلی میں اس وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد اس لئے بڑھی کہ وہاں لوگوں نے اس وائرس کو بالکل سنجیدگی سے نہیں لیا۔ جو رویہ اٹلی کے لوگوں کا رہا وہی رویہ آج پاکستانی قوم کا ہے۔ ہم خود لاک ڈائون کے پہلے اور دوسرے روز جب دفتر کیلئے نکلے تو ہمارا خیال تھا کہ سڑکیں سنسان ہوں گی، ڈپارٹمنٹل اسٹورز پر بہت ہی کم لوگ ہوں گے لیکن ہمیں یہ دیکھ کر انتہائی حیرت ہوئی جب پورا پورا خاندان بچوں کو موٹر سائیکل کی ٹینکی پر بٹھاکر اورموٹر سائیکلوں پر تین سے چار افراد بغیر ماسک کے جا رہے تھے۔ حکومت نے کہا تھا کہ صرف ایک فرد گھر سے جا سکتا ہے وہ بھی اگر انتہائی ضروری کام ہے۔ یہاں تو نوجوان اور دیگر لوگ اس طرح گھوم رہے تھے جیسے کوئی بات ہی نہیں۔

اٹلی کے لوگ اپنے غیر سنجیدہ رویے اور سیر و تفریح کی عادت کے ہاتھوں مارے گئے اور مارے جا رہے ہیں، اگرچہ اب پورا اٹلی لاک ڈائون میں ہے مگر جن سینکڑوں لوگوں نے اس وائرس کے جراثیم اپنے جسموں میں داخل کر لئے ہیں وہ تاحال خود دوسرے لوگوں کو بطور کیریئر لگا رہے ہیں۔ سو ہمارے ملک میں بھی ایسا ہی کچھ ہو رہا ہے۔ ہم اٹلی سے زیادہ ترقی یافتہ اور طبی سہولتیں نہیں رکھتے۔ ہماری آبادی بھی اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ہمارے وسائل بھی کم ہیں۔ ہمارے اسپتال اٹلی، امریکہ، اسپین، برازیل اور کئی دیگر ممالک سے یقینی طور پر کم معیار کے ہیں۔ اگر خدانخواستہ پاکستان میں اٹلی والی صورتحال پیدا ہو گئی تو یقین کریں کہ حالات سنبھالے نہیں جائیں گے۔ حکومت نے اگرچہ اپنے تئیں کافی اقدامات کیے ہیں مگر یہ سارے اقدامات اور حفاظتی حصار تب تک کامیاب نہیں ہوں گے جب تک عوام سو فیصد حکومت سے تعاون نہیں کریں گے۔ عوام کو شاید اس اذیت اور تکلیف کا اندازہ نہیں جو کورونا وائرس کے مریض کو برداشت کرنا پڑتی ہے۔ پھیپھڑوں میں سانس لیتے وقت شدید ترین درد ہوتا ہے، پورا جسم بدترین درد میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اب تو ماہرین نے یہاں تک کہہ دیا کہ کورونا وائرس کی علامات میں یہ بھی ہے کہ انسان سونگھنے اور ذائقہ کی حس سے محروم ہو جاتا ہے۔

پنجاب حکومت نے لاہور کے سروسز اسپتال، جناح اسپتال، میو اسپتال اور پی کے ایل آئی میں آئسولیشن وارڈز قائم کیے ہیں۔ ہمارے خیال میں کسی بھی جنرل اسپتال میں کورونا کے لئے آئسولیشن وارڈز بنانا مناسب نہیں کیونکہ جب کورونا کا مریض اس جنرل اسپتال میں آئے گا تو راستے میں دیگر کئی مریضوں کو وائرس لگا دے گا۔ دوسری طرف جنرل وارڈز میں داخل دل، گردے، شوگر، جگر، پیٹ، ہڈیوں، اعصاب، پٹھے، ناک، کان، گلا اور نفسیاتی بیماریوں کے مریضوں کی زندگیوں کوبھی شدید خطرہ ہے۔ مثلاً پی کے ایل آئی یعنی پاکستان کڈنی لیور انسٹیٹیوٹ میں جو مریض گردوں اور جگر کے داخل ہیں ان میں پہلے ہی قوتِ مدافعت بہت کم ہوتی ہے، کچھ ادویات کی وجہ سے کچھ عمر کی وجہ سے اور کچھ بیماری کی وجہ سے۔ جن افراد کی عمریں زیادہ نہ بھی ہوں لیکن گردوں اور جگر کی بیماریوں کی وجہ سے ان کی قوتِ مدافعت ویسے ہی کم ہوتی ہے چنانچہ ہماری حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ لاہور میں گورنمنٹ مزنگ اسپتال، گورنمنٹ سید مٹھا اسپتال، گورنمنٹ شاہدرہ اسپتال، گورنمنٹ سمن آباد اسپتال، گورنمنٹ برکی اسپتال اور گورنمنٹ بیدیاں اسپتال کو کورونا وائرس کیلئے مخصوص کرتی کیونکہ ان اسپتالوں میں پہلے سے کئی سہولتیں موجود ہیں مثلاً بیڈز، ایکسرے مشینیں، لیبارٹریز، ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل اسٹاف، نرسیں، صفائی کرنے والا عملہ اور اس پر حکومت کا اضافی پیسہ بھی نہیں لگنا تھا جبکہ ایکسپو سنٹر اور دیگر جگہوں پر آئسولیشن وارڈز بنانے پر اچھی خاصی رقم خرچ ہوتی ہے۔

دوسرا، حکومت کورونا وائرس کے لئے جو کروڑوں روپے مخصوص کر رہی ہے اس کا بھی آڈٹ کرایا جائے کہ وہ رقم کہاں خرچ ہو رہی ہے اور کن لوگوں کو چیزوں کی سپلائی کے ٹھیکے دیے جا رہے ہیں۔ بعد میں نیب یا اینٹی کرپشن والے کیس بناتے پھریں اس لیے بہتر ہے کہ حکومت اس رقم کو مریضوں اور عوام کو بہترین سہولتیں دینے پر خرچ کرے۔ اس وقت کئی ایسی وڈیوز وائرل ہو چکی ہیں کہ جن لوگوں کو شک کی بنا پر مختلف سرکاری اسپتالوں میں رکھا ہوا ہے، انہیں نہ تو کھانا مل رہا ہے نہ کوئی ڈاکٹر ان کے پاس جا رہا ہے۔ اس وقت میڈیکل کا عملہ سب سے زیادہ خطرے میں ہے چنانچہ سرکاری اسپتالوں میں کام کرنے والے تمام عملے کو مکمل کٹس مہیا کی جائیں۔ اسپتالوں میں مریض کے ساتھ صرف ایک فرد کو آنے کی اجازت ہو اور غیر ضروری لوگوں کے داخلے پر پابندی لگائی جائے۔ آئندہ چند ہفتے کورونا وائرس کے حوالے سے بڑے خطرناک ہیں۔ کاش نون لیگ کی حکومت اورنج ٹرین پر 1425ارب روپے خرچ کرنے کے بجائے پنجاب میں متعدی امراض کے دوچار جدید اسپتال ہی بنا دیتی۔