آپ کا صفحہ: بین الاقوامی اخبارات میں…

April 05, 2020

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

کردار کا خط

وادیٔ کشمیر پر لکھی تحریر کوئی افسانہ نہیں، ایک کڑوی سچائی تھی، لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ پورے میگزین میں ’’کشمیر کی بیٹی‘‘ کی کوئی تحریر نظر نہیں آئی۔ سَنی علی سے بات چیت اچھی لگی، لیکن کچھ ادھوری سی تھی۔ اچھا ہوتا کہ یہ بھی بتایاجاتا کہ ایمزون پر کاروبار کرنے کاطریقہ کیا ہے اور کیسے آن لائن کمائی کی جاسکتی ہے۔ ’’خمارِ گندم‘‘ میں بھانت بھانت کا کھانوں کا تذکرہ تھا، لیکن پڑھ کر طبیعت بوجھل سی ہوگئی۔ چچا چھکّن ایک مزاحیہ کردار ہے، جس کے خالق امتیاز علی تاج تھے، وہ تو اب زندہ نہیں رہے، تو پھر ہر ہفتے اُن کے کردار کا خط کیسے شایع ہو رہا ہے۔ (عبدالسلام صدیقی بن عبیداللہ تائب، نارتھ کراچی، کراچی)

ج: تائب کے نورِ نظر کا خط شایع ہو سکتا ہے، تو امتیاز علی تاج کے کردار کا کیوں نہیں۔

جو نہیں جانتے وفا کیا ہے…

سرِورق پر ماڈل مسکراہٹ بکھیررہی تھی۔ حالات و واقعات میں منور مرزا، ٹرمپ اور عمران کی چھے ماہ میں تیسری ملاقات کا احوال لے کے آئے۔ واہ بھئی ؎ ہم کو اُن سے وفا کی ہے اُمید… جو نہیں جانتے وفا کیا ہے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں جنگِ خندق کا احوال پڑھنے کو ملا۔ ’’عجائب خانہ‘‘ کے ذریعے عرفان جاوید پتھر کے دَور سے آج تک کے انسان کی کھانے پینے کی تاریخ بیان کر رہے ہیں اور بہت ہی لاجواب انداز ہے۔ ڈاکٹر قمر عباس نے معروف ادیب، ڈراما نگار، امتیاز علی تاج اور اُن کے خاندان کا تحقیقی مقالہ پیش کیا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں عالیہ کاشف موسم سرما کے ملبوسات کے ساتھ آئیں۔ ’’انٹرویو‘‘ میں شفق رفیع نے سَنی علی کی جدوجہد اور عزم و ہمّت سے خُوب آگاہ کیا۔ ’’رپورٹ‘‘ میں نسرین جبیں پشاورکی جانور دوست فیملی سے متعارف کروا گئیں۔ بےشک انسان کو اللہ کی تمام مخلوقات سےمحبت کرنی چاہیے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں روبینہ شاہد نے لوکی کی افادیت بیان کی۔ ناول ’’عبداللہ‘‘ تو بس عبداللہ ہی ہے اسمِ بامسمیٰ، مگر ڈاکٹر احمد حسن رانجھا نے بھی کشمیر ڈے کی مناسبت سے اچھی تحریر پیش کی۔(شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میر پورخاص)

بین الاقوامی اخبارات میں…

سب سے پہلے تو مَیں اتنا اچھا میگزین مرتّب کرنے پر آپ کو دلی مبارک باد دیتا ہوں۔ اُس کے بعد آتے ہیں صفحہ ’’سرچشمۂ ہدایت ‘‘ کی طرف، بلاشبہ اس کے ذریعے آپ لوگ جو علم کی شمع روشن کر رہے ہیں، اپنی مثال آپ ہے۔ پوچھنا یہ تھا کہ ان سلسلے وار مضامین کی کوئی کتابی صُورت بھی دست یاب ہے یا نہیں؟ منور مرزا ایک بڑے لکھاری ہیں۔ بھارت کے مسلمانوں کا مقدمہ انہوں نے بڑے دلائل کےساتھ پیش کیا۔ میرے خیال میں تو اُن کا مضمون انگریزی میں ترجمہ کر کے بین الاقوامی اخبارات میں شایع کروانا چاہیے۔ طلعت عمران کی تحریرکا بھی جواب نہیں تھا۔ ڈاکٹر غلام علی کا مضمون معلوماتی تھا۔ عرفان جاوید نے’’عجائب خانہ‘‘ کے تحت ’’خمارِگندم‘‘ کے عنوان سے جو معلوماتی سلسلے وار مضامین تحریر کرنا شروع کیےہیں، وہ اِس دَور سے بہت آگے کی باتیں ہیں۔ مُلک کا 10فی صد پڑھا لکھا، باشعور بلکہ جینئس طبقہ ہی صحیح معنوں میں اِن سے مستفید ہوگا۔ ’’نئی کتابیں‘‘ اور ’’ہمارا وَرثہ‘‘ دونوں سلسلےپسند آئے۔ ’’عبداللہIII‘‘ فلسفیانہ رنگ لیے آگے بڑھ رہا ہے۔ ناقابلِ فراموش کے تینوں واقعات زبردست تھے۔ ویل ڈن، ہمایوں ظفر۔ اب آتے ہیں، ’’آ پ کا صفحہ ‘‘کی طرف، اس ہفتے بھی نام کے راجہ جی مسند پرجلوہ افروز تھے۔ باقی خطوط بھی پسند آئے۔ (سلیم اسمعٰیل چھاپرا، فیڈرل بی ایریا، کراچی)

ج:جی، بلاشبہ منور مرزا کےمدلّل تجزئیات کا ایک زمانہ معترف ہے۔

اکٹھا دیکھنےکےخواہش مند

سورج کی چمکتی، خوش گوار کِرنوں کے ساتھ میگزین کی آمد نے موسم کو کچھ مزید دل فریب کر دیا۔ ’’یہ کس حسیں دیار کی ٹھنڈی ہوا چلی‘‘ بہترین مصرع تھا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے عمران، ٹرمپ ملاقات کا زبردست تجزیہ کیا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں سلسلہ ’’غزوات و سرایا‘‘ کی 11ویں قسط سے فیض یاب ہوئے۔ نئے سلسلےمیں عرفان جاویدجیسے کہنہ مشق لکھاری کو دیکھ کر بےحد خوشی ہوئی کہ ’’عجائب خانہ‘‘ میں ’’خمارِ گندم‘‘ کی پہلی ہی قسط، الفاظ کے حسین و لطیف خمار میں ڈوبی ہوئی تھی۔ گرچہ اندازِ تحریرتھوڑا ثقیل ہے، لیکن مضمون کی روانی، دل چسپی گویا اپنے سحر میں جکڑ کے رکھتی ہے۔ بلاشبہ تخلیق کاری کی جستجو میں انسان ایسے ایسےہی کارہائے نمایاں انجام دیتاہے۔ ویسے ہم کافی عرصے سے عرفان جاوید اور ہاشم ندیم کو میگزین میں اکٹھا دیکھنے کےخواہش مند تھے۔ اس بار دونوں مَن پسند رائٹرز محفل آراء تھے، دل خوش ہوگیا۔ کھوجی لکھاری، ڈاکٹر قمر عباس ’’خانوادے‘‘ میں امتیازعلی تاج کاذکرِ خیر کر رہےتھے، تو انٹرویو میں ایکسٹریم کامرس کے بانی، سَنی علی کی سنجیدہ گفتگو نے بھی متاثر کیا۔ سینٹر اسپریڈ‘‘ پر سرسری نگاہ ڈال کر آگے کی راہ لی۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر مقبول شاہد نے سرطان سےمتعلق تفصیلا ً آگاہ کیا۔ ڈاکٹر رانجھا کا خصوصی آفسانہ بھی پسند آیا۔ شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی کی چِٹھی کے جواب میں آپ نے لکھا کہ ’’ہم بے چارے اقدار و روایات کے تنہا علَم بردار‘‘ تو آپ بالکل بھی تنہا نہیں ہیں۔ اَن گنت لوگ آج بھی رسوم و رواج، اقدار و روایات کی پاس داری میں آپ کے ساتھ ساتھ ہیں۔ (ملک محمد رضوان، محلہ نشیمن اقبال، واپڈا ٹاؤن، لاہور)

ج: افسوس کہ آپ کی دیرینہ خواہش کی تکمیل کی عُمربہت تھوڑی رہی۔ ہاشم ندیم، ناول کی مزید اقساط اب تک نہیں بھیج پائے۔ سو، فی الحال آپ ایک وقت میں ایک ہی مَن پسند لکھاری کے اندازِ تحریر سے لُطف اندوز ہوسکیں گے۔

معاوضہ ادا کرتے ہیں؟

مَیں میگزین کےلیےلکھناچاہتاہوں۔ کیا آپ شایع ہونے والی تحریروں کا کچھ معاوضہ ادا کرتے ہیں۔ اگر ادا کرتےہیں، تو مَیں کچھ لکھ کر روانہ کر پائوں گا۔ (طارق احمد بٹ، گلزار ہجری، اسکیم 33،کراچی)

ج: جی نہیں۔ یہاں ادارے کے کارکنان دن رات کام کرکے بھی اپنے ماہانہ مشاہروں سے محروم ہیں، فِری لانسرز کو معاوضہ کہاں سے ادا کیا جائے۔ اور اس ’’تبدیلی سرکار‘‘ کے ہوتے تو بھول جائیں کہ میڈیا انڈسٹری پر کوئی اچھا وقت بھی آئے گا۔

جوابات زیادہ پُرلُطف

مَیں آپ کے جریدے کا بہت ذوق و شوق سے مطالعہ کرتا ہوں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ پسندیدہ ترین صفحہ ہے۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں شایع ہونے والے خطوط پڑھ کر بھی بہت لُطف آتا ہے۔ ویسے اصل لُطف آپ کے جوابات پڑھنے میں آتا ہے۔ مَیں نے ایک نظم بھی بھیجی ہے۔ اِسے جلد از جلد شایع کر دیں۔ (محمّد عمیر لنگوی، سیال کوٹ)

ج: نظم قابلِ اشاعت ہوئی، تو شامل ہوجائے گی۔ ویسے جوابات پڑھ کے زیادہ لُطف تب ہی آتا ہے، جب وہ کسی اور کے لیے ہوں۔

خمارِ گندم کا جواز

میگزین کی ابتدا ہی تصویر بُتاں سے ہوتی ہےکہ ؎ ہم اس کے سامنے حُسن و جمال کیا رکھتے… واہ بھئی۔ صحت کارڈ پر فیچر اچھا تھا۔ ویسے یہ’’ سرچشمۂ ہدایت‘‘ کو اوّل صفحے پر جگہ کب ملے گی۔ اور یہ جو آپ نے بلاوجہ ہی عوام کو ’’کورونا وائرس‘‘سے خوف زدہ کرنے کی سعیٔ ناکام کی ہے، اس سے کیا حاصل ہو گا۔ چین ازل سے ہمارا دوست ہے، اور رہے گا۔ ہاں، جو آپ کے ادارے کے حالات ہیں، اُن میں ’’خمارِ گندم‘‘ کا جواز بلاشبہ خُوب بنتا ہے۔ (رانا عبدالشکور جاذب،گوجرانوالہ)

ج: کورونا وائرس کے خطرات سے آگاہی کی جوہم نے سعیٔ ناکام کی، اُس کا جواز تو اب آپ کو بخوبی سمجھ آگیا ہوگا، لیکن محدود عقل رکھنے والوں سے اس موضوع پر اب بھی بات کرنا بے کار ہے۔ البتہ ’’خمارِ گندم‘‘ کی اشاعت کے حوالے سے آپ نے جو طنز فرمانے کی کوشش کی ہے، وہ صرف آپ ہی کے لیے نہیں، آپ جیسی سوچ رکھنے والے ہر فرد کے لیے سخت افسوس اور شرم کا مقام ہے کہ یہ ہزاروں میڈیا ورکرز اور اُن کے لاکھوں اہلِ خانہ کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔

اپنی سوچ بدلیں

سنڈے میگزین میں ریڈیو سے متعلق رپورٹ انتہائی بورنگ تھی۔ ارے بھئی، اب کون سا ریڈیو کا زمانہ ہے۔ اب تو انٹرنیٹ کا دَور ہے۔ یو ٹیوب پر جو جی چاہے دیکھو، آج کل بھلا کون ریڈیو سُنتا ہے۔ براہِ مہربانی کوئی رپورٹ شایع ہی کرنی ہے، تو گوگل، فیس بُک، انسٹا گرام اور واٹس ایپ وغیرہ پر شایع کریں۔ آپ کے لیے بہت ضروری ہے کہ آپ اپنی سوچ بدلیں۔ (نواب زادہ خادم ملک، سعید آباد، کراچی)

ج: ہماری سوچ، سمجھ بوجھ تو خاصی پختہ ہو چکی، اس کا بدلنا تو اب مشکل ہے۔

محنت کررہے ہیں

تازہ سنڈے میگزین کے ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نےبھارتی مسلمانوں پر بہت ہی اچھا مضمون لکھا، پڑھنےسےتعلق رکھتاتھا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ’’غزوات و سرایا‘‘ سلسلےسےمعلومات میں بےحد اضافہ ہوا، ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں طلعت عمران کے مضمون کا بھی جواب نہ تھا۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رائو محمّد شاہد اقبال نے ریڈیو پر لکھ کر تو پرانی یادیں تازہ کردیں۔ جب ہم ریڈیو پاکستان، کراچی کی کمرشل سروس، آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس اور ایران زاہدان اردو پروگرام سے خُوب لُطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ ’’ہمارا وَرثہ‘‘ میں محمّد ریحان کی نور محل کی سیر زبردست رہی۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں بریانی کی تراکیب کا جواب نہ تھا۔ ’’عبداللہ‘‘ نے تو دیوانہ بنا ہی رکھا ہے اور ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں محمّد ہمایوں ظفر بھی کافی محنت کررہے ہیں۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: جی ہاں! ہمایوں ظفر محنت تو کر رہے ہیں، لیکن قارئین سے بھی درخواست ہےکہ ایسےمنفرد، ناقابلِ فراموش واقعات ہی لکھ کربھیجیں، جن سےکوئی سبق حاصل ہو، جن میں کوئی پیغام پوشیدہ ہو۔ اب اُلٹی سیدھی، جھوٹی سچّی، توہمات پر مبنی، بھوت پریت کی کہانیوں کی جان بخش دیں۔

اگر کسی کی دھوم ہے

چاند، ستاروں، کہساروں میں، ہوائوں، فضائوں، باغوں میں، گلابوں، پھولوں، خُوشبوئوں میں، وفائوں، دُعائوں، صُبحوں، شاموں میں، صحرائوں، میدانوں، اندھیروں، اُجالوں میں، دِلوں، دماغوں، خیالوں، تصویروں میں، رنگوں، روشنیوں اور مہکتے میٹھے بولوں میں اور… اُردو سے محبت کرنے والوں میں اگر کسی جریدے کی ہر طرف دھوم ہے، تو وہ جنگ، سنڈے میگزین ہی ہے۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)

ج: اللہ اپنا رحم، کرم فرمائے، فی الحال تو ’’چہارسُو‘‘ صرف ایک ہی ذکر ہے، اور وہ ہے کورونا وائرس کا۔

گراں قدر خدمات

صوبہ خیبر پختون خوا کے انسپکٹر جنرل آف پولیس ثناء اللہ عباسی کا تفصیلی انٹرویو پڑھ کر طبیعت باغ و بہار ہوگئی۔ بلاشبہ وہ ایک مثالی پولیس آفیسر ہیں۔ ان کی جب بطور ایس ایس پی، ملیر ہمارے ضلعے میں پوسٹنگ ہوئی تھی، تو کوئی پرندہ پَر نہیں مار سکتا تھا۔ آج بھی ملیر کے لوگ اُن کی گراں قدر خدمات یاد کرتے ہیں۔ متذکرہ شمارہ مجموعی طور پر کافی بہتر لگا۔ ایک بات پوچھنی تھی کہ عُمر کوٹ کے تاریخی قلعے کے متعلق ایک تحریر لکھ کر ارسال کی تھی، اُس کا کچھ اتا پتا نہیں۔ نیز، ’’اِک رشتہ، اک کہانی‘‘ کے لیے بھی ایک تحریر اپنےدوست سےمتعلق بھیجی تھی۔ (اسلم قریشی، ملیر، کراچی)

ج: آپ کی تحریریں قابلِ اشاعت ہوں گی، تو شایع ہوجائیں گی۔ نہیں تو نام ناقابلِ اشاعت کی فہرست میں آجائے گا۔

دیگر صوبوں کی شخصیات

شمارہ زیرِ مطالعہ ہے۔ حسبِ سابق سلسلۂ غزوات و سرایا مطالعےمیں سرِفہرست رہا۔ شفق رفیع آپ کی ٹیم میں ایک بہترین اضافہ ہیں۔ کورونا وائرس سے متعلق انہوں نے مفید معلومات فراہم کیں۔ عرفان جاوید جب لکھتے ہیں، خُوب لکھتے ہیں۔ خمارِ گندم بھی ایک بہت ہی منفرد، اچھوتی سی تحریر ہے۔ زیادہ تر انٹرویوز کے پی کے سے کیوں کروائے جاتے ہیں۔ دیگر صوبوں کی اہم شخصیات کے انٹرویوز بھی ہونے چاہئیں۔ ڈاکٹر قمر عباس نے جوش ملیح آبادی کے متعلق لکھا اور خُوب لکھا، ان کی تحقیق و جستجو پورے مضمون سے عیاں تھی۔ میرے پسندیدہ رائٹر، منور مرزا اس دفعہ برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلا پر رقم طراز تھے۔ ڈائجسٹ کی دونوں تحریریں اچھی رہیں۔ عبداللہ ناول خوب ذوق و شوق سے پڑھا جارہا ہے۔ اور ہاں، پچھلی بار خط پر میرا نام غلط شایع ہوگیا تھا۔ براہ مہربانی اس بار درست شایع کیجیے گا۔(حارث علی خان، ملیر کالونی، کراچی)

ج: دراصل جنگ، کراچی تو ہیڈ آفس ہونے کے ناتے اپنی ذمّے داریاں بحسن و خوبی نبھاتا ہی ہے، لیکن پشاور کی جنگ، سنڈے میگزین کی ٹیم بھی خاصی ایکٹیو ہے، تو وہ بھی مستقلاً اپنا حصّہ ڈالتے رہتے ہیں۔ اسی لیے آپ کو کے پی کے کی نمائندگی زیادہ نظر آتی ہے۔ دیگر اسٹیشنز کو بھی فعال کرنے کی کوشش تو کررہے ہیں۔ اور اس بار بہت دھیان سے آپ کا نام بالکل درست شایع کیا ہے۔ امید ہے، آئندہ ایسی کوئی شکایت نہیں ہوگی۔

منفرد موضوع، ذرا ہٹ کے

مَیں نے پچھلے 3 ماہ میں صرف 3 خط تحریر کیے، تاکہ سب کی باری آتی رہے۔ آپ نامساعد حالات میں بھی بہترین سنڈے میگزین شایع کررہے ہیں۔ مجموعی طور پر میگزین دل چسپ ہوتا ہے۔ ہاں، کبھی کبھی طنز و مزاح کی کچھ کمی محسوس ہوتی ہے۔ اس بار ایک دیانت دار، پولیس افسر کا انٹرویو پڑھنے کا موقع ملا، اُن کی حقیقت سے نزدیک باتیں سُن کر بہت اچھا لگا۔ پچھلی 4-3 قسطوں سےناول عبداللہ بڑا اچھا جارہا ہے۔ عرفان جاوید نے ’’خمارِ گندم‘‘ کے عنوان سے کھانے کی لازوال تاریخ پیش کی، پڑھنے میں بہت مزہ آیا۔ ویسے یہ موضوع بہت ہی منفرد اور ذرا ہٹ کے نہیں ہے۔ شاعرِ انقلاب، جوش ملیح آبادی کے بارے میں ڈاکٹر قمر عباس کے لکھے مضمون کے تو کیا ہی کہنے۔ (ظہیر الدین غوری، سرگودھا)

ج: جی بلاشبہ، بہت منفرد موضوع اور تحریر بھی خاصی ہٹ کے ہے۔

کس حد تک قابلِ اعتبار؟

جاتی سردیوں نے آج ہلکی سی جھلک دکھلائی، میٹھی میٹھی سی خنکی۔ مَیں فجرکی نماز پڑھنے کے بعد بجائے واک کے، دوست کے ساتھ صبح کی چائے پینے چلا گیا اور اس خوش گوار موسم کو خوب انجوائےکیا۔ ایسے میں ساتھ سنڈے میگزین بھی ہو تو کیا کہنے۔ ’’سر چشمۂ ہدایت‘‘ میں فتح مکّہ کے بارے میں خُوب لکھا گیا۔ پی ایس ایل کا ہنگامہ خاصا زوروں پر رہا، لیکن صد شُکر میگزین کافی حد تک محفوظ ہے۔ ہاں، ایک بات پوچھنی تھی، یہ جو میگزین میں ٹوٹکے شایع ہوتے ہیں، اُن پر کس حد تک اعتبار کیا جاسکتا ہے۔ (سمیع عادلوف، جھڈّو، ضلع میرپورخاص)

ج: آزما دیکھیں، خود ہی اندازہ ہوجائے گا کہ کس حد تک اعتبار کیا جاسکتا ہے۔

فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

مَیں اپنے پارہ پارہ خیالات کو لغات کے پیوند لگا کر مرمّت کرتے ہوئے یہ خط لکھ رہی ہوں ؎ شاید کہ اُتر جائے تِرے دل میں میری بات۔ میگزین کی کم و بیش تمام تحریریں باعثِ تسکین و اطمینان بنتی ہیں اور اس لحاظ سے جریدہ پرفیکٹ ہے کہ اس میں سیاسی، سماجی، معاشرتی پہلوئوں کے ساتھ تفریحی پہلو کو بھی ضرور پیشِ نگاہ رکھا جاتا ہے۔ سرورق کی حسینہ کے مُسکراتے چہرے پر نظر پڑی تو دل شاد ہوگیا۔ منور مرزا کا مضمون پڑھا، تو دل سے آواز آئی کہ اللہ مسلمانوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سے صحیح معنوں میں مستفید ہوئے۔ اشاعتِ خصوصی میں ریڈیو کی کہانی پڑھ کر دل باغ باغ ہوگیا بلکہ ایک حسین ماضی میں لے گیا۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس نےشعورو آگہی فراہم کی، تو ’’خمارِ گندم‘‘ بھی آپ نے ایک آئوٹ اسٹینڈنگ سلسلہ شروع کیا ہے، بخدا بڑھ کر بہت ہی محظوظ ہوئے۔ ماڈل کے ڈریسز بھی اچھے تھے۔ کلچر کو پروموٹ کرتے نظر آئے۔ عالیہ کاشف نے طوبیٰ صدیقی سے اچھی بات چیت کی۔ اب پلیز ہمایوں سعید کا انٹرویو کروادیں (کیوں کہ میرے پاس آپ ہیں) کتابوں پر تبصرہ مکمل اور جامع تھا۔ نور محل کا قصّہ تو بڑا ہی حیران کُن لگا۔ عزیزہ انجم نے مفید مشورے دیئے۔ بریانی ہی بریانی کا پڑھ کر منہ میں پانی بھر آیا۔ ناول ’’عبداللہ‘‘ تو بس چھا گیا ہے۔ ناقابلِ فراموش کی تینوں کہانیاں سبق آموز لگیں۔ قصّہ مختصر میگزین پرفیکٹ ہے۔ اور ہاں، آپ کے چٹ پٹے جوابات کا تو کوئی مول ہی نہیں، خاص طور پر اس بار رضی اختر شوق کی غزل ’’خوشبو ہیں، تو ہر دوَر کو مہکائیں گے ہم لوگ…‘‘ کے چند اشعار سُنا کر تو آپ نے سب کا دل ہی جیت لیا۔ (شاہدہ ناصر، گلشن اقبال، کراچی)

ج: جی ہاں، واقعی ’’آپ کے پاس ہم ہیں‘‘ لغات سے جتنے پیوند آپ نے لگائے ہوں گے، اُس سے کئی گنا زائد تو ہمیں لگانے پڑ گئے۔ بہرحال، جیسے تیسے، ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ کی مسند پر فائز ہو ہی گئی ہیں آپ۔

گوشہ برقی خُطوط

ج: اس کے لیے آپ کو جنگ، لاہور کے دفتر فون کرکے متعلقہ ڈیپارٹمنٹ سے معلومات حاصل کرنی ہوں گی۔

ج: اب بھی قابلِ اشاعت ہوگی، تو شایع ہوجائے گی۔

ج:ریگولر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

ج: جی، کیوں نہیں۔

ج: بس، رومن میں لکھ کر نہیں بھیجنا، ہاں البتہ قابلِ اشاعت کا فیصلہ محترم شاعر صاحب ہی کریں گے، ہم نہیں۔

ج: جی، اِن شاء اللہ اگر آپ لوگ اسی طرح حوصلہ افزائی کرتے رہے، تو منفرد آئیڈیاز پر کام بھی ہوتا رہے گا۔

قارئین کرام!

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazinejanggroup.com.pk