مذہبی انتہا پسندی ۔چند تجاویز

April 05, 2016

خداوزیر اعظم نواز شریف کو ہمت اور استقامت دے ، کم از کم وہ اپنے اس کہے کی لاج رکھیں کہ اب کوئی اچھے یا بُرے, اپنے یا پرائے ,طالبان نہیں ہونگے, تمام شدت پسندوں اوردہشت گردوں کو ایک نظر سے دیکھا جائے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ وہ قومی احساسات کا ادراک کرتے ہوئے یکجہتی کی اس فضا میں دہشت گردی کی نرسریوں کو بھی اکھاڑ پھینکیں،پارلیمنٹ اور عسکری قوتوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے جہاں نصابی تطہیر کیلئے معتدل ماہرین اور دانشوروں کی کمیٹی بنائیں، وہیں پارلیمنٹ کی زیر نگرانی ماہرین قانون کی بھی ایک ایسی کمیٹی بنائی جائے جو ان متنازع قانونی شقوں کی نشاندہی کرے جو نہ صرف یہ کہ قومی اتفاق رائے کو نقصان پہنچاتے ہوئے سماج کی تقسیم کا باعث ہیں بلکہ شدت پسندی کو بھی بڑھاوا دے رہی ہیں۔
یہاں یکساں نظام تعلیم کا نعرہ تو بہت لگایا جاتا ہے لیکن بالفعل اس کیلئے کوئی بڑا اقدام آخر کب اٹھایا جائے گا؟ بلاشبہ یہ بھاری پتھر محض سیاسی قیادت کے بس کا روگ نہیں اس کیلئے عسکری قیادت کو آگے بڑھ کر اسی طرح ہمت دکھانا ہوگی جس طرح اس نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کا عہد کیا ہے اس اقدام کو بھی اس مشن کا لازمی حصہ قرار دیا جائے بصورتِ دیگر آپ دہشت گردی سے لڑتے، مرتے اور مارتے رہیں گے لیکن ان کی نرسریاں نئی فصل اگاتی رہیں گی۔
آج ہم نے معروف دینی ا سکالر آئیڈیالوجی کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود سے اس مسئلے پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے یہ پوچھا کہ آپ مسلم ورلڈ میں تمام ممالک کے دوروں پر رہتے ہیں مراکش سے لے کر ملائیشیا تک، ان کی حکومتوں اور اہم اداروں کی دعوت پر جاتے ہیں اور مختلف شرعی امور پر اپنی دینی آرا پیش فرماتے ہیں اس حوالے سے قوم کی رہنمائی فرمائیے کہ سوائے پاکستان کے کیا کسی اور اسلامی ملک میں اس طرح کی صورتحال ہے کہ انتہا پسندی اس قدر بڑھی ہوئی ہے۔ سعودی عرب، ایران، ترکی مصر، اردن، مراکش، انڈونیشیاء، ملائیشیا آخر کونسا اسلامی ملک ہے جہاں مختلف خطبات پر قطعی نوعیت کا کوئی کنٹرول نہ ہو۔ ہمارے احساسات سے اتفاق کرتے ہوئے ان کا فرمانا تھا کہ مسلم ممالک میں سوائے پاکستان کے کہیں ایسا کچھ نہیں ہے نتیجتاً نہ وہاں ایسی مذہبی فرقہ پرستی وکنفیوژن ہے اور نہ ایسی جنونیت پائی جاتی ہے جو پاکستان کا طرئہ امتیاز بنی ہوئی ہے۔
ہم عرض کرتے ہیں کہ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ معاشرے میں منافرت پھیلائے مذہب کے مقدس نام پر فتنہ و فساد برپا کرے۔ کون اچھا مسلمان ہے اور کون بُرا مسلمان سوائے خدا کے کسی کو اس کا فیصلہ کرنے کا حق و اختیار نہیں ہے۔ کسی کو یہ حق نہیں ہے اپنی رائےدوسروں پر تھونپے۔ یہ طے کر دیا جائے کہ جہاں سے کوئی دہشت گرد برآمد ہو گا وہ چاہے دنیاوی ہویا مذہبی مرکز، اس کے خلاف کارروائی ہو گی۔ خدا معاف فرمائے ہمارے تو بڑے بڑے تعلیمی مراکز میں، یونیورسٹیوں کے ہاسٹلز سے شدت پسند پکڑے گئے اور ریاست یہ تمام تر تماشہ دیکھنے کے باوجود بے بسی کی تصویر بنی رہی۔
وطنِ عزیز کے آزاد میڈیا سے بھی ہماری گزارش ہے کہ وہ بھی دہشت گردی و انتہا پسندی کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرےاور انتہا پسندی کے نظرئیے کے فروغ کو جگہ نہ دے۔
ایک لفظ ہے ’’آزادی اظہار‘‘ یا ’’حریت فکر‘‘ کاش ہماری قوم اس کی معنویت و افادیت کو سمجھ لے تہذیب، شائستگی اور سلیقے کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر نظریے پر بات ہو سکتی ہے ۔ اگر انسانیت کے تہذیبی و فکری سفر کے اس حاصل کو مان لیا جائے اور ریاست اس برتراعلیٰ انسانی قدر پر ڈٹ جائے تو شدت پسندی کو وطنِ عزیز میں چھپنے کیلئے کوئی گھونسلہ بھی نہیں ملے گا۔