سستا ترین زہر، منافع بخش کاروبار

April 04, 2020

زوہیب حسن خانزادہ

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ صحت و تن درستی قدرت کی ایک بیش بہا نعمت ہے، جس کی جتنی قدر کی جائے کم ہے۔ تن درستی کے بغیر زندگی کا ہر رنگ پھیکا، بے کیف اور بے لذت محسوس ہوتا ہے، اس حقیقت کا اندازہ وہ افراد بہ خوبی کر سکتے ہیں، جو جان لیوا امراض میں مبتلاہوتے ہیں اور زندگی کی جنگ لڑتے ہوئے موت کے ہاتھوں بے بس ہو جاتے ہیں۔مسائل سے بھرے اس ملک میں وہ مسئلہ ، جو زہر بن کر ہماری نسلوں کی رگوں میں اتر رہاہے اوراب تک کئی نوجوانوں کی زندگیوں کو تباہ کر چکا ہے، وہ گٹکا اور مین پوری کا استعمال ہے۔

ان پرپابندی ہونے کے باوجود یہ ہمارے گلی، محلّوں، شاہراہوں پربآسانی دست یاب اور ہر خاص و عام کی قوت خرید میں ہیں۔ اپنے ارد گرد نظر ڈالیےہر دوسرا نوجوان تمباکو، گٹکا، مین پوری وغیرہ کا بلا جھجک استعمال کرتا نظر آتا ہے، ساتھ پڑیاں بنا بنا کر فروخت بھی کر رہا ہے، یوں یہ سستا ترین زہر، منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے، جو نسلِ نو کو برباد کر رہا ہے۔

ہمارے معاشرے میں شعور و آگہی کی کمی اور سلگتے مسائل کے حتمی تدارک کے لیے انتظامیہ اور شہریوں کے باہم رابطے کا فقدان دکھائی دیتا ہے خصوصاً صحت کے شعبے میں ایسے سنگین مسائل سر اٹھا رہے ہیں، جنہیں فوری طور پر حل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔نوجوانوں میں گٹکے کااستعمال ایک فیشن کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہ سرطان جیسے مہلک مرض کو تیزی سے پھیلانے کا سبب بن رہا ہے ۔

نسلِ نو یہ جانے بنا کہ ان مضر صحت اشیاء کی تیاری میں کن اجزاء کا استعمال ہوتاہے، یہ صحت کے لیے کس قدر مضر ہے، اس کا بے دریغ استعمال کر تے نظر آتے ہیں۔ نوجوانی میں صحت سے بے پروائی، غلط دوستوں کی صحبت وغیرہ منفی عادتوں کی طرف مائل کرتی ہے، جس کا اثران کے مستقبل پر بھی پڑتا ہے۔ انہیں چاہیے کہ اپنی ذمہ داریاں و فرائض کو سمجھیں اور مضرِ صحت اشیا ء کے استعمال سے اجتناب برتیں اور ایسے دوستوں کی صحبت ہمیشہ کے لیے ترک کردیں ، جو انہیں غلط سمت کی طرف مائل کرتے ہیں، یاد رکھیں جان ہے تو جہان ہے۔ اگر انتظامیہ وسائل کی کمی کی وجہ سے نوجوانوں کو کھیلنے کے لیے پارکز اور صحت بخش ماحول فراہم نہیں کر سکتی، تو کم از کم ایسی مہلک اشیا ءکی فروخت پر پابندی کو تویقینی بناسکتی ہے، تاکہ مزید نوجوان اسے کھانے کی عادت میں مبتلا نہ ہوں۔