اللہ سائیں امن کی کونپل پھوٹے پاکستان سے

April 17, 2020

اخباروں اور میڈیا کی خرابی یہ ہےکہ جو کچھ حکومتیں ظاہر نہیں کرتیں وہ سب سے زیادہ ان پر خصوصاً سوشل میڈیا کے ذریعہ ظاہر ہو جاتا ہے مثلاً اٹلی میں60ڈاکٹر اور اسی قدر نرسیں نگہداشت وارڈوں میں کورونا کا لقمہ بن گئیں۔

وجہ یہ ہےکہ چاہے پاکستان ہو کہ اسپین یا اٹلی، وائرس کے شکار مریضوں کے ساتھ، نرسیں خاص کر باقاعدہ یونیفارم اور تحفظ نہ ملنے پر خود وائرس کا شکار ہو جاتی ہیں۔ حال ہی میں لندن میں دو نرسیں جو تین تین بچوں کی مائیں تھیں، وائرس کا شکار اس لئے ہو گئیں کہ تحفظ کا پورا اہتمام نہ تھا۔

پاکستان میں پیرا میڈیکل اسٹاف کے علاوہ وہ سارے خاکروب جو دن رات مصروف رہتے ہیں، کو بھی مخصوص یونیفارم نہیں دیے گئے۔

بی بی سی نے ایک نرس کا انٹرویو لیا ہے کہ وہ روتے ہوئے کہہ رہی ہے میں نے دوسری دوستوںکو مرتے ہوئے دیکھا ہے، میں نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ پاکستان میں حکومت کے بقول 9لاکھ بندے بغیر کسی رجسٹریشن کے گھوم رہے ہیں، اسی سیلاب کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم کو خوف ہے کہ یہ تعداد بہت بڑھ سکتی ہے۔

یہ تو جسمانی موت کی کہانیاںہیں مگر وہ جو ریڑھی یا رکشہ چلاتے تھے یا سڑک پر درخت کے نیچے کرسی رکھ کر لوگوںکے بال اور داڑھیاں بناتے یا وہ جو میرےجیسوں کے سڑک کنارے جوتے گانٹھتے تھے، پٹھان اور افغان جو جوتے پالش کرتے اور پھلیاں بیچ کر اپنا گزارا کرتےتھے۔

رکشہ، ٹیکسی چلانے والوں کے علاوہ سفیدی کرنے والے، سڑک کنارے مشین رکھ کر فوٹو کاپی کرنے والے، ٹیلیفون سم بیچنے والےیا چھوٹے چھوٹے ریسٹورنٹس کیلئے سڑک پر کھڑے نوجوان گاڑیوں کو روک کر آرڈر لینے کیلئے دوڑتے‘ یہ سب گھر کی روٹی کیسےچلا رہے ہیں؟

مجھےیہ تو بتائیں کہ سرکاری پٹواری، مقامی حکومتوںکے نمائندے، زراعت، اریگیشن کے محکمے کےملازمین، ہر محلے کی مسجد کے امام کیوں نظر نہیں آرہے؟ یہ سب لوگ اپنے اپنے علاقے کے لوگوں کو اندرونِ خانہ جانتے ہیں، یہ جو ستر ہزار یونیفارم رضاکاروں کیلئے سلوائی جارہی ہیں، یہ ان گھروں میں تقسیم کریں جہاںپہننے کو دوسرا جوڑا نہیںہے۔

چلیں آپ میری تلخ باتیں نہیں سننا چاہتے، پریوں کی کہانیاںمجھے آتیں نہیں، اپنی ہی یادداشت کا کٹورا الٹا کرتی ہوںکہ اب تو ٹی وی کے پروگرام بھی نہیں رہے۔ مجھے یاد ہے ہم لوگ انڈیا مشاعروں میں جارہے تھے، عباس تابش کے ساتھ ایک نوجوان آیا، سہما سہما سا، جلدی جلدی ویزا فارم بھرتا اور عباس کی آواز باربار ابھرتی، یار گھبرائو مت۔

آپا یہ بہت اچھا شاعر ہے۔ میں نے مسکرا کر عباس کی شاباش کی شہادت دی۔ یہ بات ہے آج سے13برس پہلے کی۔ وہ نوجوان اور خوبصورت شاعر جو بعد میں میرا باقیوں کی طرح چھوٹا بھائی بن گیا، اس کی شاعری کبھی چندی گڑھ، کبھی شملہ اور کبھی امرتسر میں، کنول جیت اور امرپال بھائی کےساتھ ساری ساری رات سنی۔ اس قافلے میں جتنے شاعر تھے، وہ سب گفتگو کےبھی غازی تھے۔ فقرے پر فقرہ اور شعر پر شعرآرہا تھا، سفر کٹ رہا تھا۔

وہ ذہین شاعر شکیل جاذب تھا جو دنیا کیلئے تو بہت بڑا افسر ہے مگر نمی دائم کے خالق سے آپ کی ملاقات کرواتی ہوں۔ ویسےتو بہت سی خواتین کے علاوہ کئی نوجوانوں کا استاد عباس تابش ہے،اس لئے غزل میں وزن کی ساری ذمہ داری اس کے سر۔

البتہ غزل میں شکیل نے خود کو جگہ جگہ اشارے دے رکھے ہیں کہ وہ کلاسیک سے آشنا ہے اور سلیقے سے لفظوں اور تراکیب کو استعمال کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ مثلاً جب وہ کہتا ہے کہ سبزہ خط کی چھلکتی ہے طراوت ان میں؍ تیری آنکھوں سے مریضوں کو شفا ملتی ہے۔ یہ شعر پڑھ کر غالب اور صحیفی کا سبزہ خط کا استعمال یاد آتا ہے۔ شکیل کی غزل یہ گفتگو کرتے ہوئے مجھے امریکہ میں انگریزی میںکہنے والے شاعر آغا شاہد علی یاد آجاتے ہیں۔

ان کی انگریزی غزلوں کے دو مجموعے ہی شائع ہوئے اور ان کی غزل گوئی مقبولیت حاصل کررہی تھی کہ وہ 2002میںدماغ میں ٹیومر کے باعث انتقال کر گئے، مجھ سے ملاقات میں کشمیر کو بار بار یاد کرتے رہے کہ ان کی پیدائش سری نگر کی تھی۔ تو وہاں کی ادبی سوسائٹی نے انگریزی میں غزل کا سیشن منعقد کیا۔ مجھ سے اردو میں غزلیں بار بار سنی گئیں۔

کہنے کا مطلب یہ کہ غالبؔ اور فیضؔ کےزمانے تک سیکھنے والوںکیلئے بہت نشانیاں تھیں۔ اس لئے رنج بےادائی، آپڑی پائوںمیں زنجیر بیابانی کی۔ بس یونہی اک ضد میں ساری زندگی برباد کی۔ قتل کرکے برسرِ بازار اپنی بیٹیاں کیا جنہیں دنیا میں عزت دار ہونا تھا ہوئے۔ اس لئے پھر اشارہ کرتا ہے۔ میں کہیں اور بھی بسر ہوا ہوں۔

اسی تاثر کو حمدیہ انداز میں لکھا۔ میں تیرے تصور سے تھا بیزار نہ اب ہوں۔ اس طرح حمد، سلام اور منقبت بھی لفظوںکی تراش لئے ہوئے ہے۔ اگر اس قیدِ تنہائی میں کچھ اور نہیںتو یہ شاعری ہی پڑھ لیں۔

شکیل جاذب کی طرح ادل سومرو، خیرپور یونیورسٹی میںپروفیسر ہیں۔ کافی عمر گزار کر شعری مجموعہ ’میں اپنا وقت بیچتا ہوں‘ کےنام سے مرتب کیا ہے۔کمال مخاطب ہے، جب وہ کہتا ہے شاعری کو فقیر کا کاسہ مت بنائو، الفاظ کی حرمت اور تخلیق کا تقدس ضروری ہے۔

ڈاکٹر سومرو نےکیونکہ سندھ کی دھرتی میں جنم لیا، مگر ذہنی طور پر ترقی پسند ہونے کے ناتے نظم کا عنوان رکھتے ہیں کہ ہر مقبرہ قابلِ تعظیم نہیں ہوتاہے۔ وہ جب نظم لکھتا ہے بچے ووٹ نہیں دیتے اور تھر کے بارے میںیوںکہا تھرپارکر درد کا استعارہ ہے۔

منچھر جھیل، ایشیاکی سب سےبڑی جھیل ہے مگر ہماری بے توجہی کے باعث، اس جھیل کا پانی زہر آلود ہو چکا ہے۔ کورونا جیسی وبائوں کو سامنے رکھتے ہوئے اسے خدشہ ہوتا ہے کہ شہر بھر قبرستان جیسےہوتے جارہے ہیں۔ وہ محبت سے یاد کراتا ہے۔ کتابوںسےباہر بھی روشنی ہے۔

کورونا جیسے آشوب میں انجم الطاف کو فیضؔ صاحب یاد آتے ہیں اور انہیں انگریزی کا پیرہن پھیلاتا ہے۔ وکٹر کیرنین سےلیکر کم ازکم 20تخلیق کاروں نے فیضؔ صاحب کا ترجمہ کیا ہے۔