نواز شریف بمقابلہ عمران خان

March 28, 2013

میاں نواز شریف کو اپنی پارٹی کے کسی کالے بکرے کی قربانی دینی چاہئے، مرکز کی طرح پنجاب میں صدر آصف علی زرداری کے نامزد افراد کا تقرر مسلم لیگ ن کے لئے نیک شگون نہیں۔ میاں صاحب ان نالائق ،برخود غلط اور چکر باز مشیروں کے کان پکڑائیں جو اس سیاسی ہذیمت کا باعث بنے ۔ جوڑ توڑ کی سیاست میں صدر آصف علی زرداری نے شریف برادران کو کلین بورلڈ کیا مگر جو لوگ اسے اگلے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی انتخابی کامیابی کا پیش خیمہ سمجھ رہے ہیں انہیں 11مئی سے پہلے اپنی غلطی کا احساس ہو جائے گا ۔
ایک دوست بتا رہے تھے کہ صدر زرداری اگلے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی 65سیٹیں جیتنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جس کے بعد وہ جوڑ توڑ کی صلاحیت، جذبہ مفاہمت اور فراخدالانہ طبیعت کو بروئے کار لاکر مرکز اور سندھ میں ایک بار پھر حکومت بنالیں گے سابقہ حلیف بشمول مولانا فضل الرحمن ان کا ساتھ دیں گے سیر چشم اور دیالو زرداری کے لئے اپنی جماعت کے باہر کے کسی شخص کو وزیر اعظم ماننا چنداں مشکل نہیں وہ ساری جاتی دیکھیو تو آدھی دیجیو بانٹ کے قائل ہیں جبکہ میاں صاحب نے مقبولیت میں اضافہ دیکھ کر مولانا فضل الرحمن اور ہم خیال گروپ کو بھی نظرانداز کر دیا ہے اس لئے زرداری پرامید ہیں۔
مگر اگلے انتخابات میں پیپلز پارٹی پانچ سالہ ناکامیوں ، عوامی نفرت اوراندرونی انتشار کے سبب کس طرح 65سیٹیں لے پائے گی اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا، بلاول بھٹو زرداری پھوپھو فریال تالپور کے طرز سیاست سے ناراض ہیں یا پاپا کے طرز حکمرانی سے بیزار ؟ یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے انہیں چیئرمین کے عہدے سے ہٹانا برا لگا یا ٹکٹوں کی من پسند تقسیم پسند نہ آئی ؟ کم سنی کے ذکر اور اور انکلوں کی پندونصائح سے چڑ ہے ؟ ایک نہ ایک دن یہ راز کھل جائے گا نوجوان کی لندن روانگی نے پارٹی کے کارکن اور ووٹر کی مایوسی میں اضافہ کیا ہے دیگر عوامل کے علاوہ یہ واقعہ بھی پارٹی کے مستقبل کیلئے تباہ کن ہے تاہم بعض ستم ظروں کی اس رائے سے مجھے سو فیصد اختلاف ہے کہ برطانیہ کے عالمی شہرت یافتہ ادارے کے فارغ التحصیل بلاول زرداری بھی دیگر ہم عمر نوجوانوں کی طرح عمران خان کی شخصیت، سیاسی انداز فکر اور مقبولیت سے متاثر ہیں۔ یہ ہمارے جاگیرداروں اور ان کے نونہالوں کا شیوہ نہیں کہ ذاتی پسند و ناپسند یانظریے کی بنا پر خاندانی مفادات کی قربانی دیں ۔
البتہ یہ حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کی مقبولیت میں روز افزوں کمی کی وجہ سے انتخابی مقابلے کا میدان مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے مابین سجتا نظر آ رہا ہے ، ٹکٹوں کے طلب گار بھی ان دونوں جماعتوں کی طرف سرپٹ دوڑ رہے ہیں اور سیاسی کارکن بھی انہی دو جماعتوں کو مدمقابل سمجھنے لگے ہیں۔ سرائیکی صوبہ کا نعرہ بلند کرکے پیپلز پارٹی نے جنوبی پنجاب میں جو ارتعاش پیدا کیا تھا وہ بالاخر انتخابی سٹنٹ ثابت ہوا اور پیپلز پارٹی کے علاوہ مسلم لیگ ق ، سرائیکی وسیب میں اپنا حلقہ اثر بڑھانے کے بجائے مزید محدود کر بیٹھی، مخدوم احمد محمود کو گورنر پنجاب بنا کر یوسف رضا گیلانی نے مخدوم شہاب الدین، حامد سعید کاظمی اور پیر صاحب پکارا کو ناراض کیا ، مسلم لیگ ق، طارق بشیر چیمہ سے ہاتھ دھو بیٹھی اور نوابزادہ صلاح الدین عباسی نے عمران خان سے ہاتھ ملا لیا ۔ عباسی خاندان کا احترام اور تحریک بحالی صوبہ سے گہری وابستگی عوامی سطح پر تحریک انصاف کے لئے سرمایہ ثابت ہو گی ۔ اگر انہوں نے بلوچستان میں اختر مینگل اور سندھ میں ذوالفقار جونیئر اور فاطمہ بھٹو کو ساتھ ملا لیاتو انتخابی پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔ مسعود شریف خٹک تو تحریک انصاف چھوڑ گئے ہیں ۔
مرکز اور صوبوں میں نگران حکومتوں کی تشکیل کے بعد انتخابات کے بروقت انعقاد میں بظاہر کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی اردن میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری، اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے درمیان عشائیہ پر تحویل ملاقات ،انتخابی عمل کے دوران وسیع پیمانے پر خونریزی کے خدشات اور ملک کے دگرگوں معاشی حالات کی وجہ سے وسوسے جنم لیتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو جائے ، کہیں ایسا نہ ہو جائے مگر انتخابات کے ذریعے پانچ سال بلکہ سالہا سال کے عوام کی گردن پر سوار بدکردار، نااہل، مفاد پرست اور لوٹ مار کے رسیا جاگیر داروں ، وڈیروں اور سرمایہ داروں کی ایوان اقتدار میں واپسی کا خطرہ، کافی حد تک ٹل چکا ہے الیکشن کمیشن کی طرف سے نامزدگی فارم پر کرتے ہوئے بہت سے امیدواروں کا پتہ پانی ہوتا ہے 62-63اور دیگر آئینی و قانونی دفعات کی چھلنی سے گزرنا آسان نہیں عادی ٹیکس چور، ڈیفالٹر، جرائم پیشہ اور پولیس و انتظامیہ کی ملی بھگت سے انتخاب جیتنے والوں کو سکروٹنی کا سسٹم اور عرصہ قیامت لگ رہا ہے جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی امیدواروں کی چھان بین اور بدعنوانوں کا راستہ روکنے کی بات کرکے ریٹرننگ افسروں کا حوصلہ بڑھایا ہے۔ فوج بھی یقینا صاف ستھرے عوامی نمائندوں کی حکومت اور شفاف انتخابات چاہتی ہے تاکہ پانچ سالہ گندگی صاف کرنے میں مدد ملے ۔تاہم میاں صاحب کو عمران خان کے مقابلے میں اترنے سے قبل اپنے مشیروں کی کلاس ضرور لینی چاہئے تاکہ وہ کوئی اور پہاڑ جیسی غلطی کا اعاد ہ نہ کر بیٹھیں ۔