کورونا ویکسین کیلئے جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال

April 27, 2020

دنیا بھر میں تحقیق کرنے والے ماہرین ہنگامی طور پرکووڈ۔19کی ویکسین تیار کرنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔اس سرعت کی وجہ یہ حالیہ رپورٹ ہے کہ ایشیاء میں اس کے خاتمہ کی کوشش کے باوجود کورونا کی وبا کی دوسری لہر آنے والی ہے،کیوں کہ ووہان ، ہانگ کانگ اور سنگاپورکی حکومتوں کی باہمی فاصلے رکھنے کی عائد پابندیوں کو پچھلے ہفتہ اٹھانے کے بعد وہاںپر نئے کیس ظاہر ہوئے ہیں۔ اسی لیے عالمی سائنسداں اس وباکی ویکسین تیار کرنے کی اس پیمانہ پر کوشش کررہے ہیں، جس کی اس سے پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی ہے ان میں سے سیکڑوںتو امریکامیں مصروف عمل ہیں۔ چناں چہ متعدد سائنسداں۔125سے زیادہ آرگنائیزیشن۔جن میں بڑی دوائوں کی کمپنیاں، حکومتی اور اعلیٰ یونیورسٹیز کی لیبار یٹریز شامل ہیں کورونا کی ویکسین اور علاج دریافت کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔

ایک تجارتی ایسوسی ایشن جس میں دوا ساز کمپنیاں اور بایو ٹک کمپنیاں شامل ہیں۔ بایومیں متعدی وبا کی پالیسی بنانے کے انچارج اور اس کے وائس پریزیڈینٹ فلس آرتھر کے مطابق اس سے پہلے اتنا تیز کوئی بھی رد عمل نہیں آیا تھا۔ چند ہفتوں میں ہم نے جینیاتی ترتیب سے آگے بڑھ کر علاج کے امکانات کی طرف پیش قدمی شروع کردی ہے۔لوگوں کے اجتماع ،تجارتی سرگرمیوں اور سفرپر پابندیاں صرف مرض کے پھیلائو کو سست کرنے تک ہی محدود ہوسکتی ہیں ،کیوں کہ اس بات کی شہادتیں موجود ہیں کہ ان پابندیوں کے اٹھنے کے بعد یہ وبا دوبارہ سر اٹھا سکتی ہے۔ شروع میں وبا کو محدود کرنے میں کامیابی کے بعد سنگا پورنے اسکولوں اور غیرضروری اشیاء کی تمام کاروبای سرگرمیوںپر نئی پابندیاں عائد کردی ہیں۔ ہانگ کانگ کو بھی پابندیوں پر نرمی کے بعدوبا کی واپسی کا تجربہ ہوا جب کہ یوروپ اور امریکاوباکے ابتدائی مرحلوں میں عائد پابندیوں کے ساتھ جنگ میں مصروف ہیں۔ ووہان میں بھی دوبارہ وبا نے سر اٹھالیا تھا۔

ویکسین کی تیاری کے بعد بھی کووڈ-19پھر بھی ایک مصیبت ہی رہے گا،کیوں کہ تحقیق کار یہ نہیں جانتے کہ آئندہ سالوں میں یہ وائر س میوٹیشن کرکے خودمیں جینیاتی تبدیلیاں نہیں کرے گا،جس سے ویکسین کے جینیاتی فرق سے اس کی اثر انگیزی میں کمی ہوجائیگی یانہیں ؟

لارینس لیورمور نیشنل لیباریٹری میں کووڈ 19کی ویکسین کے منصوبے میں اپنی خدمات فراہم کرنے والے کیمیکل فزسٹ ڈیوڈریکسٹرا جنہوں نے کئی عشروں تک بایو ٹیررازم پر تحقیق کی ہے ان کا کہنا ہے کہ ہم یہ نہیں جانتے کہ اس وائرس کے ارتقا یعنی ایوولیشن کی رفتار کتنی ہے۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ جلدی جانے والا نہیں ہے، کیوں کہ یہ آبادی میں پھیل گیا ہے۔ اس لیے ارتقا پذیر ہوگا۔

کووڈ19پر موجودہ سیاسی مباحثہ چہروں کے ماسک، وینٹی لیٹر اور طبی عملے کے سرعتی ٹیسٹ پر مرکوز ہے ۔لیکن تمام ملک کی لیباریٹریز میں تحقیق کرنے والے اس وبا کے علاج کے لیے نئے آلات ، نئی دوائیں اور نئے طریقوں کی دریافت میں اتنے متحرک ہیں کہ اس سے قبل کبھی بھی نہیں ہوئے تھے۔

سبین ویکسین انسٹیٹیوٹ نامی غیر منافع بخش فرم کی چیف ایگزیکٹیو، ایمی فینان کے مطابق یہ 125 آرگنائیزیشن دنیاکی سب سے بڑی دواکی کمپنیاں ایک ساتھ مل کرایسا ماحول پیدا کرتے ہیں، جس میں نئی بایو ٹک کمپنیوں کی آواز سنائی نہیں دے سکتی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اس وبا کے خلاف آنے والا ردعمل غیر معمولی ہے، جس کے نتیجہ میں تحقیق کرنے والے اپنے ملک کو محفوظ کرنے کے لیے

ہر وقت اس وبا کے خاتمےکا حل تلاش کرنے میں سر گرداں ہیں۔ویکسین تیار کرنے والی برادری مل کر جلد سے جلد اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے۔

پچھلے مہینے واشنگٹن میں دوا کی محفوظیت معلوم کرنے کے لیے ایک ویکسین کا ٹرائل شروع کیا گیاہے۔ جب کہ کچھ دوسری ویکسین بہت جلد آزمائش کے مرحلے میں داخل ہوجائیں گی ۔ لیکن دوسرے مرحلے کی آزمائش اور دوا کے استعمال کی اجازت کے حصول اور اس کی بڑے پیمانے پر تیاری کے لیے کافی وقت درکار ہوگا۔آرتھر کے مطابق یہ ویکسین کس طر ح اور کتنی تعداد میں ایک ساتھ استعمال ہوں گی یہ ابھی واضح نہیں ہے ۔ یہ ایبولا کی ویکسین کے طرز پر استعمال ہوسکتی ہے، جس کو ریزرو میں رکھا ہوا ہے، تاکہ اس وباکے حملے کے بعد اس کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاسکے۔یا پھر میزلز کی ویکسین کی طرح ہر شخص کو لگائی جائی گی ۔

فینان کا کہنا ہے کہ اس وبا پر تحقیق زیادہ تر آرگینک کے میدان پر ہے۔وہائیٹ ہائوس کے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پالیسی کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پورے امریکا کے ردعمل کا انتظار ہے ،کیوںکہ اس کےلئے فیڈرل ایجنسیوں، پرائیویٹ صنعتوں، یونیورسٹیوں اور غیر منافع بخش اداروں کے وسائل کو مشترکہ طور پر استعمال کرنا ہوگا۔ فیڈرل لیول پر 1000 سائنسدانوں اور ڈاکٹروں کو تیار کیا گیا ہے جن کے تصرف میں دنیا کا سب سے بڑاسپر کمپیوٹر کا سب سے بڑا نیٹ ورک دیا گیا ہے۔ فرانسسکومیں لارینس لیورمور نیشنل لیباریٹری کمپیوٹر ماڈلنگ ٹیکنالوجی استعمال کر رہی ہے، جس نے ایٹم بموں کے قابل بھروسہ ہونے کی گارنٹی معلوم کرنے کے لیے کام کیا ہےاور جوان26 ملین مالیکیول کاجائزہ لے سکتاہے کہ وہ کس طرح آپس میں مل کر کورونا وائرس کے کام کرنے کو تباہ کر سکتا ہے۔

اس کام کے لیے سائنسدانوں نے وائرس کا 3D ورچوئل ماڈل بناکر اس کا جائزہ لیا کہ مالیکیول کس طرح وائرس سے جڑ سکتا ہے۔ ماڈلنگ کے کام کی انجام دہی کے لیے اتنی کمپیوٹیشنل توانائی کی ضرورت تھی جو ابھی چند سالوں میں آن لائن ہوئی ہے۔ لیورمور کے سائنسداں ریکیسٹرا کے مطابق اس کا ایک چیلنج تو اس برقی توانائی کی ایڈیشنل ہائی وولٹیج کی فراہمی تھی جو سپر کمپیوٹر وںکا بینک چلانے کیے لیے درکار تھی اور جس کےلئے لیباریٹری نے حال ہی میں 150ملین ڈالر مزید خرچ کئے تھے۔

لاس الاموس نیشنل لیب جو 1945 ء سے حیاتیاتی سائنس پر کام کررہی ہے،جس میں ایڈز اور انفلوئنز ا پر بنیادی کا م کیا گیا تھا ۔علاوہ ازیں اس لیب نےپہلا ایٹم بم بھی بنایا تھا ۔اب یہ اپنی مہارت کا استعمال کورونا وائرس پر کررہی ہے۔اس بارے میں کرسٹین ٹیلر میکسے نے بتایا تھا جو بایو کیمسٹ ہیں اور نیو میکسیکو کی لیب میں پروگرام مینیجر ہیں ۔ان کاکہنا ہے کہ ’’ہم اس کا دوسرا حملہ دیکھ رہے ہیں ،کیوں کہ آپ جیسے ہی پابندیاں اُٹھائیں گے اور ٹرانسپورٹ میں اضافہ ہوگا ،آپ کو یہ حملہ نظر آنے لگے گا ،جس کے بچائو کے لیے ویکسین بہت زیادہ اہم ہوگی‘‘۔

دوائوں کے پرائیویٹ شعبوں میںنیو جرسی کی جانسن اینڈ جانسن کمپنی نے اعلان کیا ہے کہ اس نے ویکسین کی تیاری میں کام آنے والی ایک چیز شناخت کرلی ہے اور اس پر تحقیق کے لیےایک بلین ڈالر مخصوص کرلئے ہیں اورجس کی ممکنہ تیاری اورٹیسٹنگ کے لیے بایو میڈیکل ایڈوانسڈ ریسرچ ڈویلپمنٹ اتھا رٹی سے اشتراک کیاگیا ہے۔ اس کمپنی کو اُمید ہے کہ ان کی ویکسین کے انسانی ٹرائل زیادہ سے زیادہ ستمبر2020 تک شروع ہوجائیں گے، چناں چہ اس کووڈ ویکسین کا پہلا بیچ ہنگامی حالت میں استعمال کے لیےمنظور ہوکر 2021ءمیں دستیاب ہوگا۔

دنیا کی سب سے بڑی آزاد اور پرائیویٹ بایو ٹک فرم کا دعوی کرنے والی ایم جن نے پچھلے ہفتےاعلان کیا تھا کہ وہ اس موقع کاچیلنج قبول کرتے ہوئے اڈیپٹو بایو ٹیکنالوجی کے ساتھ ایسی اینٹی باڈی ڈویلپ کریں گے جو اس وبا کا شکار ہونے والی بیماروں کے علاج میںمددگار ہوگی اورتندرست افراد کی چند ہفتوں تک حفاظت بھی کرے گی۔اس بات کا اظہار ڈاکٹر ڈیوڈ ریس نے کیا تھا جو کمپنی میں ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر ہیں۔

اسکے تھائوزینڈاوکس کے ہیڈ کوارٹر میں8200 ملازمین ہیں یہ کمپنی ہائی اسپیڈ کمپیوٹر کے ذریعہ اسکرین کرکے بیماری سے تندرست ہونے والے انسانوں سے حاصل کردہ لاکھوں خلیوں سے ان اینٹی باڈیز کو شناخت کرنےکی کوشش کر رہا ہے جو وائرس کے خلاف موثر ہوسکیں۔ریس اور اس کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ جلد سے جلد آگے بڑھنے کےلیے ہمارے پاس مناسب فنڈ موجود ہے ،البتہ ایک ایسا کارخانہ جہاں اربوں خوراکیں تیار ہوسکیں۔اس کے لئے ایک بڑی فیکٹری درکار ہوگی۔ ماہرین کے مطابق سرعت سے کسی معجزہ کی اُمید تو خام خیالی ہے ،کیوں کہ ویکسین تو12سے 18 مہینے میں تیار ہوگی،البتہ مریضوں کے علاج کےلیے دوا ئیں رواں سال میں تیار ہوجائیںگی۔