اُردو شاعری میں محنت کشوں کی عظمت کا اعتراف

April 29, 2020

ادب اور سماج کے رشتے کو سرسری طور پر دیکھنے کے بجائے، اُس پر زیادہ سنجیدگی سے غور کیا جائے تو اس حقیقت کے واضح ہونے میں دیر نہیں لگتی کہ تخلیقِ ادب بجائے خود ایک سماجی عمل ہے۔جس طرح مادی دنیا کی ہماری کاوشیں واضح معاشرتی و سماجی تناظر کی حامل ہوتی ہیں اسی طرح ہماری ذہنی اور فکری جستجو اور اُس کا حاصل بھی دماغ کے خلیوں،آنکھ ،زبان اور موئے قلم کے ارتباط سے وجود میں آتا ہے اور اس عمل کے پیچھے ہمارا سماجی پس منظر اور سماجی شعور قوت ِمحرکہ فراہم کررہا ہوتا ہے۔محنت کشوں کے لیے لکھا گیا ادب جہاں محنت کی عظمت اور محنت کشوں کے ساتھ اہلِ قلم کی ذہنی اور نظریاتی وابستگی کا مظہرہے وہیں یہ ادب خود بھی محنت کی ایک قابل ِقدر مثال ہے۔

اردو شاعری میں محنت کی عظمت اور محنت کشوں،یعنی مزدوروں، کسانوں، گلہ بانوں، مچھیروں، قلیوں، غرض مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی محنت سے ترقی کا راستہ ہموار کرنے والے بے نام انسانوں ، کے موضوع پر ہر دور میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ترقی پسند ادب نے تو خاص طور سے سماجی انصاف کو ایک مستقل موضوع کے طور پر اپنے سامنے رکھا اور معاشرے میں طبقاتی استحصال کی مختلف صورتوں کو کھل کر بے نقاب کیا۔ہمارے خطے میں ترقی پسند ادب نے ایک تحریک کی شکل تو گذشتہ صدی کے چوتھے عشرے میں اختیار کی مگر سماجی انصاف اور محنت کشوں کی عظمت کے موضوعات ہمارے پچھلے اور کلاسیکی ادب میں بھی تواتر سے شعراء کے کلام میں جگہ پاتے رہے ہیں۔

بلکہ ہمارے کلاسیکی شعراء میں ایسے نام بھی شامل ہیںجن کی وجۂ شہرت ایک عام آدمی سے اُن کی ذہنی نسبت قرار پائی ۔چنانچہ نظیرؔ اکبر آبادی نے نہ صرف عام لوگوں کی زندگیوں کے مرقعے پیش کیے،اورنہ صرف معاش اورمعیشت کی اونچ نیچ کو موضوع بنایا بلکہ اپنی نظموں میںزبان اور طرزِ اظہار بھی وہ اختیار کیاجو عام لوگوں کے لیے قابل فہم ہوسکتا تھا۔نظیرؔ اکبر آبادی کو بجا طور پر بعض ترقی پسند نقادوں نے اردو کا پہلا عوامی شاعر تسلیم کیا ہے۔یہی نہیں بلکہ جوشؔ ملیح آبادی جیسے بڑے شاعر نے تو نظیرؔ کو اردو کا ’وسیع ترین شاعر‘ قرار دیا ہے۔نظیرؔ کی نظمیں’کوڑی کی فلاسفی‘،’پیٹ کی فلاسفی‘ اور ایسی ہی بہت سی دوسری نظمیں ان کے گہرے سماجی شعور کی عکاس ہیں۔

نظیرؔ سے پہلے ولی ؔدکنی یہ پتے کی بات کہہ چکے تھے کہ؎

مفلسی سب بہار کھوتی ہے

مرد کا اعتبار کھوتی ہے

غربت اور افلاس کس طرح شرف ِ انسانی کو مجروح کرتے ہیں،یہ شاعر پر واضح تھا۔غالب ؔنے تواس افلاس کی تہہ تک رسائی حاصل کرلی تھی۔غالب ؔکی نظروں سے یہ حقیقت اوجھل نہیں رہ سکتی تھی کہ یہ سرمائے کی ہوس ہی ہے جس نے دنیا کو ایک بازار بنا کر رکھا دیا ہے ؎

غارت گر ِ ناموس نہ ہو گر ہوسِ زر

کیوں شاہدِ گل باغ سے بازار میں آوے

گویا یہ طلبِ زر ہی ہے جس نے رنگ و خوشبو کو،اور ہر اس چیز کو جو حسن پیدا کرتی ہے ،جنسِ بازار بنا کر رکھ دیا ہے۔ایسے میں محنت کش کی محنت کس طرح اشیائے صرف میں شامل ہونے سے رہ سکتی تھی۔ غالب ؔکو یہ بھی علم تھا کہ محنت کے استحصال سے بنائی گئی دنیا میں انسان کو حقیقی مسرت اور تحفظ کا احساس کبھی حاصل نہیں ہوپائے گا۔لہٰذاغالبؔ نے کہا؎

دیوار بارِ منتِ مزدور سے ہے خم

اے خانماں خراب نہ احساں اٹھائیے

یعنی ہمارے تمدن کی عمارت مزدور کی محنت کے استحصال سے تعمیر ہونے کے سبب پہلے ہی کمزور ہے،اب مزید جبر اور استحصال کہیں اس عمارت کو منہدم ہی نہ کردے۔

ہمارے ایک اور بزرگ شاعر الطاف حسین حالیؔ، جن کو ہم اُن کی طویل نظم ’مدوجزرِ اسلام‘ یا’مسدسِ حالی‘ کے حوالے سے جانتے ہیں،ایک نظم ’موچی‘ کے عنوان سے بھی لکھ گئے ہیں۔جس میں ایک موچی کے کام کی نوعیت اور معاشرے کے لیے اُس کی افادیت پر تفصیل سے اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔موچی ایک ایسا محنت کش ہے جس کی طرف شاید ہی کسی کی نظر جاتی ہو۔ اس طرف حالیؔ کی نظرگئی۔

ترقی پسند ادبی تحریک سے قبل کے شعراء میں،اسمٰعیل ؔمیرٹھی کے یہاں بھی عوامی موضوعات بڑی تعداد میں ملتے ہیں۔ان کی نظمیں’ایک قانع مفلس‘، ’خشک سالی‘ اور’ کاشتکاری‘ واضح کرتی ہیں کہ ان کو نظامِ معیشت اور افلاس کے درمیان پائے جانے والے تعلق کا واضح ادراک حاصل تھا۔

بیسویں صدی کے نصف ِاول میںسرمایہ و محنت کی آویزش نے اقبالؔ،حسرتؔ اور جوشؔ کے کلام میں جو جگہ پائی اس میںاضطراب اور احتجاج کی روح جا گزیں تھی۔اقبالؔ کی نظمیں ’سرمایہ و محنت‘ اور ’لینن(خدا کے حضورمیں)‘ واضح انقلا بی جہت کی نمائندگی کرتی ہیں۔ صدیوں سے جاری محنت کے استحصال کے نظام پر اقبال ؔکا یہ کہنا اُن کی تاریخی بصیرت ہی پر صاد کرتا ہے ؎

بندۂ مزدور کو جاکر مرا پیغام دے

خضر کا پیغام کیا، ہے یہ پیامِ کائنات

اے کہ تجھ کو کھاگیا سرمایہ دارِ حیلہ جُو

شاخِ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات

پھر نظم کے آخر میں مزدور کو مخاطب کر کے کہتے ہیں؎

اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے

مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

اپنی نظم ’لینن ‘ کے آخر میں وہ دربارِ ایزدی میں سوال کناں ہیں ؎

تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں

ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات

کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟

دنیا ہے تری منتظر روزِ مکافات!

اقبالؔ ،حسرتؔ اور جوشؔ نے جو زمین تیار کردی تھی اس پر ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر لکھی جانے والی تحریروں نے برگ وبار کی حیثیت اختیار کی۔ہندوستان میں یہ تحریکِ آزادی اور استعمار کی مخالفت کا زمانہ تھا۔ ہندوستان کے باہر عالمی سطح پر بھی یہ انقلاب آفریں واقعات کا دور تھا۔قومیں غلامی کا طوق اتار پھینکنے پر کمربستہ تھیں۔سماجی ناانصافیوں اور طبقاتی نظام کے خلاف آوازیں صرف سیاست کی دنیا ہی میں بلند آہنگ کے ساتھ نہیں ابھر رہی تھیں بلکہ عالمی ادبیات بھی ان موضوعات کی اپنے اصناف میں آبیاری کر رہے تھے۔

اردو شاعری کو اس ماحول میں بڑی فکری مہمیز ملینی قائم ۔چنانچہ بیسیوں شعرا اپنے اپنے تخلیقی جوہرکے ساتھ میدان میں اترے اور پھر برسہا برس تک آسمانِ ادب پر اُن کی حکمرارہی۔ایک مختصر مضمون میں یہ بھی ممکن نہیں کہ ہم فیض احمد فیضؔ، علی سردارؔ جعفری،مخدومؔ محی الدین،کیفی ؔاعظمی،احمد ندیم ؔقاسمی،سید مطلبی ؔفرید آبادی،فارغؔ بخاری، خالدؔ علیگ، احمد فرازؔ، حبیب جالبؔ،حسن ؔحمیدی،قمرؔ ہاشمی، سرورؔ بارہ بنکوی،زہرہ نگاہؔ،حسن عابدی،محمود شامؔ،واحدؔ بشیر،فہمیدہ ریاض،اور بہت سے دوسرے شعراء کی سینکڑوں نظموں میں سے صرف چند کا بھی حوالہ یہاں دے سکیں۔ذرا اور قریب کے زمانے میں بھی دیکھیںتو شعراء کی ایک اور طویل فہرست تیار ہوسکتی ہے جنہوں نے معاشرے کی تعمیر میں محنت کشوں کی بے لوث قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرکے اپنی شاعری کو اعتبار سے ہمکنار کیا۔

ہماری دیانتداری کا تقاضا یہ ہے کہ یہ بات بھی پیش نظر رکھی جائے ،اور ترقی پسندوں کو خاص طور سے اس کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ اس امر کے اعتراف میںبخل کا مظاہرہ نہ کیا جائے ،کہ بعض ایسے شعراء نے بھی جو معروف معنوں میں ترقی پسندتصور نہیں کیے جاتے ،ان کے کلام میں بھی محنت کی عظمت ،محنت کشوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک پر احتجاج، نیز تاریخِ تہذیب میں ان کے عظیم المرتبت کردار کا ذکر گہرے ادبی آہنگ میں ہوا ہے۔ظاہر ہے کہ کون ن م راشد ؔکی لازوال نظم’حسن کوزہ گر‘کو نظر انداز کرسکتا ہے۔اسی طرح رساؔ چغتائی کی نظمیں’منشور‘، ’ماہی گیر‘، اور ’مچھلیاں‘، عزیز حامد مدنی کی ’ماہی گیروں کی ایک بستی ‘اور ناصرؔ کاظمی کی ’بارش کی دعا‘ اور ’ اے عارضِ وطن‘ ایسی شاعری نہیں ہے جس کو کسی طور نظر انداز کیا جاسکے۔

غرض،اردو شاعری نے ہر دور میں محنت کی عظمت اور عظمتِ محنت کشاں کو حرزِ جاں رکھا ہے۔ محنت کشوں کی جدوجہد کی کوئی تاریخ اپنے ان پشتبان شاعروں کی کاوشوں کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوپائے گی۔