غلطی ہوگئی…سوری!

May 03, 2020

ایک الٹرا ماڈرن لڑکے نے اپنی گرل فرینڈ سے کہا کہ ایسا کرتے ہیں تجرباتی طور پر شادی کر لیتے ہیں اگر ہم نے محسوس کیا کہ ہم سے غلطی ہو گئی ہے تو ہم ہنسی خوشی علیحدہ ہو جائیں گے۔ لڑکی نے اطمینان سے پوچھا ’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن غلطی کو پالے گا کون؟‘‘ ایسی تو نہیں البتہ اس سے ملتی جلتی کئی غلطیاں ہم روز کرتے ہیں۔ میں ایک ایسے صاحب کو جانتا ہوں جو ایسی ایسی غلطیاں کرتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ موصوف شادی والے دن بھی غلطی سے گھوڑے پر بیٹھنے کے بجائے ڈولی میں جا بیٹھے تھے۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ ان کی زندگی کی پہلی غلطی تھی۔ جھوٹ بولتے ہیں حالانکہ بعد میں انہوں نے نکاح نامے پر دستخط بھی کیے تھے۔ دفتروں میں کام کرنے والے ’’آفس بوائے‘‘ بھی ایسی ایسی ہولناک غلطیاں کرتے ہیں کہ بعض اوقات بندہ مرتے مرتے بچتا ہے‘ میں اپنے آفس سے نکلا تو آفس بوائے سے پوچھا ’’لفٹ چل رہی ہے؟‘‘ کہنے لگا ’’جی سر! لیکن اس کی اندر کی لائٹ خراب ہے‘ بالکل اندھیرا ہے‘‘۔ میں نے سوچا کوئی بات نہیں موبائل کی لائٹ آن کر لوں گا۔ لفٹ کے پاس پہنچا تو اس کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ آفس بوائے نے تیزی سے کہا ’’سر جلدی کریں کہیں دروازہ بند نہ ہو جائے‘‘۔ میں نے فوراً موبائل کی لائٹ جلائی اور ایک قدم آگے بڑھایا ہی تھا کہ اچانک کوئی خیال آیا۔ میں نے ایک پائوں تھوڑا سا آگے کرکے لفٹ کے فلور کو چیک کیا تو ہوش اڑ گئے‘ نیچے فلور ہی نہیں تھا۔ پیچھے سے آفس بوائے کی مزید بےچین آواز آئی’’سر رُک کیوں گئے ہیں اندر چلیں ناں‘‘۔ میں نے گھوم کر اس کی طرف دیکھا اور بےبسی سے پوچھا ’’اے تیرہ بخت انسان! کوئی دوسری نوکری مل گئی ہے تو چپ چاپ چلے جائو‘ مجھے کیوں پانچ منزلہ عذاب سے دوچار کرنا چاہ رہے ہو‘‘۔ اُس نے اپنی کنپٹی کھجائی ’’میں سمجھا نہیں سر! کوئی غلطی ہو گئی؟‘‘ میں نے دانت پیس کر کہا ’’ذرا لفٹ کے اندر جھانک کر دیکھو‘‘۔ اُس نے چونک کرلفٹ کی طرف دیکھا، پھر نیچے جھانکا اور دانت نکال کر بولا ’’ویسے سر! اگر آپ ایسے ہی اندر داخل ہو جاتے تو ایک سیکنڈ میں نیچے پہنچ سکتے تھے‘‘۔ میں نے اس کے کندھے تھپتھپائے ’’بیٹا ڈائریکشن ٹھیک کرلو، نیچے نہیں مزید اوپر پہنچ جاتا‘‘۔

سب سے پیاری غلطیاں بچے کرتے ہیں، آج سے دس بارہ سال پہلے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں شادی کی تقریب تھی۔ میرے ہمسائے خواجہ صاحب بھی اپنے تین سالہ بچے کے ہمراہ شریک تھے۔ شادی کی یہ تقریب ایک بہت بڑے سیاستدان کے بیٹے کی تھی۔ خواجہ صاحب کو ہر جگہ اپنی امارت جھاڑنے کا بہت شوق ہے۔ قبلہ دُنیا کے واحد شخص ہیں جنہوں نے اپنے ساڑھے تین مرلے کے گھر کے باہر سوا پانچ مرلے کی نیم پلیٹ لگا رکھی ہے جس پر جلی حروف میں تحریر ہے ’دولت خانہ‘۔ واپس فائیو اسٹار ہوٹل کی طرف چلتے ہیں، خواجہ صاحب سے غلطی یہ ہوئی کہ اتنی بڑی تقریب میں اپنے سات سالہ بچے کو ساتھ لے گئے۔ میں اُس چھوٹے گوریلے سے واقف ہوں، انتقام پر اُتر آئے تو دہشت گردوں کو بھی مات دے جاتا ہے۔ کھانے کا وقت ہوا تو اس نے اچانک بھاں بھاں رونا شروع کردیا۔ خواجہ صاحب پہلے تو بڑے پیار سے اسے چپ کراتے رہے۔ پھر بھی بات نہ بنی تو اسے زور سے چٹکی کاٹ لی۔ اس ننھے کمانڈر نے چٹکی کا انتقام براہ راست اپنے باپ سے لینے کے بجائے مجھ سے لیا۔ میں قریب ہی کھڑا تھا، اُس نے آئو دیکھا نہ تائو، ایک لمحے میں اپنے خونخوار دانت میرے بازو میں گاڑ دیے۔ میری ہولناک چیخ سے فائیو اسٹار ہوٹل کے درو دیوار تک لرز اُٹھے۔ وہ بدمعاش بجائے چپ کرنے کے مزید اونچا رونے لگا۔ سیاستدان صاحب قریب آئے۔ بڑے پیار سے خواجہ صاحب کے بیٹے کو گود میں اٹھا لیا اور پوچھنے لگے ’’کیوں بھئی شہزادے رو کیوں رہے ہو؟‘‘ خواجہ صاحب نے موقع غنیمت جانتے ہوئے لمبی چھوڑی ’’بات یہ ہے جی کہ میں نے کل ہی نئے ماڈل کی گاڑی خریدی ہے، ابھی رجسٹریشن نہیں کروائی اور یہ مجھ سے ضد کر رہا ہے کہ نئی گاڑی کی سیر کروائیں‘‘۔ سیاستدان نے چھوٹے گوریلے کو پچکارا ’’اوہ تو یہ بات ہے‘‘ پھر پوچھا ’’بیٹے کون سی گاڑی پر سیر کرو گے میرے والی یا ابو والی ؟‘‘۔ اُس نے جھٹ سے کہا ’’آپ والی!‘‘۔ سیاستدان نے حیرت سے پوچھا ’’کیوں کیا ابو والی گاڑی اچھی نہیں؟‘‘ جواب نفی میں آیا ’’نہیں اِس کا دندا تبھتا ہے اور ابا اس تی دھنتی بھی نئیں بدانے دیتا (نہیں! اس کا ڈنڈا چبھتا ہے اور ابا اِس کی گھنٹی بھی نہیں بجانے دیتا) اُس نے پورے خلوص کے ساتھ خواجہ صاحب کی مٹی پلید کی اور پھر میری طرف دیکھ کر دانت نکال دیے۔ خواجہ صاحب کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کھڑے کھڑے قرنطینہ میں چلے جائیں۔ میں نے جلدی سے کہا ’اصل میں یہ بچہ اپنی چھوٹی سائیکل کو بھی گاڑی ہی کہتا ہے‘۔ سیاستدان نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا اور خواجہ صاحب نے تشکر بھری نظروں سے مجھے دیکھا۔ جونہی سیاستدان دوسری طرف گیا، خواجہ صاحب آہستہ سے میرے کان میں بولے ’گاڑی میں نے بک کروا لی ہے لیکن لاک ڈائون کی وجہ سے ڈلیوری نہیں مل رہی‘۔

تو جناب آئیے ہم بھی مشینی زندگی سے ہٹ کر کوئی غلطی کرتے ہیں۔ یقین کیجئے ہفتے میں ایک آدھ ایسی غلطی ہمارے مزاج شگفتہ کر دے گی اور زندگی بھر اس غلطی کی یاد ہمارے ذہنوںکو فریش رکھے گی۔ یہ چھوٹی چھوٹی غلطیاں ہماری بڑی غلطیوں کا صدقہ ثابت ہوں گی۔ ہمیں خود پر ہنسنے کاموقع ملے گا۔ ہمیں احساس ہوگا کہ ہم بھی انسان ہیں اور یہ جو ہمارے اندر فتور پیدا ہو چکا ہے کہ ہم بڑے پرفیکٹ ہیں اِسے بھی ٹھڈے مارکر دور بھگانے میں بڑی مدد ملے گی۔ غلطیاں نہ ہوں تو انسان خود کو طاقتور سمجھنے لگ جاتا ہے۔ لہٰذا بہت ضروری ہے کہ سارا دن دوسروں کی غلطیاں ڈھونڈنے کے بجائے اپنی غلطیاں ڈھونڈیں اور اگر نہ ڈھونڈ پائیں تو جان بوجھ کر کوئی غلطی کردیں تاکہ اپنا آپ ٹیسٹ ہو سکے کہ ابھی تک انسان ہی ہیں یا کسی اور مرتبے پر فائز ہو گئے ہیں۔