’’فتحِ مکہ‘‘ امن، رواداری اور انسان دوستی کا بے مثال پیغام

May 14, 2020

ڈاکٹر سید عطا اللہ شاہ بخاری

دنیا کے ذخیرئہ اخلاق میں مذہبی رواداری کے تعلق سے یہ بات نادر الوجود ہے کہ اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب نے دشمنوں، بطور خاص مذہب و عقیدہ کی بنیاد پر جانی دشمنوں کے ساتھ عفو و درگزرکے برتاؤ کو لازمی قرار دیا ہو،فتح ِمکہ دنیا کی تاریخ کا وہ یاد گار دن ہے ،جب سرورِ ِعالم،محسن انسانیت ﷺکی طرف سے دشمنوں کے ساتھ عفو ودر گزر کا وہ عظیم الشان نمونہ پیش کیا گیا کہ رہتی دنیا تک کوئی اِس کی نظیر پیش نہیں کرسکتا، دشمنوں سے انتقام کا سب سے بڑا موقع فتح مکہ تھا۔ مگر آپ ﷺنے یہ کہتے ہوئے سب کو معاف فرمادیا: لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ اذْھَبُوْا فَأَنْتُمُ الطُّلَقَاء ‘‘ تم پر کوئی ملامت نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو ۔

رمضان المبارک 8 ھ تاریخ نبوت کا نہایت ہی عظیم الشان عنوان ہے اور سیرتِ مقدسہ کا یہ وہ سنہرا باب ہے کہ جس کی آب و تاب سے ہر مومن کا قلب قیامت تک مسرتوں کا آفتاب بنا رہے گا، کیونکہ تاج دار دوعالم ﷺنے اس تاریخ سے آٹھ سال قبل انتہائی رنجیدگی کے عالم میں مکہ سے ہجرت فرماکر اپنے وطن عزیز کو خیرباد کہہ دیا تھااور مکہ سے نکلتے وقت خدا کے مقدس گھر خانۂ کعبہ پر ایک حسرت بھری نگاہ ڈال کر یہ فرماتے ہوئے مدینہ روانہ ہوئے تھے کہ اے مکہ!خدا کی قسم!تو میری نگاہِ محبت میں تمام دنیا کے شہروں سے زیادہ پیارا ہے، اگر میری قوم مجھے نہ نکالتی تو میں ہرگز تجھے نہ چھوڑتا۔ آٹھ برس کے بعد یہی وہ مسرت خیز تاریخ ہے کہ آپ ﷺنے ایک فاتح اعظم کی شان و شوکت کے ساتھ اسی شہر مکہ میں نزول اجلال فرمایا اور کعبۃ اللہ میں داخل ہوکر اپنے سجدوں کے جمال و جلال سےاللہ کے مقدس گھر کی عظمت کو سرفراز فرمایا۔

مکہ وہ جگہ تھی، جہاں پیغمبر علیہ السلام کے ساتھیوں پر مسلسل 13سال تک ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے ۔ یہیں آپﷺ کے اُوپر نماز کی حالت میں اُونٹ کا بدبوداراوجھ رکھا گیا، آپ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے ، آپ کے قتل کے منصوبے بنائے گئے ،مدینہ منورہ پر بار بار چڑھائی کی گئی اور انہوں نے ہی اپنے ہاتھوں صلح حدیبیہ کی شرئط کو پامال کیا تھا۔ آج جب جاںنثارانِ نبوت کے ہاتھوں مکہ کے فتح کرنے کا وقت آرہاتھا تو ان ظالموں کے لیے معافی کے دروازے دنیا کے دستور کے مطابق بند ہو جانے چاہیے تھے، مگر دنیا کا دستور اورد نیا دار بادشاہوں کا طریقہ کچھ بھی رہا ہو، سرورِ کونین اور شاہِ دوجہاں رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اِس موقع پر جس دستور کو پیش کرکے دنیا کو حیرت زدہ کردیا، وہ یہ تھا جب مکہ میں حضور اکرم ﷺاور صحابہؓ کاداخلہ ہو رہا تھا تو دنیا نے یہ منظربھی دیکھا کہ آپﷺ اپنی اونٹنی قصویٰ پراِس طرح تشریف فرما تھے کہ آپ کا چہرۂ مبارک اونٹنی کے کجاوے سے جا لگا تھا اور صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ اپنے رب کا شکر بجا لانے میں مصروف تھے۔

اِس موقع پر آپﷺ کے لبوں پر یہ آیت جاری تھی:’’اور اعلان فرما دیجیے کہ حق آگیا اور باطل شکست کھا گیا، بے شک باطل ہوتا ہی ہے مٹ جانے کے لیے ہے‘‘ ، بعض پُرجوش صحابہؓ کی طرف سے یہ کلمات پہنچے کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ الیوم یوم الملحمۃ (آج تو جنگ و قتال کادن ہے) یعنی ان کا جذبہ انتقام جوش مار رہا ہے اور وہ آج مشرکین ِمکہ کو اُن کی اوقات بتادیں گے تو پیغمبر علیہ السلام نے اس جملے پر ناگواری ظاہر فرمائی اور اعلان کیا :''آج (جنگ کادن نہیں ، بلکہ )وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ کعبے کو مزید عظمت عطا فرمائے گا اور آج کے دن کعبے کو عزت کا لباس پہنایا جائے گا۔‘‘آپﷺ نے صحابۂ کرامؓ کو ہدایت کی کہ وہ حملہ کرنے میں ابتدا نہ کریں، بلکہ صرف دفاعی پوزیشن اختیار کریں،تاج داردوعالم ﷺنے مکے کی سرزمین میں قدم رکھتے ہی جو پہلا فرمان جاری فرمایا، وہ یہ تھا کہ جس کے لفظ لفظ میں رحمتوں کے دریا موجیں مار رہے ہیں:جو شخص ہتھیار ڈال دے گا، اس کے لئے امان ہے۔اور پھر رحمت کو اس قدر جوش ہوا کہ اعلان کردیا :جو شخص سردارِ مکہ ابو سفیان کے گھر میں آجائے ،وہ امن میں ہے جو حرم مکہ میں پناہ لے لے، وہ امن میں ہے اور جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر کے بیٹھ جائے ،وہ بھی امن میں ہے ''۔جب آپﷺ شہر مکہ میں داخل ہوئے،لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ آپ پرانے مظالم کا بدلہ لیں گے،لیکن آپﷺ نے ان کے توقع کے خلاف یہ اعلان کردیاآج تم پر کوئی الزام نہیں،اللہ تمہاری غلطی کو معاف کرے گا،جاؤ تم سب آزادہو۔ (ابن ہشام)

اس کے بعد شہنشاہِ کونین ﷺنے ہزاروں کے مجمع میں ایک گہری نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ سرجھکائے، نگاہیں نیچی کئے ہوئے لرزاں و ترساں اشراف قریش کھڑے ہوئے ہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے آپ ﷺ کے راستوں میں کانٹے بچھائے تھے،بارہا آپ پر پتھروں کی بارش کی ۔قاتلانہ حملے کئے ۔ آپ ﷺکے گلے میں چادر کا پھندا ڈال کر آپ کا گلا گھونٹے کی کوشش کی۔ وہ آپ کے خون کے پیاسے بھی تھے جن کی تشنہ لبی اور پیاس خون نبوت کے سوا کسی چیز سے نہیں بجھ سکتی تھی، یہ تمام جوروجفا اور ظلم و ستم گاری کے پیکر، جن کے جسم کے رونگٹے رونگٹے اور بدن کے بال بال ظلم وعدوان اور سرکشی و طغیان کے وبال سے خوفناک جرموں اور شرمناک مظالم کے پہاڑ بن چکے تھے۔ آج یہ سب کے سب حراست میں مجرم بنے ہوئے کھڑے کانپ رہے تھے ۔آپﷺ کی نگاہِ رحمت ایسے لوگوں کی طرف متوجہ ہوئی اور آپﷺ نے پوچھا’’بولو! تمہیں کچھ معلوم ہے ؟کہ آج میں تم سے کیا معاملہ کرنے والا ہوں۔'' اس دہشت انگیز اور خوفناک سوال سے مجرمین حواس باختہ ہو کر کانپ اُٹھے، لیکن جبین رحمت کے پیغمبرانہ تیور کو دیکھ کر اُمید و بیم کے محشر میں لرزتے ہوئے سب یک زبان ہوکر بولے کہ آپ کرم والے بھائی اور کرم والے باپ کے بیٹے ہیں۔

سب کی للچائی ہوئی نظریں جمال نبوت کا منہ تک رہی تھیں اور سب کے کان آپﷺ کا فیصلہ کن جواب سننے کے منتظر تھے کہ اک دم دفعۃً فاتح مکہ ﷺنے اپنے کریمانہ لہجے میں ارشاد فرمایا : آج تم پر کوئی الزام نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔بالکل غیرمتوقع طورپر ایک دم اچانک یہ فرمان رسالت سن کر سب مجرموں کی آنکھیں فرطِ ندامت سے اشکبار ہوگئیں اور ان کے دلوں کی گہرائیوں سے جذبات شکریے کے آثار آنسوؤں کی لڑی بن کر ان کے رخسار پر مچلنے لگے اور کفار کی زبانوں پر ’’لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ ‘‘کے نعروں سے حرم کعبہ کے درودیوار پر ہر طرف انوار کی بارش ہونے لگی۔ ایک عجیب انقلاب برپا ہوگیا کہ سماں ہی بدل گیا، فضا ہی پلٹ گئی ، آپ نے تمام دشمنان اسلام سے عفو درگزر کا معاملہ فرمایا۔

اللہ اکبر!کیا دنیا کے کسی فاتح کی کتاب زندگی میں کوئی ایسا حسین و زریں ورق موجود ہے؟ یہ نبیﷺ جمال و جلال کا وہ بے مثال شاہکار ہے کہ شاہان عالم کے لئے اس کا تصور بھی محال ہے۔ انسان کی فطرت میں انتقام اور قصاص کا عنصر موجود ہے اور یہ انفرادی واجتماعی دونوں سطحوں پر کارفرما رہتاہے، لیکن فاتح مکہ ﷺنے اپنی علمی اور نبوی حیاتِ طیبہ میں دنیا پر یہ بات واضح کردی کہ آپ کو انہیں جوڑنے کے لئے مبعوث کیا گیا ہے ، نہ کہ توڑنے کے لئے ۔گویا فتح مکہ کے پیش نظر آپﷺ کی عالمگیر تعلیمات ،آپ ﷺکے اخلاق حسنہ ، آپﷺ کے کردار جمیلہ ، رواداری ، عفوو درگزرسے عبارت ہے اور ثابت کردیا کہ امن و رواداری کا سب سے بڑا داعی دین اسلام ہے ۔