گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو

May 14, 2020

پہلا پرائیویٹ بجلی کا پلانٹ ’’حب کو‘‘(Hubco) ہے یہ ایک برطانوی کمپنی نیشنل پاور کا پلانٹ تھا جس کو یہ پیشکش کی گئی کہ ہم آپ سے بجلی انٹرنیشنل ریٹ پر خریدیں گے اور ڈالر میں ادائیگی کریں گے یہ ریٹ ساڑھے چھ سینٹ فی یونٹ تھا۔اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ بجلی کی ادائیگی تو انٹرنیشنل ریٹ سے ہو گی لیکن اس کی پیداوار تو پاکستان میں ہو گی جو سستی لیبر رکھتا ہے۔ برطانوی کمپنی اپنے تمام انجینئروں اور عملے کو تنخوائیں پاکستانی روپوں اور پاکستانی معیار سے دے گی۔ مرمت اور دیکھ بھال کا کام جو پاکستانی ٹیکنیکل اسٹاف کرے گا وہ بھی روپوں میں ادائیگی پائے گا تو کمپنی کا بجلی بنانے کا خرچ تو روپوں میں ہو گا اور حکومت قیمت ادا کرے گی ڈالروں میں انٹرنیشنل ریٹ کے مطابق تو اندازہ لگائیے کہ منافع کی شرح کیا ہو گی

آئی پی پیز کیا بَلا ہے۔اور ان مخففات کے پردے میں کون چھپا ہے۔آئی پی پیز کہتے ہیں Indepandent Power Producers کو۔یعنی آسان لفظوں میں پرائیویٹ بجلی گھر۔ چونکہ پاکستان میں بجلی بنانے اور گھر گھر بجلی پہنچانے کا انتظام حکومتی یا نیم سرکاری کارپوریشنوں کے ہاتھ میں تھا اس لئے پرائیویٹ کا لفظ ضروری ہو گیا ۔بجلی بنانے کا کام واپڈا کے سپرد تھا جس کے زیر اہتمام منگلا ، تربیلہ اور وارسک ڈیم سے پن بجلی آتی تھی اور کچھ بجلی گھر تیل اور گیس سے چلتے تھے ۔واپڈا کے علاوہ کراچی میں KESCکے بجلی گھر تھے جو تیل سے چلتے تھے۔ کوئلے سے بجلی بنانے کا رواج نہ تھا ۔

جتنے ڈیم کا ذکر ہے وہ سب ایوب خان کے وقت میں بنے۔جب پانچ دریائوں کا ہندوستان سے معاہدہ ہو گیا اور تین دریا یعنی چناب جہلم اور دریائے سندھ پر ہمارا حق تسلیم کر لیا گیا تو پھر ورلڈ بینک کے قرضے سے یہ ڈیم تعمیر ہوئے ۔طاس سندھ کے معاہدے پر کڑی تنقید ہوتی ہے اور لوگ یہاں تک کہتے ہیں کہ ایوب خان نے ہمارے دو دریا بیچ دیے ۔مگر یہ سوچنے کا انداز ہے ۔اگر پانی کا یہ معاہدہ نہ ہوتا تو ہم نہ صرف کشمیر کے معاملے پر ہر وقت حالت جنگ میں رہتے بلکہ پانچوں دریائوں پر بھی ہمارا سارا وقت تنازعات میں گزرتا۔لیکن قومی معاملات میں ہر کسی کو اپنی رائے رکھنے کا حق ہے۔

بھٹو دور میں ایٹمی بجلی گھر پر توجہ رہی ۔کوئی بجلی گھر بن گیااور کوئی رک گیا ۔کیونکہ ہم پر الزام لگ رہا تھا کہ ہم ایٹمی بجلی گھر کی آڑ میں ایٹمی اسلحہ بنا رہے ہیں ۔ہم اپنی صفائی پیش کرتے رہے امریکہ پابندیاں لگاتا رہا ۔لیکن اس کے بعد ضیاءالحق کا دور آیا جہاں ہم افغان جنگ میں ایسے مصروف ہوئے کہ بجلی پیدا کرنا بھول گئے ۔گیارہ سال ملک میں ایک بھی پاور پلانٹ نہ لگا ۔اور آبادی میں چار کروڑ کا اضافہ ہو گیا۔چنانچہ جب بے نظیر نواز شریف کے دور حکومت شروع ہوئے تو لوڈ شیڈنگ نے ڈیرے ڈال دیے۔

سرکاری تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق نجی بجلی گھروں نے ملک کو 13 برسوں میں 4800ارب روپوں کا نقصان پہنچایا لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ ایسا سرکاری پالیسیز کے تحت ہوا

کالا باغ ڈیم جس کی تعمیر کے لئے ورلڈ بینک سرمایہ مہیا کرنے کو تیار تھا لیکن ہم بنانے کو تیار نہ تھے۔سندھ کا اعتراض تھا کہ اگر ڈیم بنا کر پانی روکا گیا تو سندھ کا بڑا علاقہ سوکھ جائے گا اور ساتھ ہی ڈیلٹا تک ناکافی پانی پہنچے گا اور آس پاس کی زمین شور زدہ ہو جائے گی ۔صوبہ سرحد جو آگے چل کر، کے پی کے کہلایا اس کا خیال تھا کہ اگر ڈیم بنا تو اس کی جھیل کا پانی نوشہرہ کو لے ڈوبے گا ۔کالا باغ ڈیم بنانے کے بجائے ہم نے اپنی ساری انرجی بحث و مباحثہ میں صرف کر دی اور نوبت بہ اینجا رسید کہ مقتدر سیاسی رہنمائوں نے کہہ دیا کہ ڈیم کی ایک اینٹ بھی رکھی گئی تو ہم اسے بم سے اڑا دیں گے۔

کالا باغ ڈیم نہ بننا تھا نہ بنا لیکن اپنے پیچھے اندھیرے چھوڑ گیا ۔پاکستان کی حکومتوں کے پاس اتنا سرمایہ نہ تھا کہ وہ تیل سے چلنے والے بجلی گھر بناتے یا یوں کہئے کہ جو کچھ خزانے میں تھا وہ بجلی گھر کی تعمیر پر لگانا نہ چاہتے تھے۔سو ڈھنڈیا پڑی کہ کوئی سرمایہ دار ہو جو اپنے سرمائے سے بجلی گھر لگائے اور ا س سے منافع کمائے ۔اور وہ اتنا منافع ہو کہ غیر ملکی کمپنیاں بھی دلچسپی لیں۔ سو پہلا پرائیویٹ بجلی کا پلانٹ جو لگا وہ ہے حب کو(Hubco)۔ یہ ایک برطانوی کمپنی نیشنل پاور کا پلانٹ تھا جس کو یہ پیشکش کی گئی کہ ہم آپ سے بجلی انٹرنیشنل ریٹ پر خریدیں گے اور ڈالر میں ادائیگی کریں گے یہ ریٹ ساڑھے چھ سینٹ فی یونٹ تھا۔

اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ بجلی کی ادائیگی تو انٹرنیشنل ریٹ سے ہو گی لیکن اس کی پیداوار تو پاکستان میں ہو گی جو سستی لیبر رکھتا ہے ۔برطانوی کمپنی اپنے تمام انجینئروں اور عملے کو تنخوائیں پاکستانی روپوں اور پاکستانی معیار سے دے گی۔ مرمت اور دیکھ بھال کا کام جو پاکستانی ٹیکنیکل اسٹاف کرے گا وہ بھی روپوں میں ادائیگی پائے گا تو کمپنی کا بجلی بنانے کا خرچ تو روپوں میں ہو گا اور حکومت قیمت ادا کرے گی ڈالروں میں انٹرنیشنل ریٹ کے مطابق تو اندازہ لگائیے کہ منافع کی شرح کیا ہو گی۔برطانوی کمپنی کے ایک پاکستانی انجینئر کا کہنا تھا کہ کمپنی اتنا منافع کما رہی ہے کہ اسے گننے کی فرصت نہیں ۔

ذرا سوچئے 1994؁ میں حکومت کس کی تھی جس نے یہ ریٹ طے کئے۔پہلی مسلم خاتون وزیراعظم کے شوہر ان کے پہلے دور حکومت میں سیاست سے دور رہے لیکن کاروبار میں انتہائی کامیاب ۔ 1994؁ کی کابینہ میں انہوں نے باقاعدہ شمولیت اختیار کر لی اور ذہن پر زور تو ڈالئے انہوں نے کون سا محکمہ پسند فرمایاجی ہاں فیڈرل منسٹر فار انوسٹمنٹ ۔اچھا یہ تو ہوئی بات انرجی پرائس کی ۔لیکن اس کے علاوہ ایک اور قیمت بھی ہے جو حکومت کے ذمے ہے کہ کمپنی کو ادا کرے اور وہ ہے Capacity Price یعنی آپ کے پلانٹ کی جو بجلی پیدا کرنے کی گنجائش ہے ہم اس کا 60فیصد خریدنے کے پابند ہیں چاہے سردیوں میں ضرورت کم ہو جائے اور ہم 60 فیصد سے کم بھی خریدیں تو آپ کو گنجائش کا 60فیصد ہم ہر حال میں ادا کریں گے ۔اور اس کے علاوہ تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھائو کا نقصان بھی آپ ہم سے لے لیجئے گا ۔

اتنی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ گیارہ سال کے اندھیروں کے بعد ہم مجبور تھے کہ جن شرائط پر بھی برطانوی کمپنی رضامند ہو ہم اس سے بجلی پیدا کرنے کا معاہدہ ضرور کریں۔لیکن پھر 2002؁ کی پاور پالیسی میں بھی ایسی ہی شاندار شرائط تھیں کہ ہماری بدنیت دولتمند اشرافیہ (میں اس لفظ کا متبادل کہاں سے لائوں) کی رال ٹپکنے لگی اور جن کے پاس پہلے ہی دولت کے انبار تھے وہ پرائیویٹ بجلی گھر بنانے کے لئے حکومت کو درخواستیں دینے لگے اور تیرہ برسوں میں بیالیس بجلی گھر لگے اور منافع کی شرح یہ تھی کہ 51 ارب میں پلانٹ لگائو اور 415 ارب کمائو ۔ذرا خدا لگتی کہئے کہ ہمارے وزیر تجارت یا وزیر توانائی یا مشیر توانائی ایسے معتبر لوگ ہیں کہ کیا یہ کوئی غیر قانونی کام کریں گے ۔یہ ضرور ہے کہ یہ وزیر بھی ہیں اور بجلی گھر بھی انہیں کے ہیں۔

انہوں نے منافع کمایا ہے آپ کو وہ منافع بہت زیادہ لگ رہا ہو یا شاید ناجائز بھی لگے اور آپ طرح طرح کے شبہات اور بدگمانی میں پڑ جائیں لیکن ان وزراء کا کوئی قصور نہیں ۔سب کچھ قانون کے مطابق ہے ۔رہی یہ بات کہ یہ قانون کس نے بنائے ۔عین ممکن ہے کہ انہی وزیروں نے بنائے ہوں یا پھر ان بجلی گھروں کے مالکان نے جو پچھلی حکومتوں میں حصہ دار رہے۔اور آپ کے خیال میں یہ اپنے بجلی گھروں کی جو پیداوار ی صلاحیت بتاتے ہیں اور اس کے مطابق ادائیگی لیتے ہیں اور وہ درست نہیں تو اس میں ان کا کیا دوش۔آپ کی حکومت کے پاس وہ ذرائع نہیں (یا خواہش نہیں) کہ جا کر بجلی گھروں کو دیکھیں کہ ان کی Capacity کیا ہے۔آپ بغیر ثبوت تو کسی کی شہرت داغدار کرنے کا حق نہیں رکھتے۔

آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں کہ بجلی گھروں میں بجلی کیسے بنتی ہے ۔بجلی بنانے کے لئے ایک ٹربائن (Turbine) چاہیئے جس میں دیو قامت پنکھے لگے ہوتے ہیں جو ایک فولادی پلیٹ کو رگڑتے ہیں ۔اس رگڑ سے بجلی پیدا ہوتی ہے ۔اب ان پنکھوں کو حرکت میں لانے کے لئے طاقت چاہیئے جس کے لئے بھاپ درکار ہے ۔وہی بھاپ جس سے ریل کے انجن چلتے ہیں ۔

بھاپ بنانے کے لئے ایک بھٹی میں پانی گرم کیا جاتا ہے جس میں ایندھن استعمال ہوتا ہے جوکوئلہ بھی ہو سکتا ہے، گیس بھی اور تیل بھی ۔کوئلہ سب سے سستا پڑتا ہے گیس اس سے مہنگی اور تیل سے سب سے مہنگی بجلی پیدا ہوتی ہے۔ہمارے تمام پرائیویٹ بجلی گھر تیل پر چلتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ہمیں مہنگی بجلی ملتی ہے۔لیکن اس مہنگی بجلی میں ان کا کیا قصور انہیں اختیار دیا گیا تھا کہ جس ایندھن سے بجلی پیدا کرنا چاہیں کریں ۔تو انہوں نے سب سے آسان مگر سب سے مہنگی بجلی کا انتخاب کیا ۔اب عوا م جانیں اور ان کے بجلی کے بل ۔

ان بیالیس پرائیویٹ بجلی پلانٹس کے مالکان کی ایک انجمن بھی ہے اور اس انجمن کے ترجمان وزیراعظم کے مشیر توانائی ہیں ۔ اس میں نہ الجھیں کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ مشیر بھی ہو اور پرائیویٹ تاجران بجلی کا ترجمان بھی ہو ۔وطن عزیز میں ایسا ہی ہے ۔یہاںConflict of Interestکا کوئی تصورنہیں ۔ہمارے توانائی کے مشیر کے پاس دو ٹوپیاں ہیں۔ مشیر کی ٹوپی اوڑھ کر یہ انکوائری رپورٹ میں الزامات گرج کر سناتے ہیں پھر دوسری ٹوپی تاجران بجلی کی انجمن کے ترجمان کی اوڑھ کر جواب دیتے ہیں یہ کیا تماشہ لگا رکھا ہے ۔ہم نے کوئی غیر قانونی کام کیا ہو تو بتائو؟ اب حکومتی مشیر ندامت سے سر جھکا لیتے ہیں ۔

یہ کہانی آگے چلتی ہے۔کابینہ کے ایک وزیر مملکت برائے توانائی بھی ہیں ۔ان کے نام نامی سے کون واقف نہیں ۔ان کا توشجرہ بھی سب کو ازبر ہے اللہ نے ان کے پورے خاندان پر کرم کیا ہے۔ان کے پاس کیا کچھ نہیں ساتھ میں بجلی گھر بھی ہیں ۔چنانچہ اب پرائیویٹ بجلی گھروں کے ترجمان اپنی انجمن کی طرف سے الزامات کا جواب وزیر توانائی کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔وزیر توانائی اس جواب کو سرسری نظر سے دیکھتے ہیں انہیں تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ۔یہ ان کی اپنی انجمن کا جواب ہے ۔ہاں وہ انجمن کے ترجمان جو حکومتی مشیر بھی ہیں ان کی محنتوں کو داد دینا نہیں بھولتے۔

ہماری قوم کے ساتھ یہ بڑی مشکل ہے کہ ہمیں حساب کتاب سے چڑ ہے ۔ہم حساب کتاب رکھنے والے کو بنیا کہتے ہیں ۔لیکن کچھ دیر طبیعت پر جبر کر کے ایک حساب کرتے ہیں کہ انکوائری رپورٹ جو یہ بتا رہی ہے کہ تیرہ برسوں میں ان بجلی گھروں نے قومی خزانے کو 4800 بلین روپوں کا نقصان پہنچایا تو دیکھتے ہیں یہ رقم کتنی ہوتی ہے اور اگر خزانے میں ہوتی اور دردِ دل رکھنے والا وزیر خزانہ ہوتا تو وہ ان پیسوں سے کیا کر سکتا تھا۔

اتنا تو ہم سب جانتے ہیں کہ ایک بلین میں ایک ہزار ملین ہوتے ہیں تو 4800 بلین کو ہم 4800,000ملین یا اڑتالیس لاکھ ملین لکھ سکتے ہیں ۔اب اگر 2 ملین یعنی 20 لاکھ میں ایک پانچ کمروں کا اسکول بن سکتا ہوجہاں پانچ ٹیچر ہوں اور سو بچے تو ایک پرائمری اسکول قائم ہو گیا ۔تو اڑتالیس لاکھ ملین کی رقم سے چوبیس لاکھ اسکول بن سکتے ہیں ۔لیکن ہمیں تو صرف ڈھائی لاکھ اسکول چاہیں جن میں ڈھائی کروڑ بچے جن کے لئے اسکول نہیں ہےوہ تعلیم حاصل کر سکیں ۔

تو اب جو رقم بچی تقریباً انیس لاکھ ملین تو اب ہم دس کروڑ (100ملین) والے اسپتال بناتے ہیں تو انیس ہزار اسپتال بن سکیں گے لیجئے یہ تو دنیا ہی بدل گئی ۔اگر پاکستان کا ہر بچہ تعلیم حاصل کرنے لگے اورملک کے چپے چپے پر سرکاری اسپتال کام کر رہے ہوں تب تو قائد اعظم کا پاکستان وجود میں آ جائے گا ۔اس لئے واپس آیئے حقیقت کی دنیا میں اس ملک پر ابھی ایک طویل عرصے تک مسٹر ٹین پرسنٹ اور دو ٹوپیوں والے وزیر حکومتوں میں رہیں گے اور انہیں کی شوگر ملیں ہوں گی جہاں یہ اربوں کی سبسڈی لیں گے اور انہیں کے بجلی گھر ہوں گے جہاں یہ ڈھائی لاکھ اسکول اور بیس ہزار اسپتالوں کے برابر منافع کمائیں گے۔انہی کے بینک انہی کے انشورنس کمپنیاں ۔

لیکن آفریں ہے اس قوم پر یہ کسی ڈاکے ،کسی خیانت ،کسی چوری کو خاطر میں نہیں لاتی ۔یہ شوگر مل مالکان کی سیکڑوں ارب کی سبسڈی پر مسکرا کر رہ جاتی ہے ۔جیسے معین قریشی جب پارلیمنٹ میں سیکڑوں سیاستدانوں ،کارخانے داروں ،تاجروں اور چوہدریوں کی فہرست پیش کر رہے تھے جنہوں نے کروڑوں اور اربوں کے قرضے بینکوں سے معاف کرائے تھے ۔یا جب سوئٹزرلینڈ کے اکائونٹ اور لندن کے فلیٹوں کی ہوشربا داستانیں سنائی جاتی ہیں ۔میں اس بات پر حیران نہیں ہوں کہ پرائیویٹ بجلی بنانے والوں نے چار ہزار آٹھ سو ملین کا نقصان پہنچایا مجھے تو یہ حیرانی ہے کہ ہمارے پاس چار ہزار بلین کی سکت کہاں سے آئی ۔ یہی وجہ ہے کہ قوم بے فکر ہے ۔

آئی ایم ایف سے اربوں ڈالر کا قرضہ ملے یا نہ ملے ۔FATF ہمیں گرے لسٹ میں رکھے یا بلیک لسٹ میں ڈال دے ۔آپ بتایئے کہ دوکانوں کے تھڑے پر بیٹھے کاریگر یا بےروزگار ان کی زندگیوں پر کبھی کوئی فرق پڑا ہے ۔اسے کوئی کہتا رہے لٹیا ترا شہر بھنبھور سسی بے خبرے، ان کے کان پر جوں نہیں رینگتی یہ قوم حال مست ہے ۔کشمیر کا زلزلہ ہو یا 2010 کا سیلاب یا یہ کورونا وائرس کی وباء۔یہ ہر مشکل سے ہنستے کھیلتے گزر جاتی ہے ۔یہی اس کی مضبوطی ہے۔