درِ دل پہ صدا... عید مبارک

May 24, 2020

فرحی نعیم

’’ انسان سوچتا کچھ ہے اور ہو کچھ اور ہی جاتا ہے‘‘باجی افسردگی سے بڑبڑائیں۔’’کیا ہوگیا باجی، کس بات پرپریشان ہیں؟‘‘زیبی نے بدستور موبائل پر نظریں جمائے پوچھا۔ ’’ہائے! کیسے کیسے پلانز بنائے تھے مَیں نے عید کے‘‘ وہ تاسّف سے کہہ رہی تھیں۔ ’’ اوہ… اچھا‘‘ زیبی نے ابرو چڑھا کر گردن ہلائی۔تو آپ عید کے بارے میں سوچ رہی ہیں۔‘‘’’مَیں نے تو تمہارے بہنوئی صاحب سے پہلے ہی کہہ دیا تھاکہ پچھلی مرتبہ جو کسر رہ گئی تھی، وہ اس عید پر پوری کروں گی۔

مجھے روکیے ،ٹوکیے گا نہیں۔ ‘‘’’ تو باجی، آپ افسردہ کیوں ہو رہی ہیں،نکال لیجیے گا ساری کسر۔ آپ کو روکنے والا کوئی مائی کا لال ابھی پیدا ہی کہاں ہو ا ہے۔ ‘‘ اُس نے بمشکل اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے کہا۔’’زیبی! تمہیں تو ہر وقت مذاق ہی سوجھتا ہے، کبھی جو میری بات سنجیدگی سے سُنو۔ الله مارے اس کورونا کے ہوتے مَیں کیسے باہر نکل سکتی ہوں، عید کی شاپنگ تو دُور کی بات، میری لِپ اسٹک ختم ہوئے دو ہفتے گزر چُکے ہیں وہ نہیں خرید پائی ابھی تک۔‘‘ وہ بےبسی سےبولیں۔ ’’ اوہ… ‘‘ زیبی نے بظاہر ہم دردی جتائی۔’’سوچا تھاعید کے کپڑے سب سے منہگےبوتیک سے خریدوں گی۔بچّوں کی بھی ایسی شاپنگ کروں گی کہ سب دیکھتے رہ جائیں گے۔‘‘ ’’مگر یہ کام تو آپ آن لائن بھی کر سکتی ہیں۔‘‘زیبی نے آسان مشورہ دیا۔ ’’ ارےمیری بھولی بہن! منگوانے کو تو منگوالوں، لیکن کہیں خراب مال نہ بھیج دیں۔ آج کل تو ویسے بھی آن لائن شاپنگ کے نام پر لُوٹ مچی ہوئی ہے۔ اورمَیں توجب تک کئی دُکانیں پھر کر، اپنی پسند اور مرضی کے کپڑے نہ خریدوں،تب تک خریداری کا مزہ ہی نہیں آتا۔‘‘’’ اب یہ تو آپ کی اپنی منطق ہے۔

ساری دنیا کوئی پاگل تھوڑی ہے، جو آن لائن شاپنگ کر رہی ہے۔ ‘‘زیبی بڑبڑائی۔ ’’ اس بار تو لگتا ہے دعوت کا کھانا بھی خود ہی پکانا پڑے گا کہ پکوان سینٹر سے کھانا پکوانا بھی خطرے سے خالی نہیں۔‘‘’’باجی! ایک بات ہے، ویسے ان مشکل حالات میں، جب لوگ بھوک افلاس سے پریشان ہیں، آپ نے کتنی غیر سنجیدہ باتوں کو ایشو بنایا ہوا ہے ناں…برا نہیں منائیے گا، پر یہ آپ کی بہت بری عادت ہےکہ جب تک میکے، سُسرال سمیت درجن بھر لوگوں کو اپنے کپڑے نہیں دِکھا دیتیں، قیمت نہیں بتا دیتیں، آپ کا کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ ‘‘ زیبی قدرے سنجیدگی سے بولی ، تو باجی چراغ پا ہوگئیں۔ ’’ زیبی اپنے الفاظ فوراً واپس لے لو، ورنہ تمہاری خیر نہیں۔ ‘‘’’ اچھا اچھا… غصّہ نہ ہوں ،لیکن ٹھنڈے دماغ سے سوچیں ،کیا مَیں نے کچھ غلط کہا؟؟‘‘’’ بات تو سچ ہے، مگر بات ہے…‘‘ باجی نے زیرِ لب مُسکراتے ہوئے مصرع ادھورا چھوڑدیا۔

’’ ارے بھئی! اب کیا قیمتی کپڑے پہن کر صرف اپنے آپ کو دِکھائیں…؟‘‘ باجی نے کچھ سوچ کر بولا۔’’اچھا اب یہ بتائیں کہ عید کی شاپنگ کا کیا کریں گی؟‘‘’’ یہی تو سوچ رہی ہوں، میرے تو سارے پلانز فیل ہوگئے۔ نہ دعوت، نہ کپڑےاور نہ… ‘‘’’اور نہ…؟؟اور کس چیز کی کمی ہے؟؟‘‘ زیبی نے پُر تجسّس لہجے میں پوچھا۔ ’’اصل میں بات صرف شاپنگ کی نہیں ہے، پیسوںکی بھی ہے۔ ‘‘ اس لاک ڈاؤن کے نتیجے میں تمہارے بھائی جان کی تنخواہ آدھی ہوگئی ہے۔ بچت کے پیسوں سے رمضان تو جیسے تیسے گزار ہی لیا ہے، لیکن عید کے خرچے کیسے پورے کروں۔ وہ بے بسی سے بولیں۔ ’’یہ تو واقعی سچ ہے کہ ہمارے سارے عیش آرام گھر کےمَردوں کی محنت کی کمائی کےمرہونِ منّت ہیں۔ کبھی کبھی مَیں سوچتی ہوں، جو خواتین اپنی ہنر مند ی، سلیقہ مندی اور سگھڑاپے کی داد لیتی ہیں، اس کا سہرا بھی تو کہیں نہ کہیں باپ بھائی، شوہرہی کے سر ہے۔

میری ایک دوست، پچھلے سال رمضان سے قبل بڑے فخر سے بتا رہی تھی کہ مَیں نے مختلف اقسام کی چٹنیاں، کباب، رول، سموسے، چھولے، دہی بڑے، سب کچھ بنا کر فریز کردیا ہے۔ عید کی شاپنگ بھی کرلی ہے، جس پر ساری سہیلیاں اس کے سگھڑاپےکی داد دینےلگیں، لیکن اس مرتبہ وہ کچھ نہ کر سکی کہ اس کےمیاںلاک ڈاؤن کی وجہ سے کام پر ہی نہیں جارہے، تو خریداری کیسے کرتی۔ ویسے باجی! کیا عید کی شاپنگ پر ہزاروں روپے خرچ کرنا ضروری ہیں؟ عید تو خوشی کا موقع ہےاور خوشیاں تو اپنوں کے ساتھ ہی سے دوبالا ہوجاتی ہیں، پھر یہ دکھاوا کیسا…ہم سادگی سے بھی توعید منا سکتے ہیں اور مجھے تو لگتا ہے یہ لاک ڈاؤن، کورونا وغیرہ تو اِک بہانا ہے، در حقیقت توالله تعالیٰ ہمیں سادگی کا سبق دینا چاہتا ہے۔

یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ غریبوں، مفلسوں کاسوچو، جو بے چارے عام دنوں میں تو کیا، تہواروں پر بھی اچھے کھانے کے لیے ترس رہے ہوتے ہیں۔ ‘‘ ’’ہاں زیبی…‘‘ باجی نے ایک ٹھنڈی آہ بَھری۔’’ ان حالات نے مجھےایک بات تو اچھی طرح سمجھادی ہے کہ بہت سی چیزوں کے بنا بھی ہماری زندگی خوش گوار ہو سکتی ہے، کئی ایسے خرچے، جنہیں مَیں بہت ضروری خیال کرتی تھی، بالکل فضول نکلے۔واقعی زندگی میں سکون دکھاوے سے نہیں، سادگی اور اپنوں کے ساتھ سے آتا ہے۔ ‘‘زیبی کی باتیں باجی کے دل پر اثر کر گئی تھیں۔ کچھ ہی دیر میں اُس کی ہاں میں ہاں ملانے لگیں اور تہیّہ کرلیا کہ اس بار عید پر کوئی دکھاوا، نمود و نمایش نہیں ہو گی۔