منظر تھا اک اجاڑ نگاہوں کے سامنے

May 17, 2020

وبا کے دن ہیں اور ہم سب کمزور ہیں، ربِ تعالیٰ ناراض لگتا ہے۔ لب پر درخواست اور دعا ہے۔ ’’یا مولا! مجھے وہ طاقت نہ دے جس سے میں دوسروں کو کمزور کروں۔ وہ دولت نہ دے جس کی خاطر میں دوسروں کو حقیر اور غریب سمجھوں۔ وہ علم نہ دے جسے میں اپنے سینے میں چھپا کر رکھوں۔ وہ بلندی نہ دے کہ مجھے اپنے سوا کچھ نظر نہ آئے۔ مجھے وہ سب کچھ دے جو میں دوسروں میں بانٹ سکوں‘‘۔ یہ دعا مولانا روم سے منسوب ہے۔

میرے وطن میں عجب سے خوف اور آسیب کا سایہ ہے۔ غیر یقینی کی کیفیت نے سرکار کو قوتِ فیصلہ سے محروم کر رکھا ہے۔ کپتان وزیراعظم کی میڈیا ٹیم نئی صف بندی کے بعد میدان میں جتی نظر آ رہی ہے۔ میڈیا کے بڑے وزیر جناب شبلی فراز ایک نیک نفس انسان ہیں۔ انہوں نے اپنے والد کی شہرت کا کبھی بھی فائدہ نہیں اٹھایا۔ وہ ایک زمانہ میں پاک فضائیہ کے لڑاکا ہوا باز تھے اور پھر کچھ عرصہ کے لئے سول سروس سے بھی وابستہ رہے۔ اسی دوران آپ نے کولمبیا یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ عمران خان ان کے مداح ہیں اور اب وہ میڈیا میں روا داری کو فروغ دینے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ میڈیا ٹیم کے دوسرے اہم کردار سابق جنرل عاصم سلیم باجوہ ہیں۔ عاصم باجوہ جدی پشتی جاٹ ہیں، گزرے زمانے کی بات ہے جب آپ نے آئی ایس پی آر میں نت نئے تجربے کئے اور افواج پاکستان کا چہرہ بہتر بنانے کی بھرپور کوشش کی۔ اس کے بعد ان کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی جب ان کو بلوچستان میں کور کمانڈر مقرر کیا گیا۔ ان کی عملداری میں بلوچستان سے ملحقہ علاقہ بھی تھے۔ افغانستان کی سیاست پر ان کی گہری نظر رہی ہے۔ افغانستان میں امریکی اور متحدہ افواج سے بھی ان کا مکالمہ ہوتا رہا ہے۔ پھر فوج سے فارغ ہونے کے بعد بھی ان کی ضرورت محسوس کی گئی اور سی پیک منصوبہ میں ان کو کلیدی کردار دیا گیا اور انہوں نے خاموشی سے اپنا کام شروع کیا اور پھر چینی بھی ان کے مداح نکلے اور منصوبوں پر نئے سرے سے مشاورت شروع کی گئی۔

انہی ایام میں وزیراعظم عمران خان کی میڈیا ٹیم کی منفرد کھلاڑی محترمہ فردوس عاشق اعوان کو فارغ کر دیا گیا۔ محترمہ جب وزیراعظم کی میڈیا مشیر تھیں تو انہوں نے پی ٹی آئی کی اندرونی سیاست سے اپنے آپ کو دور ہی رکھا اوروزیراعظم کے تمام نظریات کا بھرپور دفاع کیا اور فردِ واحد کی حیثیت میں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کو بھرپور جواب دیا مگر ہماری نوکر شاہی جو سازش کرنے اور کروانے کی ماہر ہے وہ اصل میں ان سے خوف زدہ تھی اور وہ وزیراعظم کو باور کرانے میں کامیاب ہو گئی کہ فردوس عاشق اعوان کو فارغ کیا جائے۔ کاش ان سے استعفیٰ کی بات وزیراعظم خود کرتے۔ مگر نوکر شاہی کے اہم لوگ ان کو فارغ کرنے میں پیش پیش تھے۔ محترمہ عاشق اعوان نے بھی بڑے پن کا ثبوت دیا اور وزیراعظم کے بارے میں کوئی حرفِ شکایت بلند نہ کیا بلکہ سیالکوٹ میں پی ٹی آئی کے جاری منصوبوں میں وزیراعلیٰ پنجاب کا ساتھ دیا اور کوشش کی کہ ان کے حلقہ میں پی ٹی آئی کے لوگوں کو مایوس نہ کیا جائے۔ وہ اب بھی ایک اہم سیاسی ورکر ہیں اور آنے والے دنوں میں ان کا سیاسی کردار اور بھی اہم ہو سکتا ہے۔

اس وقت وزیراعظم پاکستان کی ٹیم میں دو جنرل حضرات بہت اہمیت کے حامل نظر آ رہے ہیں، سابق جنرل عاصم باجوہ بہت سارے معاملات میں وزیراعظم کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔ اس خوفناک وبا میںبھی ہماری افواج حالت جنگ کی سی کیفیت سے گزر رہی ہے۔ سرحد پار افغانی حکومت امریکی دوستوں کو باور کرانے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ اپنا قیام ختم نہ کرے اور اس کی مدد جاری رکھے۔ صدر ٹرمپ اگلے انتخابات کیلئے افغانستان میں اپنا کردار ختم کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت افغانستان کی حکومت میں موثر کردار سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ چین اور امریکی کشیدگی میں افغانستان کے حکمران پریشان ہیں۔ وہاں کے عوام بھی اب جنگ بندی چاہتے ہیں۔ ایسے میں کچھ کردار افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردی کروا رہے ہیں اور ہماری افواج کو اندازہ ہے کہ بھارت ان کے ساتھ ہے اور وہ سرحدی حدود کو پامال کر سکتا ہے۔ یہ ایک خطرناک صورتحال ہے۔ جنرل عاصم باجوہ میڈیا اور خطے کے سیاسی اور عسکری معاملات میں وزیراعظم کی نہایت صائب مشاورت کر سکتے ہیں۔ دوسرے جنرل‘ حاضر سروس جنرل افضل ہیں۔ جنرل محمد افضل بنیادی طور پر انجینئرنگ کور سے ہیں اور اس وقت چیئرمین این ڈی ایم اے ہیں اور وبا کے حوالہ سے بڑا کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ چین کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے ہیں اور تمام ضروری سامان کیلئے وسائل بھی مہیا کر رہے ہیں۔ وہ جناب اسد عمر کو این ڈی ایم اے کے اجلاسوں میں مشاورت بھی مہیا کرتے ہیں۔ وہ بڑی جانفشانی سے وبا کے خلاف لڑتے نظر آ رہے ہیں۔

کچھ حلقوں میں یہ بات کی جا رہی ہے کہ کورونا وبا میں کچھ کمی کے بعد ریاست پاکستان میں نظام کی تبدیلی کا عمل شروع ہو سکتا ہے۔ یہ سب کچھ کیسے ہو گا اس کا اندازہ کرنا اس وقت دشوار ہے۔ وبا کے اس پریشان کن دور میں سیاست کے معاملات اور بھی گمبھیر ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ ایک طرف پوری قوم اور حکومت وبا سے لڑ رہے ہیںاور دوسری طرف ہماری سیاسی اشرافیہ اپنے سیاسی دکھڑے بیان کرتی نظر آ رہی ہے۔ حزب اختلاف سیاسی رقابت میں ملکی مفاد کو بھی نظر انداز کر رہی ہے۔ مسلم لیگ کے اندر ایک علیحدہ کشمکش نظر آ رہی ہے۔ سابق وزیراعلیٰ لندن سے جس امید پر تشریف لائے تھے وہ بارآور نظر نہیں آرہی اور ان کے ہاں مایوسی کا غلبہ نظر آتا ہے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے خود ساختہ پردھان بلاول زرداری سندھ کے معاملات پر مرکز سے ناراض نظر آتے ہیں۔ سندھ میں وبا نے تو عوام کو بدحال کیا ہے مگر سندھ میں بدعملی اور بدانتظامی بھی نمایاں ہے اور مرکز صوبوں کے معاملات میں مداخلت سے محروم ہے۔ اس پر بھی ہماری سیاسی جماعتوں کو رابطہ کی اشد ضرورت ہے۔ ملک میں جو جمہوری نظام رائج ہے وہ ریاست اور سیاست کیلئے مخدوش ہے اور عوام کو بھی مایوس کر رہا ہے۔ وبا کے خاتمہ کے بعد نظام چلتا نظر نہیں آتا۔ اب بھی وقت ہے ورنہ یہ وبا ہمارے سیاسی نظام کا خاتمہ بھی کر سکتی ہے۔