گندم کی اسمگلنگ: نئے بحران کا خدشہ

May 18, 2020

حکومت ہر سال فصل کی کٹائی کے موقع پر ملکی ضروریات کا تعین کرتے ہوئے امدادی نرخوں پر گندم کی سرکاری سطح پر خریداری کا ہدف مقرر کرتی ہے تاکہ عوام کو اس کی قلت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس سال یہ ہدف 82لاکھ ٹن مقرر ہے تاہم ملک کے مختلف علاقوں سے گندم کے اسمگل ہونے کی اطلاعات منظر عام پر آ رہی ہیں۔ اگر اسمگلنگ مافیا اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا تو پانچ ماہ قبل جیسا گندم و آٹے کا بحران دوبارہ سر اٹھا سکتا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ سرکاری اہلکاروں کی پشت پناہی کے بغیر یہ کام نہیں ہو سکتا لہٰذا حکام کو ملوث افراد کو بےنقاب کرنے اور قانون کی گرفت میں لانے میں کسی تذبذب کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ پنجاب کے وزیر خوراک عبدالعلیم خان نے صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے اس عمل میں شریک فلور ملوں کے خلاف سخت کارروائی کا اعلان کیا ہے۔ ان کے مطابق اسمگلنگ میں گھوسٹ ملیں ملوث ہیں جن کے خلاف محکمہ خوراک صوبے بھر میں متحرک ہو چکا ہے۔ جہاں جہاں یہ کیس پکڑے جا رہے ہیں ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔ ادھر پورے صوبے کے فلور مل مالکان نے چھاپوں کے حکومتی فیصلے پر احتجاجاً ملیں بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ محکمہ خوراک کے اہلکار جبری طور پر ان کی ملوں سے گندم اٹھا رہے ہیں جبکہ اوپن مارکیٹ سے گندم خریدنے کی ممانعت ہے۔ اعلیٰ حکومتی سطح پر اس صورتحال کا فوری نوٹس لیا جانا چاہیے۔ سرکاری سطح پر گندم کی خریداری مکمل ہونے سے پہلے ہی آٹے کا بحران شروع ہوگیا تو صورتحال پہلے سے بھی زیادہ گمبھیر ہو سکتی ہے۔ حکومت کو فلور ملوں کے حقیقی نمائندوں کو بلاتاخیر اعتماد میں لے کر ان کے مسائل کو سننا اور ان کا حل نکالنا چاہئے کیونکہ کورونا کی موجودگی میں کسی نئے بحران کا سر اٹھانا عوام کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ کر دے گا۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998