الیکشن میں کامیابی کا راز

April 03, 2013

پاکستان میں انتخابات کی گہما گہمی کا آغاز ہو چکا ہے اور یہ انتخابات پاکستان کی قسمت کو بدلنے والے انتخابات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ امید ہے یہ پاکستان کی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات ہوں گے کیونکہ پاکستان کے عوام اور تمام ہی سیاسی جماعتوں کو الیکشن کمیشن پر مکمل بھروسہ ہے اور اسے سپریم کورٹ اور فوج کی بھی مکمل حمایت حاصل ہے۔ شاید 1970ء کے بعد یہ پہلے الیکشن ہوں گے جن کو منصفانہ بنانے کیلئے حتی الوسع کوششیں کی جا رہی ہیں تاہم کراچی میں آئندہ انتخابات کے حوالے سے بہت سے شکوک و شبہات و تحفظات پائے جاتے ہیں اور بیشترجماعتوں کے تحفظات کی نوعیت ایک خاص قسم کے دھونس اور دباؤ کے حوالے سے یکساں ہے۔ ایک ترک کہاوت ہے کہ دھواں وہاں سے ہی اٹھتا ہے جہاں آگ سلگ رہی ہو اس لئے الیکشن کمیشن کو بھی اس بات کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ یہاں رائے دہندگان کو ہر طرح کے دباؤ یا دھونس سے آزاد ہو کر اپنی منشا اور مرضی سے ووٹ ڈالنے کا موقع فراہم کیا جائے۔
اب ذرا اس پر ایک نگاہ ڈال لی جائے کہ الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں کو کس قسم کی حکمت ِعملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں کسی بھی جماعت کو کامیابی حاصل کرنے کیلئے سب سے پہلے اپنے ووٹروں سے ووٹ ڈلوانے کی ضرورت ہے۔ جب تک کوئی بھی جماعت اپنے ووٹروں کو ووٹ ڈالنے پر قائل نہ کر سکے گی اور ان سے ووٹ نہ ڈلوا سکے گی تو پھر اس جماعت کو کامیابی کی بھی امید نہیں رکھنی چاہئے۔ ہمارے یہاں اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ ووٹ ڈالنے ہی کو نہیں نکلتے اور گھر میں بیٹھے اپنی جماعت کی کامیابی کی دعائیں کر رہے ہوتے ہیں۔ پاکستان دنیا میں کم شرح سے ووٹ کاسٹ کرنے والے ممالک میں سر فہرست ہے اس رجحان کو اس بار تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس جدید دور میں الیکشن مہم کیلئے ہر قسم کی الیکٹرونک، موبائل ٹیلی فون، ڈیجیٹل اور انٹرنیٹ کی سہولتیں موجود ہیں،ان سب سے بھرپور طریقے سے استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ بالمشافہ رابطہ۔ یہ رابطہ دراصل الیکشن اور جماعتوں کیلئے روح کی حیثیت رکھتا ہے۔اس سلسلے میں ترکی کی برسراقتدار جماعت جسٹس اینڈ ڈولپمنٹ پارٹی (آق پارٹی) کی مثال کو آپ کیسامنے پیش کیا جا سکتا ہے جس نے بالمشافہ ملاقاتوں کے طریقے کو ہر بار اپناتے ہوئے عوام سے قریبی رابطہ قائم کئے رکھا اور اسی طریقے سے ہر بار پہلے سے زیادہ کامیابی حاصل کی۔ اس جماعت نے روایتی طریقے سے ہٹ کر بالمشافہ ملاقاتوں کے طریقے کو اپنا کرایسے لوگوں تک بھی رسائی حاصل کی جو اس سے قبل ہمیشہ نظرانداز کئے جاتے رہے ہیں اور یہ لوگ ووٹ ڈالنے میں ذرّہ بھر بھی دلچسپی نہیں لیتے تھے لیکن آق پارٹی عوام کے اس بڑے حصے کی اہمیت سے پوری طرح باخبر تھی اور اس نے خواب خرگوش میں کھوئے ہوئے ان افراد کے ساتھ قریبی رابطہ قائم کرنے کیلئے خصوصی سیل قائم کئے جس نے صرف اور صرف اس قسم کے افراد کے ساتھ قریبی رابطہ قائم کرتے ہوئے ان کے ووٹوں کو ڈلوایا۔ برسراقتدار آق پارٹی کے اعلیٰ عہدیداروں نے کئی کئی بارخود ان افراد کے گھروں پر جا کر انہیں ووٹ کی اہمیت سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے اقتدار کو انہی کی جانب سے تبدیل کئے جانے کے سنہری اصول سے با خبر کیا۔ اس جماعت نے کبھی اپنے کٹر مخالفین سے ووٹ حاصل کرنے کی کوئی کوشش نہ کی اور نہ اپنا وقت ضائع کیا۔ ان کی بھرپور توجہ ایسے ووٹروں کی جانب تھی جوکسی جماعت کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر پائے تھے اور گومگو کی کیفیت میں مبتلا تھے۔ آق پارٹی نے اسی طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی۔ پاکستان میں بھی اگر کسی جماعت نے ان انتخابات میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو اسے بھی سب سے پہلے ایسے ووٹوں کی طرف توجہ دینی ہوگی جو ووٹ ڈالنے ہی نہیں جاتے ہیں۔ اگر کوئی بھی جماعت اس قسم کے لوگوں کو پولنگ اسٹیشن تک لے جانے میں اور ووٹ ڈلوانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو کامیابی اس کے قدم چومے گی۔ اس سلسلے میں جماعتوں کو سب سے پہلے فوری طور پر ووٹروں کو ووٹ ڈلوانے کیلئے قائل کرنے اور پولنگ اسٹیشن تک لے جانے کا بندوبست کرنے کیلئے ایک تربیتی کیمپ قائم کرنے کی ضرورت ہے جو جماعت بھی بڑی تعداد میں ووٹروں کو ووٹ ڈلوانے کے ٹریننگ مراکز قائم کر ے گی اور اپنے اپنے ورکروں کو اس سلسلے میں ٹریننگ دینے میں کامیاب رہے گی، کامیابی اس کے قدم چومے گی۔ اب الیکشن کمیشن سے ایک درخواست کہ وہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو ان پارلیمینٹ میں موجودہ نمائندگی اور کرائے جانیوالے سروے کا جائزہ لینے کے بعد ان کو میڈیا پر اسی لحاظ سے کوریج دینے کی اجازت دے اور ان تمام جماعتوں کے رہنماؤں کو جن کی قومی سطح پر زیادہ پذیرائی نہ ہو اور وہ صرف علاقائی سطح تک ہی محدود ہوں کو زیادہ کوریج نہ دی جائے تاکہ قومی سطح کے رہنماؤں کے ساتھ کسی قسم کی ناانصافی نہ ہو اور اس طرح آئین کی پاسداری کی جاسکے اور ملک میں انتخابات صاف، شفاف اور منصفانہ بنائے جاسکیں۔ آخر میں راولپنڈی کے حلقہ این اے56 کے ووٹروں اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے استدعا ہے کہ وہ چیف جسٹس بحال کرنے کی تحریک کے ہیرو علی احمد کرد جوکہ اس حلقے سے آزاد طور پر حصہ لے رہے ہیں ( میں ذاتی طور پر کبھی ان سے ملا ہوں اور نہ ہی کوئی تعلق رہا ہے) کو مشترکہ طور پر اپنا امیدوار بنا کر اور ان کے بالمقابل کوئی امیدوار کھڑا کئے بغیر اپنے محب وطن پاکستانی ہونے کا ثبوت دیں کیونکہ جس طریقے سے وکلاء کی تحریک کو کرد صاحب نے دیگر وکلاء کے ساتھ مل کر کامیابی سے ہمکنار کیا تھا اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ان کے اس قرضے کو اتار دیا جائے۔ کوئٹہ کے اس محب وطن پاکستانی کی حمایت کر کے پنجاب کے عوام جو پنجابی ہونے سے زیادہ پاکستانی ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں دوسرے صوبے والوں پر یہ ثابت کر دیں کہ پنجاب کیلئے صوبائیت کوئی معنیٰ نہیں رکھتی بلکہ پاکستان اور پاکستانیت کو سب پر برتری اور عظمت حاصل ہے۔ وکلاء تحریک کے اس ہیرو کا راولپنڈی کے عوام پر مکمل بھروسہ ہے اور میرے جیسے راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے افراد اس بے لوث، محب وطن اور جمہوریت پسند انسان کو پاکستان کی نئی پارلیمینٹ میں ضرور دیکھنا چاہیں گے۔