سعودی عرب سے پاکستانیوں کی میتیں وطن بھیجنے کا معاملہ!!

May 24, 2020

بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے خاندان کی خوش حالی اور روزگار کے لیے پردیس میں تگ و دو کرتے ہیں۔کسی ناگزیر وجوہ سے ان کی موت واقع ہو جائے تو ان کی تدفین اپنے وطن میں ہونے کی خواہش ان کے اہل خانہ کی طرف سے زیادہ ہوتی ہے، ورنہ بعض کی خواہش ہوتی ہے کہ ساری کاغذی کارروائی کے بعدمملکت ہی میں تدفین ہو۔ ان دنوں کورونا وائرس کے باعث جہاں بہت سے ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا وہاں سعودی عرب میں مقیم پاکستانی بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔

اس دوران سعودی عرب میں 74 پاکستانی کورونا کے علاوہ دیگر وجوہ کے باعث جاں بحق ہوئے اور فضائی آپریشن معطل ہونے کے باعث میتیں پاکستان بھیجنے میں تاخیر ہوئی۔کورونا وائرس کی صورت حال کے پیش نظر وزارت سمندر پار پاکستانیز نے سعودی عرب میں پاکستانیوں سے رابطے کے لیے ورچوئل اجلاس منعقد کیا تو اس میں بھی اس معاملے پر بات ہوئی۔جس کے بعد گزشتہ دنوں جدہ سے 10 میتیں پاکستان روانہ کی گئیں۔ پانچ میتیں جدہ سے دوسری پرواز سے بھیجی جائیں گی۔

اسی طرح ریاض سے اسلام آباد جانے والی پرواز سے بھی دس میتیں بھیجی گئیں۔ واضح رہے کہ فلائیٹ آپریشن کی معطلی کے دوران سعودی عرب میں 74 پاکستانی وفات پا گئےتھے، موجودہ صورت حال میں میتوں کی پاکستان منتقلی کے طریقہ کار کے حوالے سے کمیونٹی میں کچھ غلط فہمیوں نے بھی جنم لیا۔ اس لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ میت پاکستان منتقلی کے کیا کیا مراحل ہوتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق 'طریقہ کار اور سعودی قانون کے مطابق کسی بھی پاکستانی کے انتقال ہونے کی صورت میں سب سے پہلے مقامی پولیس اسٹیشن کو اطلاع دی جاتی ہے۔اس کے بعد اسپتال سے ڈیتھ اور میڈیکل سرٹیفکیٹ حاصل کرکے پاکستانی سفارت خانے یا قونصل خانے سے پاکستان میت منتقلی یا مملکت ہی میں تدفین کا این او سی لیا جاتا ہے۔ یہ مراحل مکمل کرنے کے بعد سعودی وزارت برائے سول امور سے رابطہ کرکے وہاں تمام کاغذات جمع کروائے جاتے ہیں جو نیا ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہیں۔

متوفی کے ادارے جہاں وہ ملازمت کرتا تھا، وہاں سے ان کے واجبات کی کلئیرنس سرٹیفیکیٹ بھی لازمی حاصل کرنا ہوتی ہے ،جب کہ متعلقہ پولیس اسٹیشن سے ایئرپورٹ پر پاسپورٹ، کسٹم اور کارگو حکام کے نام خطوط بھی حاصل کرنا ہوتے ہیں۔ یہ تمام مراحل مکمل ہونے کے بعد میت کی روانگی کے لیے ایئرلائن کے ساتھ بکنگ کرائی جاتی ہے۔ اس طرح اگر میت پاکستان لےجانے کے لیے خونی رشتہ دار سعودی عرب میں موجود نہ ہو تو پاکستان سے نوٹری پبلک اور دفتر خارجہ سے تصدیق شدہ اتھارٹی لیٹر منگوایا جاتا ہے جس میں لواحقین کسی فرد کو میت سپرد کرنے کی گزارش کرتے ہیں۔

میت لے جانے کے لیے جو اخراجات ہیں وہ کفیل، کمپنی یا لواحقین کو ادا کرنا پڑتے ہیں۔ اس حوالے سے ویلفیئر قونصلر ماجد میمنکا کہنا تھا کہ اگر کسی کارکن کا سعودی عرب میں کوئی والی وارث موجود نہ ہو قونصلیٹ کا ویلفیئرسیکشن میت پاکستان بھیجنے کا انتظام کرتا ہے، اس کا دارومدار حالات پر ہے۔ اگر کسی کارکن کی موت کی وجہ طبی ہو تو پانچ دن یا زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے میں سعودی قانون کےمطابق تمام کارروائی مکمل کرکے میت روانہ کردی جاتی ہے۔

اگر موت کسی اور وجہ سے ہوئی ہو تو اس میں تاخیر ہوتی ہے۔سعودی قانون کے مطابق کارروائی مکمل ہونے کے بعد ہی میت حوالے کی جاتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر میت کے ساتھ کوئی جانے والا نہ ہو تو مرنے والے کے ورثا سفارت خانے یا قونصلیٹ کے ویلفیئیر سکیشن کو اٹارنی بھیج دیں۔ اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن کےذریعے میت پاکستان میں ایئر پورٹ سے وصول کرکے گھر تک پہنچائی جاتی ہے، جب کہ سعودی عرب میں یہ کام ویلفیئر سیکشن انجام دیتاہے۔

تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں موجود رشتے دار او پی ایف کے ذریعے سفارتخانے یا قونصلیٹ کو درخواست اور اٹارنی بھیجیں، انہوں نے کہا کہ زیادہ تر لوگ میت پاکستان لے جانے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں ۔اگر تد فین سعودی عرب میں کی جائے تو این او سی کے اجرا اور تمام کارروائی کے لیے ایک دن درکار ہوتا ہے۔ پی آئی اے کے فضائی آپریشن کی بندش کے دوران یہ افواہیں بھی گردش کرتی رہیں کہ پی آئی اے نے میت کی منتقلی کے اخراجات وصول کرنا شروع کر دیے ہیں ،جو غلط ہے، اس حوالے سے گزشتہ دنوں پی آئی اے کےذمہ دار نے ایک پریس کانفرنس میں واضح اعلان کیا تھا کہ دنیا بھر میں جتنے بھی پاکستانی وفات پاگئے ہیں اور ان کے لواحقین میتیں پاکستان لانا چاہتے ہیں۔

پی آئی اے بلا معاوضہ میتیں پاکستان پہنچائے گی۔ پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان نے بھی میڈیا کو بتایا کہ 'پی آئی اے دنیا بھر سے جہاں جہاں سے آپریٹ کرتی ہے وہاں سے کسی بھی پاکستانی کی وفات کی صورت میں میت منتقل کرنے کے پیسے وصول نہ کرنے کی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس پالیسی میں نہ تو کوئی تبدیلی آئی ہے اور نہ ہی کبھی تعطل آیا ہے۔ جدہ قونصل خانے کے ویلفیئر قونصلر ماجد میمن کے مطابق میت کی پاکستان منتقلی تک کل خرچ لگ بھگ ساڑھے سات ہزار ریال کا ہے، جو پاکستانی کرنسی میں تین لاکھ روپے سے زائد ہے۔ میت پی آئی اے کے بجائے غیر ملکی ائیرلائنز سے بھیجنے کی صورت میں یہ بل بڑھ کر دس ہزار ریال تک پہنچ جاتا ہے۔

قرنطینہ کی سہولت بڑھے گی توپاکستانیوں کو بیرون ملک سے واپس لانا آسان ہوگا، شاہ محمود قریشی

گزشتہ دنوں پاکستانی وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے سعودی عرب میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ ویڈیو لنک کے ذریعے ٹاؤن ہال اجلاس میں سوالات کا جواب دیے۔وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ سعودی عرب میں 30 ہزار سے زیادہ پاکستانی واپسی کے لیے خود کو رجسٹرڈ کراچکے ہیں۔وزیرخارجہ کے مطابق ’فلائٹس کا ایشو نہیں ہے، انہیں بڑھا سکتے ہیں۔ مسئلہ کورونا ٹیسٹنگ اور قرنطینہ کی سہولت کا ہے جو کہ ناکافی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جہازوں میں لوگوں کو لانا آسان ہے لیکن ہمیں کورونا کے حوالے سے ایس او پیز پر عمل کرانا ہے۔ یہ پیچیدہ عمل ہے، اس میں وقت لگتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں جیسے جیسے قرنطینہ اور ٹیسٹنگ کی سہولت بڑھے گی، پاکستانیوں کی وطن واپسی میں بھی اضافہ ہوگا۔وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ابتدا میں ایک ہفتے میں دو ہزار افراد کو واپس لا رہے تھے۔اب ہر ہفتے سات سے ساڑھے 7 ہزار واپس آرہے ہیں۔ پہلے صرف اسلام آباد ایئر پورٹ پر سہولت تھی، اب دیگر ایئر پورٹ بھی کھولے گئے ہیں۔

اس موقعے پر اسپیشل سیکرٹری خارجہ معظم علی خان، وزارت خارجہ کے سینیئر افسران، سعودی عرب میں پاکستانی سفیر راجہ علی اعجاز، قونصل جنرل خالد مجید قونصلیٹ اور سفارتخانے کے افسران اور کمیونٹی کے افراد ویڈیو لنک کے ذریعے شریک تھے۔ ایک اور سوال پر شاہ محمود نے کہا ’سعودی عرب اور دیگر خلیجی ملکوں میں مقیم پاکستانی بے روزگار ہوئے ہیں۔ ان کی تنخواہیں کم ہوئی ہیں، لیکن میں پھر بھی یہی کہوں گا کہ اگر تنخواہیں کم ہوجائیں اور روزگار لگا رہے تو بہتر ہے۔ حالات نارمل ہونے پر تنخواہیں بحال ہوجائیں گی۔

لوگ اگر پریشانی کی وجہ سے واپس آجاتے ہیں تو پاکستان میں بھی آسانی نہیں ہے۔ سعودی عرب جیسا ملک اس وقت مالی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ تیل کی قیمتیں گر رہی ہیں، اس کا اثر پڑے گا۔بیرون ملک سے واپس آنے والوں کے حو الے سے شاہ محمود نے کہا کہ اوورسیز پاکستانی اسکلڈ ہیں وہ خود کو یہاں ایڈجسٹ کرلیں گے۔انہیں کام کرنے کی عادت ہے اور وہ کام کرکے اپنی جگہ بنا سکیں گے۔انہوں نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے امیج کو برقرار رکھیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل منفی وڈیوز سے خود کو دور رکھیں، اس کے نقصانات ہیں۔