خوشگوار سازشیں

April 04, 2013

مئی 2010 میں میری الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد سے بات ہوئی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ اُس وقت کے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی میں سے کم از کم 148افراد ایسے ہیں جن کی ڈگریاں مبینہ طور پر جعلی ہیں۔ یہ خبر جب جنگ اور دی نیوز میں چھپی تو ایک شور برپا ہو گیا کہ اتنی بڑی تعداد میں جعلی ڈگری والے پارلیمنٹ میں کیسے داخل ہو گئے۔ خبر چھپنے کے دوسرے ہی روز میری مسلم لیگ ن کے ایم این اے اور اُس وقت کے چئیرمین قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی برائے تعلیم عابد شیر علی سے بات ہوئی تووہ بھی پارلیمنٹ میں موجود جعل سازوں کی موجودگی پر کافی پریشان نظر آئے۔ اُنہوں نے مجھ سے اس ارادہ کا اظہار کیا کہ وہ پالیمنٹ میں موجود ایسے جعل سازوں کو بے نقاب کرنے اور انہیں ناہل کرانے میں اپنا قومی فریضہ ضرور سر انجام دیں گے۔ عابد شیر علی کی اس خبر کو دی نیوز اور جنگ نے نمایاں کر کے شائع کیا۔ ایک دو روز کے بعد ہی عابد نے بحیثیت چئیرمین پارلیمانی کمیٹی برائے تعلیم ایک خط ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چئیرمین جاوید لغاری کو لکھا جس میں کمیشن کو یہ کہا گیا کہ وہ تمام کے تمام سینیٹرزاور ممبران قومی و صوبائی اسمبلیوں کی ڈگریوں کی تصدیق کریں تا کہ جعلی ڈگری والوں کو پکڑا جا سکے۔ اس خط کی کاپی الیکشن کمیشن کو بھی بھیجی گئی اور اُس سے بھی یہ استدعا کی گئی اس معاملہ میں اپنا کردار ادا کرے۔ ممبران پارلیمنٹ کی ڈگریوں کی تصدیق کا سلسلہ چلا تو عابد شیر علی اور جاوید لغاری کے لیے دھمکیوں اوردباؤ کا سلسلہ شروع ہو گیامگر ان دونوں حضرات نے کسی بھی دباؤ میں آئے بغیر اپنا کام جاری رکھا۔ سیاستدان اور حکمران عابد شیر علی کا توکچھ نہیں بگاڑ سکے مگر جاوید لغاری کو پیپلز پارٹی (جس جماعت سے اُن کا اپنا تعلق تھا) اور حکومت کی طرف سے ہراساں کرنے کے تمام حربے استعمال کیے گئے۔ ایک موقع پرجاوید لغاری کو ان کے باس نے طلب کر کے خوب ڈانٹ ڈپٹ کی اور یہ تک کہا کہ لغاری دراصل حکومت کو گرانا چاہتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود لغاری نے اپنا کام بے خوفی سے جاری رکھا۔ جواب میں ان کے چھوٹے بھائی جو سندھ حکومت کے ملازم ہیں،کو حیدر آباد سے اغوا کیا گیا اور بعدازاں ان کے خلاف کرپشن کے مقدمات بنا کر پولیس تھانہ میں بند کر دیا۔ عدالت ایک مقدمہ سے چھوڑتی تو انہیں دوسرے مقدمہ میں پکڑ لیا جاتا۔ جب لغاری کو جھکایا نہ جا سکا تو سندھ یونیورسٹی اور صوبے کے کچھ دوسرے تعلیمی اداروں کو دباؤ ڈال کر درجنوں مشکوک ڈگری والوں کی اسناد کو اصلی قرار دلوایا گیا ۔ سندھ کی ایک اہم خاتون ایم این اور پی پی کے اہم رہنما کی رشتے دارکی ڈگری کے بارے میں بھی سوال اٹھائے گئے مگر متعلقہ تعلیمی ادارے نے سب اچھا کی رپورٹ دی۔ان کے مطابق انہوں نے 2002 کے بعد اُس وقت بی اے کیا جب وہ اپنے علاقہ میں اہم سرکاری عہدے پر فائز تھیں۔ اس سوال کا جواب ملنا باقی ہے کہ کیا کسی شخص نے انہیں کمرہ امتحان میں دیکھا؟ کچھ دوسرے تعلیمی اداروں کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی نے بھی مشکوک انداز میں با اثر افراد کو نوازا اور ان نوازے گئے افراد میں اُس وقت کے وزیر اعظم کے برخوردار عبدالقادر گیلانی بھی شامل ہیں۔ ابتدا میں پنجاب یونیورسٹی کی مینجمنٹ نے اصولی موقف اختیار کرنے کا فیصلہ کیا مگر بعدازاں اس ادارے کے وائس چانسلر کی گیلانی کے ساتھ لاہور میں ایک ملاقات نے عبدالقادر گیلانی کو دودھ سے نہلا دیا اور وہ یونیورسٹی جس کی انکوائری نے یہ ثابت کیا کہ نہ صرف گیلانی نے بی اے امتحان میں گڑبڑ کی بلکہ اُس کا اے لیول کامعاملہ بھی مشکوک ہے، ایک ملاقات نے سب کچھ چھوٹے گیلانی کے حق میں بدل دیا۔2010 میں ہی سپریم کورٹ نے جعلی ڈگری کے معاملہ کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے الیکشن کمیشن اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو ہدایات دیں کہ تمام پارلیمنٹیرینز کی ڈگریوں کی تصدیق کے کام کو مکمل کیا جائے اور جعلی ڈگری والوں کے خلاف مقدمات قائم کیے جائیں۔ گزشتہ دو سال الیکشن کمیشن اس معاملہ میں کافی حد تک سست پڑگیا جب کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا گلا گھونٹنے کی بار ہا کوششیں کی گئیں تا کہ تمام جعلی ڈگری والوں کو پکڑا نہ جا سکے۔ گزشتہ دو تین ماہ سے میڈیا اور خصوصاً جنگ گروپ نے اس معاملہ کو دوبارہ اُٹھایا تو ایک شور مچ گیا۔ سیاستدانوں اور میڈیا میں موجود ایک مخصوص طبقہ نے جعلی ڈگری کی تصدیق کے مسئلہ اور ایسے جعل سازوں کو سزا دینے کو اسٹیبلیشمنٹ کی سازش سے تعبیر کیا۔ اوپر تفصیل سے سارا معاملہ بیان کرنے کا میرا مقصد یہ تھا کہ قارئین کو بتایا جائے کہ کن عوامل اور کس نام نہاد سازش کے نتیجے میں یہ معاملہ اپنی موجودہ صورتحال کو پہنچا۔ کاش ہمارے ملک میں ایسی سازشیں ہوں جو معاشرہ میں پھیلے گند کو صاف کرنے میں مدد دیں۔ کاش ہمارے ہاں ایسی سازشیں ہوں کہ کرپٹ سیاستدانوں، حکمرانوں، جرنیلوں، ججوں، سرکاری افسروں اور صحافیوں کو بے نقاب کیا جا سکے۔ کاش ہم یہ بھی سازش اپنے ملک میں ہوتی دیکھیں کہ مشرف جیسے ڈکٹیٹر کو نہ صرف انتخابات سے باہر کیا جائے بلکہ اُس کا کڑے سے کڑا احتساب بھی ہو۔ کاش دی نیوز اور جنگ کی یہ سازش بھی کامیاب ہو کہ ٹیکس چوروں کو حق حکمرانی کے ساتھ ساتھ اس حق سے بھی محروم کیا جائے کہ وہ پارلیمنٹ کے ممبرز بن سکیں۔ کاش ہماری عدلیہ اعلیٰ سے اعلیٰ حکمرانوں کو کرپشن اور نا اہل حکمرانی کرنے والوں کو بلا خوف و امتیاز عدالت کے کٹہرے میں کھڑی کرنے کی سازش کرتی رہے۔