طیارہ حادثہ: یہ انکوائری رپورٹ بھی تالوں میں بند کردی جائے گی؟

June 07, 2020

جمعہ 22مئی، وقت تقریباً 3:50، ماڈل کالونی کراچی کا محلّہ، جناح گارڈن۔’’ جہاز نیچے آرہا ہے، جہاز نیچے آرہا ہے، اس میں سے دھواں نکل رہا ہے‘‘، گلی میں کھڑے لوگوں نے شور مچانا شروع کردیا۔ بھگدڑ مچ گئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے طیارہ ایک زور دار دھماکے سے آبادی پر جا گرا۔ ایک عینی شاہد نے بتایا’’ جب طیارہ گر رہا تھا، تو اُس میں آگ اور دھواں دِکھائی دے رہا تھا۔‘‘ ایک اور عینی شاہد نے بتایا’’ گرنے کے بعد ہر طرف آگ اور دھواں تھا اور ٹوٹے مکانات کا ملبہ۔اہلِ محلّہ مدد کے لیے دوڑے، لیکن آگ کی شدّت اور تپش اتنی زیادہ تھی کہ کوشش کے باوجود کوئی قریب نہیں جا پارہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں پولیس، رینجرز اور رضا کاروں کی امدادی ٹیمز پہنچ گئیں۔‘‘ اُدھر پاکستان کی قومی ائیر لائن کی طرف سے بیان آگیا کہ’’ لاہور سے کراچی آنے والی فلائٹ 8303 حادثے کا شکار ہوگئی۔‘‘ یہ پی آئی اے کا مسافر طیارہ ائیربس 320 تھا، جس نے لاہور سے سوا بجے ٹیک آف کیا۔سِول ایوی ایشن کے نمایندے کے مطابق حادثہ، لینڈنگ سے قبل ہوا۔ طیارے میں سوار عملے سمیت 99 افراد میں سے97 موقعے ہی پر جاں بحق ہوگئے، جب کہ دو مسافر معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔اُن میں سے ایک مسافر زبیر نے میڈیا کو طیارے کے اندر کے آخری لمحات سے متعلق تفصیلات بتائیں کہ کیسے اُترتے ہوئے جھٹکوں کے بعد جہاز کریش ہوا۔

دوسرے بچ جانے والے مسافر، ظفر مسعود ہیں، جو پنجاب بینک کے صدر اور معروف اداکار، منور سعید کے صاحب زادے ہیں۔اُن کی سیٹ جہاز سے نکل کر باہر جاگری تھی۔ملیر چھاؤنی سے متصل، ماڈل کالونی ایک گنجان آبادی ہے، جو ائیر پورٹ سے تقریباً جُڑی ہوئی ہے۔عام طور پر فضائی راستے سے کراچی کی حدود میں داخل ہوں، تو لینڈنگ کے آخری لمحات میں ماڈل کالونی کے مکانات بالکل صاف دِکھائی دیتے ہیں۔نیچے چلتا ٹریفک اور لوگوں کا چلنا پِھرنا سب نظر آتا ہے۔ابھی آپ یہ سب دیکھ ہی رہے ہوتے ہیں کہ طیارے میں اعلان ہو جاتا ہے’’ ہم لینڈ کرنے والے ہیں، زمین پر درجۂ حرارت اتنے سینٹی گریڈ ہے۔‘‘ جہاز کو جھٹکے لگتے ہیں، جو اِس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ پہیّے رن وے سے ٹچ کرچُکے ہیں۔ رفتار دھیرے دھیرے کم ہونے لگتی ہے۔لیکن بدقسمت فلائٹ 8303 میں ایسا نہ ہوسکا ۔یہ ایک بار لینڈنگ پوزیشن میں آنے کے باوجود کراچی ائیر پورٹ پر لینڈ کرنے کی بجائے ماڈل کالونی کے مکانا ت پر جاگری اور حتمی اطلاعات کے مطابق اس کے گرنے سے22 کے لگ بھگ مکانات مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوگئے۔

معلوم نہیں یہ ہمارا مقدّر ہے یا پھر کوئی روایت کہ ہمارے یہاں عموماً حادثاث یا سانحات معیاری تحقیقات کی بجائے ایک طویل اور لایعنی بحث مباحثے اور تنازعے کا حصّہ بن جاتے ہیں۔ فلائٹ8303 جیسا سانحہ بھی اسی قسم کے مسائل سے دوچار ہے۔ پی آئی اے کی طرف سے بار بار اپیل کی جارہی ہے کہ قیاس آرائیوں کے بجائے انکوئری رپورٹ کا انتظار کرلیا جائے۔پی آئی اے کے سربراہ نے یقین دِلایا ہے کہ تفتیش بین الاقوامی معیار کے مطابق ہوگی، لیکن جو معاملہ اس حادثے کا ایک اہم نقطہ بن گیا ہے، وہ آخری لمحات کی گفتگو ہے، جو پائلٹ سجاد گل اور ائیر ٹریفک کنٹرولر کے درمیان ہوئی۔فلائٹ ریڈار نے اس طیارے سے متعلق ڈیٹا بھی جاری کیا ہے۔سب سے پہلے تو یہ دیکھنا چاہیے کہ یہ سانحہ ہوا کیسے؟ اب تک جو ابتدائی سرکاری رپورٹس اور بیانات سامنے آئے ہیں، وہ کیا کہانی پیش کرتے ہیں؟جاری کردہ نئے ڈیٹا کے مطابق، طیارہ سطحِ سمندر سے کم از کم 21 فٹ کی اوسط بلندی تک آیا۔ فلائٹ گراف میں لاہور سے کراچی تک تسلسل ہے۔

تاہم، کراچی کے اوپر پہنچنے کے بعد اس کی لینڈنگ بہت ہی عمومی ہے اور بے ربط بھی اور یہی ساری تحقیق کا محور ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔اسی ڈیٹا کے مطابق، کراچی پہنچنے پر طیارے کی بلندی دس ہزار فِٹ تھی، جب کہ ماہرین کے مطابق لینڈنگ کی بلندی دو ہزار فِٹ ہونی چاہیے۔طیارہ اچانک بہت تیزی سے اس بلندی سے نیچے آتا ہے، جو عام حالات میں نہیں ہوتا۔ائیر بس320 کو اُڑانے والے پائیلٹس کے مطابق اس سے پائلٹ شدید دبائو میں آجاتا ہے اور ممکنہ طور پر فیصلے کرنے کے آپشنز متاثر ہوتے ہیں۔ کیا ایسی صُورت میں ائیر ٹریفک کنٹرولر کو فوری لینڈ کرنے کی اجازت دینی چاہیے؟ایوی ایشن سیفٹی نیٹ ورک پر جاری کی گئی پائلٹ اور ائیر ٹریفک کنٹرولر کی گفتگو اس جملے سے شروع ہوتی ہے، جس میں بدقسمت طیارے کا پائلٹ کہتا ہے کہ’’ ہم آرام سے کر لیں گے، انشا اللہ۔‘‘ماہرین کے مطابق، امکان ہے کہ یہ جواب اُس وقت دیا گیا، جب اے ٹی سی نے پائلٹ کو اونچائی کے متعلق بتایا۔چند منٹ بعد پائلٹ، ٹریفک کنٹرولر سے کہتے ہیں’’ہم اب لینڈنگ پروفائل پر آرام سے ہیں۔3500 سے 3000 اور پچیس لیفٹ پر رَن وے پر آئی ایل ایس پر اسٹیبلش کریں گے۔‘‘ آواز سے پائلٹ پُراعتماد لگتے ہیں۔ ماہرین اس گفتگو کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ پائلٹ اپروچ پر آرہا ہے، یعنی اس فضائی راستے پر جس پر لینڈنگ ہوگی۔اس کا یہ مطلب ہے کہ تیکنیکی طور پر طیارے میں پائلٹ نے وہ تمام ضروری اقدامات کر لیے ہیں، جس سے لینڈنگ ہوتی ہے۔ہوا بازی کی زبان میں’’ طیارہ انسٹرومینٹ لینڈنگ‘‘ پر سیٹ ہوچُکا ہے۔

پائلٹ کی اس بات پر ائیر ٹریفک کنٹرولر کہتا ہے’’ بائیں180 کے زاویے پر مُڑیں۔‘‘ جواباً پائلٹ کہتے ہیں کہ وہ پُرسکون ہیں اور لینڈنگ سسٹم پر اسٹیبلش ہوچُکے ہیں، لیکن ائیر ٹریفک کنٹرولر کہتا ہے’’ سر! آپ ٹچ ڈائون سے پانچ میل کے فاصلے پر ہیں اور ابھی تک 3500 کی بلندی پر ہیں۔‘‘ اے ٹی سی ریڈار کی مدد لیتا ہے، طیارے کو دیکھتا ہے اور پھر ہدایت دیتا ہے کہ’’بلندی زیادہ ہے، بائیں طرف مُڑ کر ایک اور چکر لگائیں اور مطلوبہ بلندی پر طیارے کو لاکر لینڈ کر جائیں۔‘‘اس پر پائلٹ’’ روجر‘‘ کہتا ہے، جس پر ائیر ٹریفک کنٹرولر نے اُسے لینڈ کرنے کی اجازت دے دی ۔اس کے بعد طیارے کی آڈیو میں سائرن کی آواز سُنائی دیتی ہے۔پائلٹ کہتے ہیں’’ ہم دوبارہ چکر لگا کر لینڈ کرنا چاہتے ہیں۔‘‘پھر اُس کے بعد دو منٹ میں بہت کچھ ہوا۔ طیارہ رن وے پر 21 فِٹ کی بلندی تک آیا۔اسی دوران طیارے نے رَن وے پر رگڑ کھائی۔اب جو اہم سوالات سامنے آئے، وہ یہ ہیں کہ ایسا کیوں ہوا؟

لینڈنگ گیئر کُھلے یا نہیں؟ اگر نہیں، تو ائیر ٹریفک کنٹرولر کو اس کا پتا چلا یا نہیں؟ کیوں کہ اسے لینڈنگ کا عمل دُوربین سے مانیٹر کرنا چاہیے۔ اور اگر پتا چلا، تو اُس نے کیا ردّ عمل دیا؟حکومتی انکوائری کمیٹی نے پہلے دن رن وے کا دورہ کرکے شواہد دیکھے۔ اس کمیٹی کے مطابق، رن وے کی جو تصاویر لی گئیں، اُن میں رگڑ، ایندھن کے گرنے،دھات کے ٹکرانے کے واضح نشانات نظر آئے۔بدقسمت طیارے کے انجن اور اس کی حالت کے بارے میں بہت کچھ کہا جارہا ہے، لیکن ایک بات طے شدہ ہے کہ رن وے پر رگڑ کھانے کے بعد بھی پائلٹ نے طیارہ ایک بار پھر فضا میں بلند کیا اور اسے تین ہزار فِٹ کی بلندی تک لے گئے۔ماہرین کے مطابق، یہ کسی معمّے سے کم نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ رگڑ کے باوجود طیارہ مکمل طور پر پائلٹ کے کنٹرول میں تھا اور اس کی حالت بھی تسلّی بخش تھی۔

یہی بات حادثے میں بچنے والے مسافر، زبیر نے بتائی۔زبیر کا کہنا تھا کہ لاہور سے ٹیک آف کے بعد کراچی تک فلائٹ بالکل نارمل تھی۔کراچی کی فضا میں پہنچنے کے کچھ دیر بعد طیارے سے لینڈنگ کا اعلان ہوا، طیارہ نیچے آیا، رَن وے پر جھٹکے کھائے اور چند ہی لمحات میں پائلٹ نے بڑی مہارت سے جہاز کو پھر فضا میں بلند کر لیا۔ پھر کچھ دیر تک طیارہ فضا میں چکر لگاتا رہا۔ اُس نے نیچے کچھ غیر آباد علاقہ دیکھنے کی بھی بات کی، جو شاید جہاز کی لینڈنگ کے لیے تلاش کیا جا رہا تھا۔ زبیر نے بتایا کہ طیارے میں لوگ بہت گھبرائے ہوئے تھے اور دُعائیں مانگ رہے تھے۔ طیارے میں ایک بار پھر لینڈنگ کا اعلان ہوا، لیکن کچھ ہی دیر بعد زوردار دھماکا ہوگیا اور جہاز کریش کرگیا۔جو سوالات تیکنیکی طور پر پریشان کرتے ہیں، وہ لینڈنگ گئیر سے متعلق ہیں کہ آخر ایسی صُورت میں پہیّے کیوں نہیں کُھلے؟

بلیک باکس انہی سوالات کا جواب دے گا کہ پائلٹ نے لینڈنگ میں کیوں کام یابی حاصل نہیں کی؟ پائلٹس کے مطابق، ائیر بس 320 میں ایک سے زیادہ سینسر لگے ہوتے ہیں۔ اگر ایک جواب بھی دے جائے، تو دوسرے الارم جاری کردیتے ہیں۔ طیارے کو رَن وے سے دوبارہ اُٹھانے پر پائلٹس اور ماہرین کی مختلف آرا سامنے آرہی ہیں۔ ایک رائے کے مطابق، رن وے ٹچ کرنے کے بعد پائلٹ کو دوبارہ پرواز نہیں کرنا چاہیے تھا۔ وہ انجن بند کر کے رن وے پر طیارے کو گھسٹنے دیتے۔جو تباہی ہوتی، اس کا سامنا کرتے، کیوں کہ رن وے اور ائیرپورٹ پر ایمرجینسی سے نمٹنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ جاری کردہ ڈیٹا کے مطابق دوبارہ فضا میں بلند ہونے کے بعد بالکل آخر میں پائلٹ نے ائیر ٹریفک کنٹرلر کو بتایا کہ انجن بند ہوگئے ہیں۔

اس پر ائیر ٹریفک کنٹرولر نے سوال کیا کہ’’ کیا بیلی لینڈنگ کریں گے ؟‘‘مگر …پائلٹ کا جواب موجود نہیں۔ ڈیٹا کہتا ہے کہ اسی دوران پائلٹ نے دونوں لینڈنگ گئیر کھول دیے۔دوسرے الفاظ میں لینڈنگ گئیر ٹھیک تھے۔ماہرین کے مطابق، لینڈنگ گئیر کھلنے سے ڈریگ میں اضافہ ہوگیا۔ڈریگ کو فضائی رگڑ کہا جاسکتا ہے، جو طیارے کو فضا میں ہم وار رکھتی ہے، لیکن لینڈنگ گئیر کُھلنے کے بعد ڈریگ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔طیارے کا وزن بڑھ جاتا ہے اور وہ نیچے آنے لگتا ہے۔ قیاس کیا جارہا ہے کہ اس بار بھی ایسا ہی ہوا، لیکن یہ سب ابھی تک ابتدائی معلومات ہی ہیں۔ بلیک باکس اصل حقائق سامنے لائے گا۔ائیر بس طیارے کے ماہرین کی ٹیم تحقیقات کے لیے فرانس سے کراچی آئی اور بلیک باکس اپنی تحویل میں لے لیا۔اس کے ساتھ ہی رَن وے اور حادثے کی جگہ کا تفصیلی جائزہ بھی لیا۔

نیز، ٹیم نے تحقیقاتی کمیٹی پر اطمینان کا اظہار بھی کیا۔ اس ضمن میں’’ پالپا‘‘ کا موقف بھی سامنے آیا۔ انکوائری کمیٹی پر تحفّظات کا اظہار بھی کیا گیا اور پائلٹ کے والد کے بیانات بھی میڈیا میں آئے۔یقیناً جن کے پیاروں نے حادثے میں جانیں گنوائی ہیں، اُن کے دکھ کا کوئی مداوا نہیں۔البتہ شفّاف انکوائری سے اُن کے درد کو کسی حد تک کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔نیز، اس طرح کی قابل بھروسا تحقیقات قومی ائیر لائن کی ساکھ بھی بحال کرسکتی ہے۔

حادثے کا دوسرا اور انتہائی درد ناک، بلکہ اذیّت ناک پہلو وہ انسانی المیہ ہے، جس میں متاثرین اپنے پیاروں کی لاشوں کی تلاش میں تادمِ تحریر مارے مارے پِھر رہے ہیں۔ غم زَدہ خاندانوں کی دِل ہلادینے والی ویڈیوز اور انٹرویوز کسی سخت سے سخت دل کو بھی خون کے آنسو رُلا دینے کے لیے کافی ہیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ ایسے خوف ناک فضائی حادثے کے بعد میّتوں کی تلاش، شناخت اور لاشوں کو لواحقین کے حوالے کرنے کا ایک طریقۂ کار ہے۔لیکن یہ ایس او پیز ان لوگوں کے دِلوں کے دور تو کم نہیں کرسکتے، جن کے والدین، بہن بھائی یا بچّے حادثے کی نذر ہوگئے۔افسوس کہ ایسے وقت میں حکومتیں نظر آتی ہیں، نہ ہی لیڈرشپ اور ادارے بھی مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیتے۔اعلیٰ ترین سطح پر تعزیتی بیانات کافی سمجھے جاتے ہیں یا ایک دو نمائشی سے دورے۔کسی نے تنقید کردی، تو وزیر سے لے کر گورنر تک دِل جوئی کو پہنچ گئے۔ صاحبِ غم نے بیان دے دیا’’ مَیں انکوائری سے مطمئن ہوں، تو بس کام ہوگیا۔‘‘اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ عمران خان کی حکومت لوگوں کے غم میں شریک ہونے میں آگے آگے رہے گی اور مثال قائم کرے گی، لیکن چاہے سانحۂ ساہیوال ہو، کورونا کا معاملہ ہو یا طیارہ حادثہ، یوں لگتا ہے کہ جیسے ہی کوئی چیلنج سامنے آتا ہے، تو وزیروں اور منتخب نمائندوں کی وہ پوری فوج غائب ہوجاتی ہے، جو ہر وقت مخالفین کو جارحانہ جوابات دینے کے لیے تیار رہتی ہے۔تاہم، اُن کا جارحانہ انداز کسی بھی قدرتی آفت یا حادثے کے وقت صرف دو باتوں پر مرکوز رہتا ہے۔ماضی کی حکومتوں کی تباہ کاریاں، جو ہر برائی کی ہمیشہ ذمّے دار رہے گی، کم ازکم اس حکومت کے آخری دن تک۔دوسرے’’ کمیٹی اور انکوائری بِٹھا دی گئی ہے‘‘، جیسے اعلانات۔ حالاں کہ ماضی میں عمران خان ایسی کمیٹیز پر شدید تنقید کیا کرتے تھے اور سب کچھ فوری عوام کے سامنے لانے کا مطالبہ کرتے۔ عموماً کہا جاتا ہے کہ وزیرِ اعظم اور وزرا کی دیانت داری، نیّت اور شرافت پر شک نہیں کیا جاسکتا، اس لیے سب کچھ خاموشی سے سہہ لیا جائے۔

بے شک دیانت داری بہترین وصف ہے، لیکن اس کا گڈ گورنینس اور انتظامی صلاحیتوں کے فقدان سے کیا لینا دینا۔ کیا یہ ان کا نعم البدل ہے؟ ایسے ہنگامی حالات تو غیرمعمولی اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں۔ہم دردی، محبّت، عوامی نمایندوں اور حکّام کی ہروقت موجودی، لوگوں کی مشکلات دُور کرنا ہی اصل کام ہے، لیکن شاید وہ یہ سب کام صرف ٹاک شوز ہی میں نمٹانے پر یقین رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں، ماڈل کالونی کے تباہ حال مکین تو کسی کو یاد تک نہ رہے۔ایک مکان گر جائے، تو لاکھوں کی امداد کا اعلان ہوجاتا ہے، یہاں پورا محلّہ زمیں بوس ہوگیا۔ عظیم قوم و مُلک، نئے پاکستان کے دعوے دار کم ازکم کوئی ایسا نظام تو وضع کردیں، جو ایسے سانحات اور حادثات میں غم زدہ دِلوں پر مرہم رکھ سکے، اُنہیں اعتماد تو دے کہ وہ اپنوں میں ہیں۔

پی آئی اے کا گزشتہ برسوں کا ریکاڑد کسی سے ڈھکا چُھپا نہیں۔ کمرشل ائیر لائن ہونے کے باوجود گزشہ دس سال سے مسلسل خسارے میں جارہی ہے۔ اس کا قرضہ ساڑھے چار سو ارب روپے کے قریب پہنچ چُکا ہے۔پی آئی اے میں تقریباً 15000 ملازمین ہیں اور اس کی ایمپلائی ٹو ائیر کرافٹ شرح 480 ہے، جب کہ دنیا میں عموماً یہ شرح 150.200 ہے۔ اب یہ ادارہ حکومت اور آئی ایم ایف کے پرائیویٹائزیشن پروگرام میں سرِ فہرست ہے۔اس کے طیاروں کی حالت، اوقات کار کی پابندی، کُرو کی تعلیم و تربیت (بتایا جاتا ہے کہ ملازمین کی جعلی اسناد کی حقیقت سامنے لانے کی ہر کوشش اعلیٰ ترین سطح پر ناکام بنادی جاتی ہے )، بھرتیوں میں کوٹا سسٹم، سفارش اور رشوت کے الزمات اتنے عام ہیں کہ انھیں تقرّری میں معمول کا حصّہ سمجھ لیا گیا ہے۔کہاں وہ زمانہ تھا، جب پی آئی کا شمار دنیا کی بہترین ائیر لائنز میں ہوتا تھا، کہاں اب وہ دَور کہ اس کے طیاروں میں ہم وطن بیٹھتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا کہ ہم وطنوں سے ہم دردی تو دُور کی بات، پروفیشنل ازم نام کی چیز بھی پی آئی اے میں مفقود ہوچُکی ہے۔ ادارے میں ملازمین کا موٹیویشن لیول منفی ہے۔

وہ صرف تن خواہ کی حد تک کام کرتے ہیں، حالاں کہ اس قسم کے پبلک ڈیلنگ ادارے دنیا بھر میں عوامی خدمت کے اصول پر چلتے ہیں۔ مسافروں کی سیفٹی کو تو شاید ہی کوئی سنجیدگی سے لیتا ہو۔خود ہمارے سربراہانِ حکومت دوسری ائیر لائنز کے طیاروں سے بیرونِ ملک سفر کرتے ہیں۔مناسب ہوگا کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی دس سالہ رپورٹ دیکھ لی جائے، جو اُنہوں نے سپریم کورٹ میں پیش کی تھی، جس میں تفصیل سے قومی ائیر لائنز کی صُورتِ حال کو زیرِ بحث لایا گیا اور نیشنل ایوی ایشن پالیسی پر نظرِ ثانی کی سفارش کی گئی۔

ویسے تو یہ ہماری قومی روایت بن چُکی ہے کہ کسی بھی حادثے کے بعد ذمّے داری کے معاملے میں فوراً سازشوں یا تنازعات کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔سیکڑوں بے گناہ جانیں ضائع ہوجاتی ہیں اور کوئی وزیر مستعفی ہوتا ہے اور نہ ادارے کا سربراہ۔ زیادہ سے زیادہ نچلی سطح کا کوئی ملازم معطّل کردیا جاتا ہے۔بس حکم ملتا ہے کہ انکوائری کا انتظار کریں، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔اور پھر گزرتے وقت کی دھول میں سب چُھپ جاتا ہے۔یہ دودھ اور پانی بھی کب سامنے آئے گا، کچھ پتا نہیں کہ ابھی تک تو حویلیاں طیارہ حادثے کی رپورٹ کا بھی انتظار ہو رہا ہے، جس میں 47مسافر شہید ہوئے تھے۔ قومی ائیر لائن کے جیسے حالات ہیں، ان کے تناظر میں کوئی اُمید کرسکتا ہے کہ تین ماہ بعد فلائٹ 8303 کی انکوائری رپورٹ منظرِ عام پر آجائے گی؟ بیش تر افراد کا خیال ہے کہ یہ ایک اور کلاسیفائیڈ ڈاکیومنٹ بن جائے گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا لوگ بھول پائیں گے کہ حادثے کے نتیجے میں ایک سو کے قریب افراد جاں بحق ہوئے، خاص طور پر جن کے پیارے عین عیدالفطر سے ایک دن پہلے اُن سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے۔