بزدار حکومت اور چند حقائق

May 31, 2020

جب سے پنجاب کی زمامِ کار سردار عثمان بزدار کے ہاتھ میں آئی ہے ناقدین کو بےوجہ تنقید کا بہانہ مل گیا ہے، اگرچہ مثبت تنقید جمہوریت کا خاصا ہوتی ہے مگر یہاں معاملہ یہ ہے کہ جھوٹی خبروں اور جعلی اسکینڈلوں کے ذریعے ہمہ وقت یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جیسے پنجاب حکومت کی کارکردگی نہایت خراب اور عوام پنجاب حکومت سے بیزار ہیں، حالانکہ یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ پنجاب نے عوام کو ریلیف دینے اور انہیں سہولت بہم پہنچانے کے لیے جتنی بار اپنی ٹیم میں تبدیلی کی، کوئی بھی دوسرا صوبہ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اس وقت وطن عزیز سمیت دنیا بھر کو کورونا کی عالمی وبا کا سامنا ہے، اگر اسی تناظر میں صوبوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو پنجاب حکومت سب سے منفرد نظر آئے گی کیونکہ جنوری 2020میں ابھی جبکہ کورونا کے اثرات چین سے باہر نمودار بھی نہ ہوئے تھے، اس وقت پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار نے اس معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے پنجاب کی بیورو کریسی اور کابینہ کے سینئر ممبران کو اعتماد میں لینا شروع کیا۔ بعد ازاں 14جنوری کو وزیراعلیٰ پنجاب نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے پنجاب کابینہ کی ایک کمیٹی تشکیل دی۔ اس کمیٹی کا بنیادی مقصد روزانہ کی بنیاد پر کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے اور پنجاب میں اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے حوالے سے میٹنگ کرنا اور انتظامی، مالی اور تکنیکی بنیادوں پر بروقت فیصلے کرنا تھا۔ اس کمیٹی کی سربراہی خود وزیرِاعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کر رہے ہیں۔ اسی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں فروری کے شروع میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ اور پنجاب کے عوام کو اس وبا سے بچانے کے لیے 236ملین کے فوری فنڈز جاری کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس فنڈ سے پنجاب کے مختلف اضلاع کے سرکاری اسپتالوں میں آئسولیشن وارڈز، ہائی ڈیپنڈنسی یونٹس اور قرنطینہ سنٹرز کا قیام عمل میںلایا گیا، نیز ٹیسٹنگ کِٹس، ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کے لیے حفاظتی لباس، ماسک اور دیگر فوری طبی آلات و اشیاء کی خریداری کی گئی۔ ایران سے آئے زائرین میں جب پہلا کورونا وائرس کا مریض رپورٹ ہوا تو وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے فوری طور پر ڈیرہ غازی خان میں جہاں ایک طرف قرنطینہ سنٹر بنانے کا حکم دیا، وہیں دوسری جانب صوبہ بھر کے 36اضلاع کے سرکاری اسپتالوں میں 41سے زائد آئسولیشن وارڈز اور ہائی ڈیپنڈنسی یونٹس کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ فروری کے مہینے میں ہی پنجاب کے تین بڑے اسپتالوں ضلع مظفر گڑھ کے طیب اردگان اسپتال، لاہور کے پنجاب کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ، یورالوجی اسپتال راولپنڈی کو کورونا وائرس کے علاج کے لیے مختص کر دیا گیا۔ علاوہ ازیں وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر ہی صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (PDMA) کے ایک ارب روپے سے قائم کیے جانے والے ہنگامی فنڈ کو اب آٹھ ارب تک بڑھایا گیا ۔ اس وبائی دور میں وزیراعلیٰ پنجاب کی صلاحیتیں کھل کر عوام کے سامنے آئیں اور سیاست سے بالاتر ہوکر مشکل کی اس گھڑی میں جس طرح عوامی فلاح کی ذمہ داریاں نبھائی گئی ہیں اس پر یقیناً وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار اور ان کی ٹیم لائقِ تحسین ہیں۔

اسی طرح حالیہ دنوں میں پنجاب حکومت کا دوسرا بڑا مثبت کردار شوگر اسکینڈل میں سامنے آیا ہے۔ کچھ طبقات رپورٹ پڑھے بغیر تنقید کے نشتر چلا رہے ہیں حالانکہ اس کمیشن رپورٹ میں گزشتہ پانچ برسوں کی ایکسپورٹ سبسڈی کو اسٹڈی کیا گیا ہے۔ کمیشن میں وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعلیٰ سندھ کو بلایا گیا لیکن وزیراعلیٰ سندھ کے برعکس نہ صرف پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کمیشن کے سامنے پیش ہوئے بلکہ کمیشن کے تمام سوالات کا جواب بھی دیا۔ اگرچہ کمیشن نے پیداواری لاگت پر جائزے کے حوالے سے کچھ اعتراضات کیے مگر اس پر بھی پنجاب حکومت کا موقف واضح اور سب کے سامنے ہے کہ شوگر ملوں کی جانب سے گنا کم قیمت پر خرید کر زیادہ قیمت ظاہر کی جاتی ہے اور اس اضافی قیمت کو پیداواری لاگت میں شامل کیا جاتا ہے، پھر اس سے پیدا ہونے والی مصنوعات گنے کی پھوک اور مولیسس دونوں کی قیمت کو کم ظاہر کیا جاتا ہے۔ اب جبکہ شوگر کمیشن نے صحیح طریقے سے قیمتوںکا تعین کیا تو پیداواری لاگت میں فرق آ گیا۔ تاہم جو اس سے بھی بڑی حقیقت ہے اس پر کوئی بات نہیں کر رہا اور وہ یہ کہ 29ارب کی سبسڈی میں سے پچھلی حکومتوں نے 3برسوںمیں 26ارب جبکہ بزدار حکومت نے دو برسوں میں صرف 2اعشاریہ 4ارب روپے کی سبسڈی دی۔ چینی سرپلس ہونے پر برآمد اور پھر اس پر سبسڈی دینے کا فیصلہ کسی فردِ واحد نے نہیں بلکہ پنجاب کی کابینہ نے دستیاب معلومات اور حقائق کو پیشنظر رکھ کر کیا تھا، اور یہ نہ تو کوئی قانونی طور پر کوئی غلط اقدام تھا اور نہ ہی کوئی ایسا کام جو پہلے سے نہ ہو رہا ہو۔ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ جو جماعتیں اور افراد شوگر کمیشن کی رپورٹ پر پنجاب حکومت اور سردار عثمان بزدار کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں وہی افراد نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے حوالے سے کمیشن کی رپورٹ کو رد بھی کر رہے ہیں۔ یہی دو عملی ہماری سیاست میں بھی بری طرح گھر کر چکی ہے۔ تاہم پنجاب حکومت کا راستہ بڑا واضح ہے اور وہ یہ کہ عوام اور عوامی خدمت کے مابین کسی کو حائل نہیں ہونے دینا جبکہ کرپشن کے خاتمے کے لیے اداروں سے مکمل تعاون بھی کرنا ہے اور حقائق کو عوام کے سامنے بھی لانا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اگر کمیشن بنا سکتی ہے، کمیشن کی رپورٹ عام کر سکتی ہے تو مزید بھی کچھ کرنے سے دریغ نہیں کرے گی۔ وزیراعظم عمران خان کے وژن کے مطابق کرپشن سے پاک پاکستان اور احتساب بلاتفریق کا نعرہ ہی بزدار حکومت کیلئے مشعلِ راہ ہے اور وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار روزِ اول سے اسی وژن پر کارفرما ہیں۔