امیج کو داغ دار نہ ہونے دیں

June 04, 2020

فکر فردا … راجہ اکبرداد خان
ہم یورپ میں رہنے والے پاکستانی ملک کے پیچ در پیچ سیاسی ماحول سے اتنے باخبر نہیں رہ سکتے کیونکہ ایک تو ہم اپنے آبائی ملک سے ہزاروں میل دور ہیں اور دوسرا یہ کہ وہاں پر سیاست کی شکل و صورت بھی اسی طرح بدل گئی ہے جتنا کہ معاشرہ بدل گیا ہے۔ 80ء اور90ء کی دہائیوں میں بھی مالی حالات آج سے زیادہ مختلف نہ تھے۔ صرف ہماری اجتماعی عادات اور خصلتوں میں ٹھہرائو تھا اور لوگ ایک دوسرے کو ان کے جائز مقام دیتے ملتے اور سب سے اہم لوگ اپنے وسائل کے اندر زندہ رہنے کے عادی تھے۔ کمزور کی زمینوں اور وسائل پہ قبضوں کی عادتیں کم تھیں اور اپنے تمام معاملات بزور طاقت حل کروانے کی روش زیادہ مضبوط نہ تھی، سرکاری ملازمین سیاست دانوں کے دم چھلے نہ تھے، سرکاری لوگ اپنے منصب کو اللہ کی دین اور اعزاز سمجھتے ہوئے معاملات سے بالعموم درست طریقہ سے نمٹتے دیکھے جاتے، یہی وہ زمانہ تھا جب عمران خان نے سیاست میں قدم رکھا۔ اس سے قبل وہ پاکستان میں قیام کے دوران ایک کھاتے، پیتے گھرانہ کے فرد کی حیثیت سے خاندانی اور سماجی حلقوں میں اپنا ایک مقام بنا چکے تھے۔ کئی برس برطانیہ اور دنیا کے دیگر حصوں میں کرکٹ کھیلنے کی وجہ سے وہ ایک ایسے پاکستان بن گئے، جو قانون کی پاسداری، دوسروں کو جگہ دینے، وسائل کی موجودگی میں اپنے اہداف کا سختی سے تعاقب کرنا اور انصاف پسندی کو اپناتے ہوئے زندگی گزارنی، جیسے قیمتی اصولوں کا مرتبہ بن چکے تھے۔ عمران خان کے عادات کو جانتے ہوئے انہیں اب کسی دوسرے مولڈ میں فٹ کرنا ممکن نہ تھا، یہیں کہیں سے شوکت خانم ٹرسٹ، جلوزئی افغان مہاجرین پراجیکٹ اور تحریک انصاف نے جنم لیا۔ ان ہی وجوہات کی بنا پر وہ پرویز مشرف ٹیم کا حصہ نہ بن سکے اور انہیں اپنا پراجیکٹ شروع کرنا پڑا، تقریباً دو سال قبل وزیراعظم زیادہ تر ناتجربہ کار اور کئی نہایت تجربہ کار لوگوں کے ساتھ اقتدار میں آئے جو ہر دور میں، ہر حکومت کے دست و بازو بنے رہنے کا اعزاز سنبھالے ہوئے ہیں۔ عمران خان کے پاس نمبر گیم پوری نہ تھی، اسلئے انہیں ان لوگوں کو اہم وزارتیں دینی پڑیں جن کے ساتھ ان کی نہ ہی ذہنی مطابقت تھی اور نہ ہی کوئی سیاسی انڈر اسٹینڈنگ تھی۔ چینی اسکینڈل کے ایک اہم فرد نے پی ٹی آئی میں شمولیت موقع پر جس طرح متوقع وزیراعظم کو ریسیو کیا وہ توہین آمیز بھی تھا اور اچھی اخلاقیات سے گرا ہوا بھی، شاید کسی بادشاہ گر نے انہیں وزیراعظم بنانے کا کہہ رکھا تھا۔ اسلئے وہ برہم تھے۔ کئی بادشاہ گروں نے پنجاب میں دھاندلی کروائی اور نہ حکومت عدم اعتماد کے خوف سے جو کچھ کر نہیں پا رہی، اس کی وجہ سات نشستوں کی نہایت کمزور میجارٹی ہے۔ اگر عمران خان نے وزیراعظم بننا ہی تھا اور پوری قوم جو خواب دیکھ رہی تھی، ان کی تکمیل کے لیے انہیں سازو سامان مہیا نہیں ہوسکا، جس کی وجہ سے بیورو کریسی بھی ان کی بات نہیں مان رہی۔ کئی اہم ادارے اور شخصیاتGo Slow Policyپر دو سال سے چل رہے، ریونیو کا سسٹم ہو، فنڈز کے نچلی سطح پر استحصال کے معاملات ہوں، ہسپتالوں کی مینجمنٹ کی بات ہو، پولیس کارکردگی کی بات ہو، سوئی پرانی جگہ پر ہی اٹکی ہوئی ہے، اوپر سے نیچے تک کوئی اس ماحول کو بہتر بنانے کیلئے تیار نہیں، حد یہ ہے کہ کابینہ کے لوگ بھی کسی ڈسپلن کا مظاہرہ نہیں کررہے، عمران خان کئی مافیاز کو چیلنج کررہے ہیں۔ دو سال کو مڈٹرم کہا جاسکتا ہے۔ آخری سال تو اعلانات جعلی ہوں یا حقیقی میں گزر جائے گا۔
اسلئے صحیح موقع ہے کہ خان صاحب کابینہ کے حوالے سے ایسے فیصلے کریں جو ان کی اگلی کامیابی کی وجہ بن پائیں۔ خدشات کے باوجود حکومت اپنے پانچ سال پورے کرے گی۔ مقتدار ادارے اس حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں اور جب تک یہ ماحول قائم رہتا ہے حکومت اٹھتے، گرتے چلتی رہے گی۔ یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ کون اپوزیشن ملک کی حکومت کیلئے سامنے آنے کو تیار ہوگی۔ جہاں معاشی مشکلات، صوبوں کے درمیان عدم آہنگی، کورونا وائرس اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اکثر معاملات پر عدم اتفاق جیسے حالات سے نمٹنا پڑ جائے۔ یہ تمام حالات پی ٹی آئی حکومت کو مزید وقت ملنے کی وجہ بنے ہوئے ہیں۔ اس حکومت کو اگر خطرہ ہے تو وہ اپنے آپ سے ہے، کیونکہ تقریباً دو سال گزر جانے کے بعد بھی نہ عمران خان اپنا قد اوپر اٹھا سکے ہیں اور نہ ہی ملک میں ان کے وعدوں کے مطابق کام ہورہے ہیں۔ وزیراعظم کو جلد وزراء کے حوالہ سے ایسے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے جو عام آدمی تک ذہنی رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکیں اور ایسا اسی شکل میں ہوگا جب پی ٹی آئی ایم این ایز اور ایم پی ایز بڑے شہروں کی بڑی بیورو کریسی سے عوامی دولت نکال کر گلی، محلوں میں صرف کرنے میں براہ راست دلچسپی کا مظاہرہ کریں گے، اب تک ان عوامی نمائندگوں کو پتہ لگ چکا ہوگا کہ پنجاب ن لیگ کا قلعہ ہے۔ جسے اپنے ساتھ جوڑنے میں وقت لگے گا اور کارکردگی بھی دکھانی ہوگی اور یہ جماعت ایک بیانیہ کے پیچھے مضبوطی سے کھڑی ہے۔ وزیراعظم کیلئے حکومتی کارکردگی بہتر کرنے کیلئے دوسرا راستہ یہ ہے حالات جو بھی ہیں انہیں اپنے منشور اور ذہنی حقائق کے درمیان برداشت نہیں کریں گے۔ عدالتی اور ریونیو معاملات میں کوتاہیاں براداشت نہیں کریں گے، پولیس کارکردگی بہتر بنائی جائے گی، ٹیکس چوروں کو رعاتیں نہیں دی جائیں گی، بین الاقوامی سطح پر زیادہ محنت سے کام کرتے ہوئے پاکستان کو اوپر اٹھایا جائے گا، یہ کھل کر کام جاریر کھیں، ایسا ہونے پر ایک مرحلہ پر ہر طرف سے شورو غوغہ ہوگا اور عدم تعاون کے مظاہرے شروع ہوجائیں گے۔ ان حالات میں ریاست کو سامنے آکر ایک منتخب حکومت کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا اور ایسے بھی لندن پالیٹیکس اور پاکستان کی جمہوری حکومت پالیٹکس میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ آدھا تیتر، آدھا بیٹر سیاست ملکی مفاد اور امیج کیلئے اچھی نہیں، وزیراعظم کیلئے اپنے صاف ستھرے امیج کو قائم رکھنا ہی پی ٹی آئی زندگی ہے اگر قربانیاں بھی دینی پڑیں تو گریز نہ کی جائے۔ عوامی احترام بھی ایک باوقار جمہوری طرز حکومت کی ایک شکل ہے، جسے ممکن بنانے کیلئے مشکل فیصلے کرنے ہیں، ہچکچاہٹ نہیں محسوس ہونی چاہیے۔ چند بادشاہ گر ہمیشہ حکومت کو یرغمال بنانے میں کامیاب نہیں ہونے چاہئیں۔ بیشتر سیاسی جماعتیں سابق وزیراعظم خاقان عباسی کی پارلیمنٹ میں Selective Repres Entationطے کرلیا جائے، قابل قبول نہیں کریں گی اور نہ ہی یہ قابل ستائش فارمولا ہے۔ الیکشِ کمیشن سے زیادہ معتبر غیر جانبدار ادارہ وجود میں نہیں لایا جاسکتا، کیونکہ اس کا اعلیٰ اسٹرکچر اتفاق رائے سے وجود میں لایا جاتا ہے۔ نہایت ہی کمزور پاکستانی قوم کے اندر نہ تو الیکشن کمیشن فرشتوں پر بنائے جاسکتے ہیں اور نہ ہی ممبران اسمبلی میں فرشتوں کیلئے گنجائش بن سکتی ہے۔ حزب اختلاف اگر اپنا رول ادا کرنے کیلئے تیار ہوجائے تو جمہوری بھی پنپ سکتی ہے اور بیشتر معاملات آگے بھی بڑھ سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہورہا۔ حکومت اگر نہیں ڈیلور کر پا رہی تو اس میں قصور حزب اختلاف کا بھی ہے، کیونکہ انہیں اقتدار سے باہر ہوجانے کا غم کھائے جارہا ہے۔ دوسری طرف حکومتی ناکامی حزب اختلاف کی کامیابی ہے، خواہ وہ قومی مقاصد کے نقصان پر ہی کیوں نہ ہو۔