وزیراعلیٰ سندھ اور اراکین اسمبلی کا ڈاکٹرز اور ہیلتھ ورکرز کو سیلیوٹ

June 05, 2020

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے صوبائی اراکین کے ہمراہ سندھ اسمبلی ایوان کی گیلری میں موجود ڈاکٹرز اور فرنٹ لائین ورکرز کو کھڑے ہوکر سیلوٹ پیش کیا اور کہا کہ ڈاکٹرز، پیرامیڈیکل اسٹاف، رینجرز، پولیس سب کو سلام پیش کرتے ہیں۔

انھوں نے ڈاکٹرز اور ہیلتھ ورکرز کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے جب سب کو کہا کہ اپنے گھروں میں رہیں تو ان کو کہا تھا کہ آپ گھروں سے نکلیں اور کام کریں۔

یہ وقت ڈیسک بجانے کا نہیں، وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ آج 40 کورونا وائرس کے مریض انتقال کرگئے ہیں، ان کے لیے سب سے پہلے دعاگو ہوں۔ انھوں نے کہا کہ 27 ہیلتھ ورکرز اس وبا کے دوران فرنٹ لائن پر کام کرتے ہوئے شہید ہوگئے، 7 پولیس اہلکاروں کا بھی کورونا وائرس سے انتقال ہوا۔

انھوں نے کہا کہ کراچی یونیورسٹی کی لیبارٹریز کے انچارج اور اسٹاف کو سلام پیش کرتے ہیں، 26 فروری کو پہلا کیس آیا اس وقت میں زرداری صاحب اور بلاول صاحب کے ساتھ تھا۔

ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے بتایا کہ کورونا کا ایک کیس کراچی میں اور ایک اسلام آباد میں بھی آیا، اسی وقت بلاول بھٹو نے کہا آپ جائیں اور جو فوری اقدامات کرنے ہیں وہ کریں، میں نے فوری طور پر اقدامات کرتے ہوئے اگلے روز اجلاس کیا۔

انہوں نے کہا کہ سعید غنی نے فون پر کہا ہم دو روز اسکول بند کررہے ہیں، میں نے کہا کہ ایک ہی کیس ہے اسکول بند کرکے بچوں کی تعلیم خراب نہیں کرسکتے۔ سندھ حکومت نے کورونا سے بچاؤ کیلئے جو ممکن تھا وہ کیا، میں نے پوچھا کراچی میں کتنے وینٹی لیٹرز موجود ہیں تو پتا چلا 16 ہیں۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ اس وقت ایک ہی کیس تھا کچھ نے کہا زیادہ منگوالی ہیں، ہم نے چین، ایران اور عراق سے آنے والوں کا 15 جنوری سے ڈیٹا لیا، ایک ایک سے رابطہ کیا اور معلومات لیں، 45 ہزار لوگ تھے۔ ہم نے ایک ایک سے رابطہ کیا، ٹیسٹ کا کہا، ایئرپورٹ سے لوگ آرہے تھے، وفاق نے کوئی ڈیسک نہیں بنائی تھی۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ ہماری وزیر صحت نے ایئرپورٹ پر ڈیسک قائم کی۔ جہاں ایک غیر ملکی مسافر خاتون نے بتایا کہ وہ دیگر ممالک بھی گئی ہیں لیکن جو طریقہ کار سندھ حکومت نے چیکنگ کا بنایا ہوا ہے، اس طرح کہیں بھی نہیں ہورہا۔ اس وقت ہمارے کام کو سوشل میڈیا نے بھی سراہا۔

انھوں نے بتایا کہ صورتحال کے پیش نظر ہم نے فیصلہ کیا کہ اسکولوں کو مزید دو ہفتوں کیلئے بندکردیں گے۔ اس کے بعد عوامی اجتماعات پر پابندی لگائی، اور پی ایس ایل چل رہا تھا اس کو مؤخر کیا۔ کہا گیا ٹیسٹنگ کٹس چاہیے، جب پہلا مریض آیا تو 9 ہزار 600ٹیسٹ کٹس منگوالی تھیں۔

وزیراعلیٰ نے بتایا کہ اس وقت ایک ہی کیس تھا کچھ نے کہا زیادہ منگوالی ہیں، باقی صوبوں نے دیکھا سندھ کیا کررہا ہے پھر وہی کیا، 8 مارچ کو ایک کورونا کے مریض سے ملاقات ہوئی، وزیراعظم نے میٹنگ کیلئے بلایا تو پریشان تھا، 13 مارچ کو وزیراعظم لاک ڈاؤن کا فیصلہ کرتے تو نتائج مختلف ہوتے، دنیا میں کچھ نہیں کھلا یہ صرف باتیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صوبے میں کورونا کے 53 فیصد مریض صحتیاب ہوئے کسی اور صوبے میں صحتیابی کی اس سے آدھی شرح بھی نہیں، کابینہ کے اراکین کو میں نے ایک ماہ کی تنخواہ دینے کا کہا، پیپلز پارٹی کے اراکین کو بلاول بھٹو زرداری نے تنخواہ دینے کا کہا۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہم نے 23 مارچ سے 2 ہفتے لاک ڈاؤن کی بات کی، وزیراعظم نے جو تقریر کی اس کا تاثر لاک ڈاؤن کے خلاف گیا، کہا گیا میں نے لاک ڈاؤن کرکے ظلم کردیا، لاک ڈاؤن سے کتنے لوگ جان بحق ہوئے مجھے بتائیں۔