’آصف فرخی‘ کہانی کی پوری روایت سے جُڑا افسانہ نگار

June 10, 2020

اردو کی ادبی دنیا میں آصف فرخی ان گنے چنے ادیبوں میں سے تھے جن کی کا فنی تنوّع حیران کردینے والا تھا۔ انھوں نے ادبی اظہار کا کوئی میدان نہیں چھوڑا۔ اگرچہ ان کے فن کا بڑا حوالہ اردو افسانہ تھا تاہم ادب کی دیگر جہتوں میں بھی وہ اتنے تواتر کے ساتھ متحرک اور فعال تھے کہ ہر جہت مرکزی جہت معلوم ہوتی تھی۔ بطور افسانہ نگار، نقاد، سفرنامہ نگار، مترجم، مدیر اور ناشر، وہ معاصر ادبی منظر نامے میں سب سے الگ ،سب سے نمایاں نظر آتے تھے۔

آصف فرخی کی ادبی شخصیت کی تشکیل و تعمیر میں ان کے تہذیبی گردو پیش اور ماحول نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس میں ان کے خاندانی ماحول اور اس ادبی فضا کا بڑا گہرا عمل دخل تھا جس میں انھوں نے آنکھ کھولی، سانس لی اور پرورش پائی۔آصف فرخی نے اپنے دادا محمد احسن اور والد اسلم فرخی کی صورت میں ایک پوری تہذیب کو دیکھا۔ گھر میں ہوش سنبھالتے ہی ادبی فضا دیکھی۔

وہ جس گھر میں پیدا ہوئے وہاںمعیار زندگی بہتر تھا، رکھ رکھائو، وضع داری اور آداب بھی موجود تھے جو کسی بھی تہذیب و ثقافت کی جان سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے والد ڈاکٹر اسلم فرخی جامعہ کراچی میں استاد تھے، شاعر اور نثر نگار تھے، تصوف سے گہرا لگائو رکھتے تھے اوردلی کی تہذیب کا چلتا پھرتا مرقع تھے، والدہ تاج بیگم ڈپٹی نذیر احمد کے خانوادے کی اہل قلم اورچچا ترقی پسندوں کے سرخیل تھے۔ یوںگھر کی وہ ادبی فضا ان کے خون میں شامل تھی جس میں کی ذہنی تشکیل ہوئی۔

آصف فرخی ۱۶ ستمبر ۱۹۵۹ء کو کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے ڈاؤ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا تھا اور پھر ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ سے پبلک ہیلتھ میں ماسٹرز کی ڈگری لی تھی۔ وہ آغا خان یونیورسٹی کراچی اور یونیسف جیسے اداروں سے منسلک رہے۔بعد ازاں یہ شعبہ چھوڑ کر وہ درس وتدریس کی جانب آگئے تھے اور حبیب یونیورسٹی کراچی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کے طور پر اپنی خدمات انجام دے رہے تھے۔

آصف فرخی نے اسّی کی دہائی میں اپنی ادبی زندگی کا آغاز کیا ۔اپنے پہلے ہی افسانوی مجموعے ’’آتش فشاں پر کھلے گلاب‘‘ جو ۱۹۸۲ء میں شائع ہوا انھوں نے ادبی دنیا کو چونکا دیا اور غلام عباس جیسے بڑے افسانہ نگار کی توجہ حاصل کرلی۔

آصف فرخی بے حد وسیع المطالعہ ادیب تھے، لیکن ان کا مطالعہ صرف کتابوں تک محدود نہ تھا بلکہ مشاہدہ بھی اس کا حصہ تھا۔ بین الاقوامی ادبی دنیا میں جو کچھ ان کے مشاہدے تھے اس نے ان کے تخیل اور افسانوں کو بہت ثروت مند کیا۔ ایک بے حد تازہ کار، پڑھے لکھے، واقعیت شناس اور بصیرت مند ادیب کے طور پر انھوں نے اپنے فن کی جو دنیا بنائی وہ تخلیقی بھی تھی اور تخیّلی بھی۔ انھوں نے بہت مختصر مدت میں اپنا اسلوب نگارش تراش لیا تھا لیکن وہ اس مخصوص اسلوب کے دائرے میں محصور نہیں ہوئے۔ ان کے اندر تخلیقی اپچ نے موضوعاتی رنگارنگی کے ساتھ اسلوبیاتی تنوّع پیدا کیے رکھا۔ انھیں ماجرائیت کو تہ در تہ اور پرت در پرت کھولنے کے ہنر پر فنکارانہ دسترس تھی جس سے کہانی میں آخر تک تجسس اور دلچسپی کا عنصر برقرار رہتا تھا۔آصف فرخی کے فن میں جہاں موضوعات میں وسعت دکھائی دیتی تھی وہیں ان کی تکنیک میں بھی گہری زمزیت نظر آتی تھی۔ انھوں نے بیانیہ اور علامتی دونوں طرح کے اسلوب میں کامیاب افسانے لکھے۔ خصوصاً علامت کے اسلوب کو انہوں نے نہایت تخلیقی انداز میں برتا۔

داخلی شکست و ریخت، گھٹن، سیاسی و سماجی جبر، انسانی اور اخلاقی اقدار کی پامالی اور خاص طور پر کراچی کی صورت حال کے حوالے سے انہوں نے جن سچائیوں کا اظہار کیا وہ انہی کا خاصہ تھا۔کراچی شہر آصف فرخی کا محبوب تھا۔ ان کے افسانوں میں کراچی سے محبت بھری ہوئی نظر آتی ہے ۔ وہ شہری زندگی سے جڑے ایک تہذیبی آدمی تھے۔ بے ہنگم سماجی تبدیلیاں انھیں پریشان کردیتیں تھیں ، اس کا اظہار ان کے متعدد افسانوں میں ہوا ہے۔ انھیں اس بات کا قلق تھا کہ ہم نے اپنی نئی نسل کو ورثے میں گھٹن، محرومی، اضطراب اورزند گی کی بے معنویت دی ہے۔ انھوں نے ایک حساس قلم کار کے طور پر اس احساس کو اپنے افسانوں میں سمویا۔

وہ کہانی کی پوری روایت سے جڑے ہوئے افسانہ نگار تھے۔کبھی وہ پیچھے مڑ کر کتھا اور داستان سے بھی اپنا رشتہ جوڑلیتے تھے اور پورے تہذیبی رچائو کے ساتھ کہانی کو سامنے لاتے تھے۔ مشرق میں داستان گوئی کی جو روایت پروان چڑھی اس سے انتظار حسین نے اپنا رشتہ جوڑا تھا، آصف فرخی نے بھی ابتدا میں اسی فریم میں اپنی کہانی کو جڑا تھا اس لیے ان پر انتظار حسین کے اثرات بھی نظر آئے لیکن وہ بہت جلد اس اثر سے نکل آئے اور اپنی الگ راہ نکالی جو انھیں دیگر افسانہ نگاروں سے ممتاز کرتی ہے۔ آصف فرخی اس عظیم روایت کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے لیکن ان کی خوبی یہ تھی کہ انھوں نے کبھی اس کی کورانہ تقلید نہیں کی۔

جس دور میں انھوں نے لکھنا شروع کیا وہ افسانے کے لحاظ سے بڑا زرخیز دور تھا۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائی کے لکھنے والے بھی ستر کی دہائی تک فعال تھے اور خود ستر اور اسی کی دہائی کے افسانہ نگار بھی اس میں شامل ہوچکے تھے۔ اس سارے منظر نامے کو آصف فرخی نے ایک سنجیدہ ناظر اور سامع بن کر دیکھا تھا اور پھر اس میں شامل ہوکر اپنا الگ مقام بنایا۔ وہ اس ساری روایت میں اس لیے بھی منفرد تھے کہ انھوں نے صرف اپنی روایت پر اکتفا نہیں کیا بلکہ بین الا قوامی ادب پر بھی گہری نظرڈالی۔ ان کی تحریروں کا پس منظر وسیع ہوتا تھا اور وہ بڑے کینوس میں سوچتے تھے۔ ان کے افسانوں کی پہلی نمایاں صفت ان کی زبان تھی جو ان کو ان کے ہم عصر افسانہ نگاروں سے ممتاز کرتی تھی اور دوسری چیزان کے موضوعات کا تنوّع تھی۔ انھوں نے زندگی کے ہر موضوع پر لکھا۔

کراچی شہر اور سندھ کے آشوب پر کم وبیش ہر دور میں افسانہ نگاروں نے لکھا ہے۔ آصف فرخی کے معاصرین کے ہاں بھی چند ایک کہانیاں مل جاتی ہیں جو کراچی کے پس منظر میں لکھی گئی ہیں لیکن آصف فرخی نے تو کراچی کے نوحے لکھ دالے۔ ان کے افسانوی مجموعے ’’شہر بیتی‘‘ اور ’’شہر ماجرا‘‘ مکمل طور پر کراچی کے حالات پیش کرتے ہیں اور ان کا ایک مجموعے ’’ ایک آدمی ی کمی‘‘ کی بیش تر کہانیاں سندھی معاشرت، تہذیبی فضا اور طرز احساس کی آئینہ دار ہیں۔

تخلیقی اظہار کی یہ سطح محض ان کے افسانوں تک ہی محدود نہ تھی، بلکہ ان کی غیر ادبی تحریروں میں بھی پوری طرح ابھر کر سامنے آتی تھی۔ چاہے وہ ان کے ادبی مضامین ہوں یا اخباری کالم۔ ان کی شعور کی آنکھ یہ سارے منظر دیکھتی رہی اور ان کا قلم یہ مناظر ہمیں دکھاتا رہا۔ یہ مناظر صرف قومی سطح ہی کے نہیں تھے بلکہ بین الا قوامی سطح کے بھی تھے۔ ان کے اسلوب کو ہم کسی دائرے میں محدود نہیں کرسکتے۔ان کی تحریریں معاصر ادبی اور سماجی صورت حال کی پوری طرح نمائندگی کرتی تھیں۔ ان کی تحریروں کا تازہ ترین سلسلہ جسے وہ حالیہ وبا کے پس منظر میں ’’تالہ بندی کا روزنامچہ‘‘ کے نام سے لکھ رہے تھے اس ضمن میں ایک مثال ہے۔

بحیثیت نقاد ان کی شخصیت کو دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ وہ اپنے افق تا افق پھیلے ہوئے علم سے ادبی تاریخ رقم کررہے تھے۔ یہ ایک طرح سے ایک دور کو دوسرے دور میں منتقل کرنے اور تنقیدی فکر کے ارتقا کا عمل تھا۔وہ شعر و نثر کو بے مثال پارکھ تھے اور زبردست تنقدی شعور رکھتے ہیں۔ انھوں نے کلاسیکی ادب سے لے کر جدید شعرو ادب اور بین الاقوامی فکشن کے بارے بہت سے تنقیدی مضامین لکھے جو ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعوں میں شامل ہیں۔ اسی طرح وہ بہت اچھے مبصر بھی تھے اور اردو دنیا کے ان چند ادیبوں میں سے تھے جو دنیا بھر کا ادب پڑھتے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنی مقامی زبانوں کے ادب سے بھی گہری واقفییت رکھتے ہیں۔

انہوں نے جو بیش بہا ادبی سرمایہ اپنے پڑھنے والوں کے لیے چھوڑا ہے اس میں آٹھ افسانوی مجموعے،چار تنقیدی مضامین کے مجموعے، نظموں اور ادبی انٹرویوز کا ایک ایک مجموعہ، تین سفرنامے، ۱۶ سے زائد تراجم کردہ کتابیں،۱۳ سے زائد مرتب کردہ کتابیں، دو ڈرامے اور بچوں کے لیے لکھی گئی چندکتابیں شامل ہیں۔وہ اردو کے ساتھ انگریزی زبان میں بھی لکھتے تھے،اور ان کی ۹ سے زائد انگریزی کتابیں بھی شائع ہوئیں۔ تصنیف و تالیف کے علاوہ آصف فرخی ایک موقر اردو ادبی جریدے ’’دنیا زاد‘‘ کے مدیر بھی تھے۔ اس جریدے کی منفرد خوبی یہ تھی کہ اس کا ہر شمارہ دیگر موضوعات کے علاوہ اپنے اندر کسی مخصوص موضوع کو بھی سمیٹے ہوئے ہوتا تھا۔

اپنی وفات کے وقت وہ حالیہ وبا کے پس منظر میں لکھی گئی ادبی تحریروں پر مشتمل شمارہ مرتب کررہے تھے ۔ ۲۰۰۰ء سے یہ رسالہ اپنی اشاعت کے ذریعے نہ صرف مختلف زبانوں میں موجود ادب سے واقفیت کروارہا تھا بلکہ اس سے ملکی و غیر ملکی ادیبوں اور نئے لکھنے والوں کا بھی ادب سے تعارف ہورہا تھا۔ اس رسالے کو بین الاقوامی پذیرائی حاصل تھی۔ انھوں نے ’’شہرزاد‘‘ کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا تھا جس نے پاکستان میں قومی اور بین الاقوامی سطح کے سنجیدہ اور اعلیٰ ادب کی اشاعت میں بے پایاں خدمات انجام دیں۔

آصف فرخی ہی وہ شخص تھے جنھوں نے پاکستان میں ادبی میلوں کی روایت ڈالی۔ انھوں نے ۰ا۲۰ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس والوں کے ساتھ مل کر کراچی لٹریچر فیسٹول کا آغاز کیا، جو آج پاکستان میں اور پاکستان سے باہر بھی ادبی میلوں میں اپنی جداگانہ شناخت رکھتا ہے۔ آٹھ سال تک وہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے ساتھ مل کر یہ ادبی میلہ سجاتے رہے، پھر بعض وجوہات کی بنا پر ۲۰۱۹ء میں ان سے الگ ہوکر انھوں نے ادب فیسٹول کے نام سے علیحدہ ادبی میلہ منعقد کرنا شروع کیا۔ یہ ادبی میلہ بھی نہایت کامیاب رہا۔ آصف فرخی کی ڈالی ہوئی روایت پر ملک میں ادبی میلوں کی بہار آگئی اور آج پاکستان میں ہرسال بے شمار ادبی میلے منعقد کیے جاتے ہیں۔ یہی آصف صاحب کی بھی منشا تھی کہ ملک میں ادب کی اور شعر کی اور کتاب کی بات زیادہ سے زیادہ ہو۔

آصف فرخی کی ادبی خدمات پر ان کو متعدد اعزازات بھی ملے تھے جس میں اکیڈمی آف لیٹرس وزیراعظم ایوارڈ اور ۲۰۰۵ء میں ملنے والا تمغہ ء امتیاز اہم ہیں۔ان کی وفات کی خبر ان کے چاہنے والوں، پڑھنے والوں اور طالب علموں پر بجلی بن کر گری۔ عام طور پر ایسے موقع پرکہا جاتا ہے کہ ادب کا بہت بڑا نقصان ہوگیا لیکن آصف فرخی کے جانے سے یہ بات اس لیے حقیقت بن گئی کہ وہ اپنی وفات کے وقت فعال اور متحرک ترین ادیب تھے۔ ان کی بے وقت موت پر تبصرہ کرتے ہوئے نوجوان ادیب، شاعر اور مترجم سیّد کاشف رضا نے لکھا کہ وہ ذہنی طور پر پوری طرح مستعد تھے اور اگر ان کے پچھلے پندرہ بیس برس کے حاصلات دیکھے جائیں تو وہ اگلے پندرہ برسوں میں ادب کو اور بھی بہت کچھ دینے کے قابل تھے۔

ادھر کچھ عرصے سے انھوں نے افسانے کم لکھے تھے لیکن نان فکشن تنقید، مضامین، ادبی کالم، تراجم اور غیر ملکی ادب کے تعارف کے ضمن میں ہی وہ اتنا کام اورقدر اوّل کا کام کرسکتے تھے جو ان کے علاوہ کوئی اور نہیں کرسکتا۔ وہ عسکری صاحب کے دور عروج کی طرح کسی بھی ادبی بحث کو شروع کرکے تحریک بنا دینے کی پوزیشن میں تھے۔ ان جیسا مطالعے کامسلسل شائق، تیز رفتار قاری اور تاب ناک حافظے کا مالک اردو دنیا میں اور کوئی نظر نہیں آتا۔ ایک منٹو ہی ایسا ادیب ہے جس کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے کہ اگر اس جیسا فعال ادیب ستر برس کی عام عمر پاتا تو مزید ستائیس برسوں میں کیا کچھ دے جاتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ منٹو کی وفات کے بعداردو ادب کا سب سے بڑا نقصان آصف فرخی کی بے وقت وفات ہے۔

آصف فرخی زیابیطس کے مریض تھے اور کچھ عرصے سے ذہنی دبائو اورتنائو کا شکار تھے۔ اسی دوران انھیں پیٹ کی خرابی ہوئی جس کے باعث وہ شدید نقاہت کا شکار ہوگئے۔ زیابیطس کے گر جانے سے انھیں دل کا دورہ پڑا اور یکم جون ۲۰۲۰ء کی شام پانچ بجے وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔ ساری دنیا میں کرونا کی وبا کے باعث میل جول حتیٰ کہ اپنے پیاروں کی تجہیز و تدفین میں شرکت بھی بند ہے۔اس لیے آصف فرخی کے لواحقین نے اعلان کردیا تھا کہ لوگ تدفین میں شرکت سے پرہیز کریں کہ وہاں جمگھٹا ہونے کا اندیشہ ہے۔ ان کے جنازے میں مٹھی بھر لوگ شریک ہوئے۔ میر نے کہا تھا:

مرتے ہیں میر سب، پہ نہ اس بے کسی کے ساتھ

ماتم میں تیرے کوئی نہ رویا پکار کے

میر کا کہا ہوا شعر آصف فرخی کے بارے میں سچ ہوگیا۔ ان کے چاہنے والے ایک دوسرے کے گلے لگ کر رو بھی نہ سکے۔ آصف فرخی

کی وفات سے ہم نے صرف ایک بے مثال ادیب ہی کو نہیں کھویا بلکہ ایک کشادہ دل اور اعلیٰ انسان کو بھی کھودیاہے جو نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی میں پیش پیش رہتا تھا۔ علم دشمنی، خیال سے دوری اور نئی آوازوں کی حوصلہ شکنی کرنے کے اس ماحول میں آصف فرخی جیسے علم دوست ادیب کا اُٹھ جانا محض ادبی سانحہ نہیں بلکہ قومی سانحہ ہے۔