ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو

June 11, 2020

زن، زر اور زمین کے حصول کی جا بےجا کاوشوں کو دنیا میں لڑائی، دنگے فساد اور بدامنی کی بنیادی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔ اگر ہم انسانی تاریخ کے پچھلے پانچ ہزار سالہ ادوار کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ ہوس کے بھی مختلف مدارج اور رنگ ڈھنگ ہیں۔ مثال کے طور پر ایک شخص بھوکا ہے تو وہ اپنی بھوک مٹانے کیلئے چوری چکاری تک پہنچ جائے گا، بعض ایسے بھی ہوں گے جو مر جائیں گے مگر کوئی گری ہوئی حرکت نہیں کریں گے۔ ایک شخص راجا یا امیر ہے تو لازم نہیں اس میں صبر، حوصلہ اور تسکین بھی ہو، اگر ہوس پرست ہے تو اپنی امارت بڑھانے کیلئے الٹی سیدھی چالیں چلنے میں بھی کوئی حجاب یا شرم محسوس نہیں کرے گا۔

ہمارے یہاں غلط مفروضہ ہے جس کا بعض ہوس کے مارے خواہ مخواہ ڈرامہ کرتے ہیں کہ اللہ نے مجھے سب کچھ دے رکھا تھا، میرے پاس کسی چیز کی کمی نہ تھی، میں چاہتا تو انگلینڈ میں بیٹھ کر مزے کی زندگی گزار سکتا تھا لیکن میں تو قوم کے درد اور غم کی وجہ سے دھکے کھا رہا ہوں وغیرہ۔ ہوسِ زن، زر اور زمین کی طرح حصولِ اقتدار یا اتھارٹی کی ہوس بھی بڑی ظالم ہوتی ہے جس کو یہ کیڑا لگ جاتا ہے پھر اسے یہ باقی سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کسی پل چین سے بیٹھنے نہیں دیتا۔ شاہِ ایران کے پاس محرومِ اقتدار ہونے کے بعد بھی کیا مال و دولت یا دیگر نعمتوں کی کوئی کمی تھی؟ مگر اپنی اصل ہوس سے محرومی نے چند مہینوں میں اس کا کیا حال کر دیا تھا؟

ہوس کے مختلف مدارج کی طرح درویش نے اس کے مختلف رنگوں کی بات کی ہے۔ رنگ بلیک اینڈ وائٹ ہی نہیں ہوتے گرے، گرین اور گولڈن بھی ہوتے ہیں۔ یہ اپنے اپنے فطری و طبعی میلان یا حاضر و میسر سہولیات کی دستیابی پر منحصر ہے کہ کوئی بھی ہوس پرست اپنا ٹارگٹ حاصل کرنے کیلئے کون سا رنگ اور کون سی راہ اپناتا ہے۔ چیر پھاڑ کو دل کسی کا بھی نہیں کرتا لیکن جب گھی سیدھی انگلی سے نہیں نکلتا تو پھر حسبِ حالت انگلی ٹیڑھی کرنے میں بھی دیر نہیں لگائی جاتی۔ اگر کسی کے سینے میں حصولِ اقتدار کا الائو جل رہا ہے اور وہ اپنی مراد پارسائی کے ذریعے حاصل کر سکتا ہے تو وہ ہاتھوں میں تسبیح پکڑنے سے لیکر مذہب و روحانیت کا ہر ڈرامہ رچانے کیلئے ہمہ وقت سرگرم رہنے سے بھی کوئی گریز نہیںکرے گا۔ نماز روزے سے لیکر حرمین شریفین کے سفر تک میں ریاکاری کا کہیں کوئی موقع ضائع نہ جانے دے گا۔ اپنی ہر گفتگو کا آغاز وہ پند و نصائح سے کرے گا اور تان اس بات پر توڑے گا کہ میں تو دنیا میں صرف نیکی کا بول بالا چاہتا ہوں، مجھے تو صرف اپنی قوم کی فکر ہے۔ البتہ اگر ایسی فطرت والے ہوس پرست پر یہ واضح ہو جائے کہ پارسائی کے ڈراموں سے یہ دال گلنے یا مراد برآنے کی امید نہیں ہے تو پینترے بدلتے ہوئے دیگر ہتھکنڈوں کو استعمال میں لانے کے حوالے سے بھی زیادہ دیر یا سستی و کوتاہی نہیں کرے گا۔

حصولِ اقتدار کی ہوس ایسا نامراد چسکا ہے، کسی میں اس کی صلاحیت ہو نہ ہو آپ ذرا سا پوچھ کر دیکھیں فوراً رال ٹپک پڑے گی۔ ایک ہوس کے مارے ڈکٹیٹر نے کہا تھا کہ میں اقتدار کے بھوکوں کو اگر ذرا سی ہڈی دکھا دوں تو سب دمیں دباتے بھاگتے ہوئے پہنچے چلے آئیں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ ڈکٹیٹروں نے ہمیشہ اسی نوع کے ڈرامے کیے ہیں اصل حق داران یا وارثان کو محروم رکھتے ہوئے اپنے چاپلوسوں کو اقتدار میں لائے اور اپنی مرضی کا ناچ نچوایا، اگر سمجھ آنے پر کسی نے اس ذلت سے نکلنا چاہا تو اس کا تیا پانچہ کر ڈالا۔ اقتدار کی ہوس یا لت اتنی بری چیز ہے کہ جسے یہ لگ جاتی ہے تو وہ اس کیلئے ہر ذلت سہنے کو تیار ہو جاتا ہے۔

تاریخی طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ چنگے بھلے لوگ اس کیلئے پھانسیوں پر چڑھ گئے ہیں۔ بےسروسامانی میں نہ صرف خود قتل ہو جاتے ہیں بلکہ اپنے عزیزوں اور پیاروں کو بھی مروا بیٹھتے ہیں مگر پسپائی یا حقیقت کو قبول نہیں کرتے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ غاصبوں کے خلاف جدوجہد نہ کی جائے۔ چیلنج نہ کرنے سے بڑی بزدلی کوئی نہیں مگر عالمِ اسباب میں اگر آپ حق کیلئے جان دینے کی تڑپ رکھتے ہیں تو پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جان پیدا تو کریں۔ اس کیلئے سخت محنت اور ہوم ورک کی ضرورت ہوتی ہے جو جذباتی نہیں شعوری لوگوں کا کام ہے۔ فرد نہیں اجتماعی نظم درکار ہے، نسل نہیں نسلوں کا تسلسل مطلوب ہو سکتا ہے اور پھر ایجنڈا آپ کا نہیں حقیقی عوامی ضروریات کا درکار ہوگا۔ تمام تر عصری تقاضوں کو پیش نظر رکھنا پڑے گا۔ دشمنیاں کم اور دوستیاں زیادہ کرنے کو بطور پالیسی اپنانا ہوگا۔ عوامی دکھوں کو اپنا دکھ درد سمجھنا ہوگا۔ اکڑ فوں کی جگہ عاجزی و انکساری کا پیکر بننا ہوگا اور سب سے بڑھ کر یہ سوال کیاکہ آپ کے اندر قیادت کی صلاحیت، قابلیت یا اس کے اوصاف و معیار ات ہیں بھی کہ نہیں؟

کٹھ پتلی کی دنیا میں کوئی عزت ہوتی ہے نہ تاریخ میں کوئی مقام، اس لئے کوئی بھی بڑا انسان اس ذلت کے بجائے محروم اقتدار ہو کر عوام کے درمیان بیٹھنا قبول کرلے گا لیکن یہاں مسئلہ سارے کا سارا عوام کا ہے، عوام کی معیاری تربیت کا ہے، اقتدار کے اس اصل سرچشمے پر تو نظریاتی و جذباتی الائنس کی ملی بھگت یا ڈکٹیٹر شپ نے ظالمانہ قبضہ کر رکھا ہے، اب عوامی شعور کو بڑھاوا دینے کا رونا کس کے سامنے رویا جائے۔ بس یہ سمجھ لیجئے جب تک بانس (شعور) نہیں ہوگا بانسری بھی نہیں بج سکے گی، اس پھٹے ڈھول پر ہی گزارا کرنا پڑے گا۔