میں نہیں مانتا…

June 20, 2020

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کی طرف سے ہر سال ’’گوئی لرمو کانو پریس فریڈم ایوارڈ‘‘ دیا جاتا ہے۔ گوئی لرمو کانو کولمبیا کے ایک مشہور صحافی تھے جنہیں ان کے اخبار کے دفتر کے باہر گولی مار دی گئی تھی لیکن یہ گولی ان کی آواز خاموش نہ کر سکی اور وہ آج بھی یونیسکو پریس فریڈم ایوارڈ کی صورت میں ہرسال دنیا کے کسی نہ کسی دارالحکومت میں نظر آتےہیں۔ کچھ سال سے میں اس پریس فریڈم ایوارڈ کی انٹرنیشنل جیوری کا رکن ہوں۔

اس سال کے آغاز میں یونیسکو کے ہیڈ کوارٹر کو اس ایوارڈکیلئے نامزدگیاں موصول ہوئیں تو ہمارے لئے صرف بارہ ناموں کی ایک شارٹ لسٹ بنانا مشکل ہو گیا کیونکہ دنیا کے مختلف ممالک میں 250 صحافی پابند سلاسل تھے ان میں سے ہر دوسرے صحافی پر ریاست دشمنی کا جھوٹا الزام لگایا گیا تھا اور ہر تیسرا صحافی بغیر کسی مقدمے کے جیل میں تھا اور اکثر صحافی جیل میں تشددکا شکار تھے۔

اطمینان کی بات یہ تھی کہ پاکستان میں صحافت پر غیر اعلانیہ سنسر شپ اور پابندیوں کی شکایت تو تھی لیکن کئی مسلم ممالک کی نسبت پاکستان میں کوئی اہم صحافی جیل میں نہ تھا۔ مارچ 2020کے آغاز میں مجھ سے کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ (سی پی جے) کے نیویارک ہیڈ کوارٹر میں ایک کانفرنس کے دوران بار بار پاکستان میں صحافیوں پر بڑھتے ہوئے دبائو کے بارے میں سوالات کئے گئے تو میں نے کہا کہ یقیناً دبائو ہے لیکن ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں اتنے صحافی جیل میں نہیں جتنے ترکی، سعودی عرب اور مصر میں ہیں۔

اس کانفرنس میں فیصلہ کیا گیا کہ دنیا بھر میں گرفتار صحافیوں کی رہائی کیلئے ایک مہم چلائی جائے گی اور اس سلسلے میں مجھے سی پی جے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جوئیل سائمن نے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے نام ایک خط بھی دیا تاکہ وہ بھی سی پی جے کی حمایت کریں۔ میں واپس پاکستان پہنچا تو نیب نے روزنامہ جنگ اور جیو کے ایڈیٹر انچیف میرشکیل الرحمٰن کو گرفتار کر لیا۔

اس گرفتاری نے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کا یہ دعویٰ غلط ثابت کر دیا کہ پاکستان کا میڈیا بہت آزاد ہے کیونکہ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں بھی پاکستان 142ویں نمبر سے گر کر 145ویں نمبر پر آگیا۔ عالمی میڈیا میں عمران خان کی حکومت کا خوب مذاق اڑایا گیا کیونکہ میر شکیل الرحمٰن پر اراضی کی خرید و فروخت کے ایک 34سال پرانےمعاملے میں مبینہ بدعنوانی کا مقدمہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ نیب نے شکایت کی تصدیق کےمرحلے میں میر شکیل الرحمٰن کو گرفتار کر کے خود اپنے قانون کی خلاف ورزی کی۔ پہلے جسمانی ریمانڈ پر حراست میں رکھا گیا پھر جوڈیشل ریمانڈ دیا گیا۔ اس دوران میر شکیل الرحمٰن کے بڑے بھائی میر جاویدرحمٰن کا انتقال ہو گیا اور میر صاحب کی طبیعت بگڑ گئی لہٰذا انہیں جیل سے سروسز اسپتال لایا گیا اور یہاں ان کی حراست کے 100دن مکمل ہوچکے ہیں ۔

ان 100دنوں میں ہم نے مختلف صاحبان اختیار سے بار بار پوچھا کہ ابھی تک نیب کوئی مقدمہ بنا سکی نہ ریفرنس دائر کر سکی آخر آپ میر شکیل الرحمٰن کو رہا کیو ں نہیں کر دیتے آپ نے کیوں پوری دنیا میں پاکستان کا تماشہ بنا دیا ہے؟ افسوس کہ صاحبان اختیار کچھ بھی نہیں مانتے۔ وہ یہ نہیں مانتے کہ میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کے پیچھے حکومت کا ہاتھ ہے لیکن جب انہیں جیل سے اسپتال لایا جاتاہے تو حکومت کے کئی ادارے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ آپ نے یہ سہولت کیوں دی؟ جب کوئی بتاتا ہے کہ میر شکیل الرحمٰن کی طبیعت خراب ہے اور کورونا وائرس بھی پھیلا ہوا ہے تو کہا جاتا ہے کہ ذرا خیال رکھنا اور ملاقاتیوں پر نظر رکھنا۔ کوئی یہ بھی نہیں مانتا کہ 100دن سے بغیر مقدمے کے میر شکیل الرحمٰن کوحراست میں رکھنے سے دنیا بھر میں پاکستان بد نام ہو رہا ہے۔

یہ سارا معاملہ ایک ایسا مذاق ہے جس پر ہنسنے کی بجائے رونے کو دل چاہتا ہے میر شکیل الرحمٰن کی درخواست ضمانت پر کئی مرتبہ اس لئے سماعت نہ ہو سکی کہ جج صاحب نہیں آئے کبھی اس لئے سماعت نہ ہوئی کہ جج صاحب نے کیس نہیں پڑھا۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن عوام تو جانتے ہیں کہ 100دن سے حراست میں رکھنے کے باوجود ابھی تک میر شکیل الرحمٰن پر کوئی مقدمہ نہیں بنا لہٰذا اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس نے بغیر مقدمے کے جنگ اور جیو کے ایڈیٹر انچیف کو قید میں رکھ کر بڑا کارنامہ کیا ہے اورآئندہ کوئی چڑیا ان کے سامنے پر نہیں مارے گی تویہ ان کی بہت بڑی بھول ہے۔ میں نہیں مانتا کہ یہ کوئی کارنامہ ہے۔ یہ تو ایک جرم ہے۔