کراچی، 3 دستی بم حملوں میں ایک ہی گروپ کے ملوث ہونے کا شبہ

June 20, 2020

کراچی میں حالیہ دنوں میں 3دستی بم حملوں میں طریقہ واردات اور ٹارگٹ کے حوالے سے مماثلت پائی جاتی ہے۔ سیکورٹی ماہرین کے مطابق تینوں وارداتوں میں ایک ہی دہشت گرد گروپ کے ملوث ہونے کا شبہ ہے۔

سندھ پولیس کا کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ ان دہشت گرد حملوں کی تحقیقات کر رہا ہے۔

کراچی میں گزشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے میں دہشتگرد حملوں میں ملوث ملزمان کو گرفتار کرنے، ان سے تفتیش اور وارداتوں کی تحقیقات کرنے کے ماہر پولیس افسر راجہ عمر خطاب کے مطابق 10 جون کی شام گلستان جوہر میں کامران چورنگی کے قریب موٹر سائیکل پر سوار 2 ملزمان کے سندھ رینجرز کی موبائل پر دستی بم سے حملے کا مقدمہ سی ٹی ڈی پولیس نے درج کیا تھا۔

اسی روز ملیر کے شاہ لطیف ٹاؤن تھانے کی حدود نیشنل ہائی وے پر منزل پیٹرول پمپ کے قریب بھٹائی رینجرز کی موبائل پر حملے میں بھی موٹرسائیکل سوار 2 ملزمان ملوث تھے، اس کارروائی کی ایف آئی آر بھی سی ٹی ڈی نے درج کی تھی اور تفتیش بھی یہی ادارہ کر رہا ہے۔

راجہ عمر خطاب کے مطابق جمعہ کو لیاقت آباد کا واقعہ بھی ہوبہو اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

سی ٹی ڈی ذرائع کے مطابق لیاقت آباد اور قائد آباد میں بم حملے باقاعدہ منصوبہ بندی اور ریکی کے بعد قریب سے گزرنے والے فلائی اوورز سے کئے گئے۔

ایس ایس پی سینٹرل عارف اسلم راؤ کے مطابق لیاقت آباد میں فلائی اوور سے کیے گئے حملے میں نشانہ سندھ رینجرز اور پولیس کی موبائل تھی مگر خوش قسمتی سے دستی بم کالج کے گیٹ کے قریب گرا اور فورسز کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔

پولیس حکام کے مطابق ان دہشت گرد حملوں کی کڑیاں بیرون ممالک پاکستان دشمن عناصر کی جانب سے کی جانے والی سازشوں اور سوشل میڈیا مہم سے جڑ رہی ہیں۔

گلستان جوہر میں کورونا وائرس روکنے کے اقدامات پر مامور رینجرز کی گاڑی کو پنکچر شاپ پر اس وقت نشانہ بنایا گیا جب اس کے ٹائروں میں ہوا بھرائی جارہی تھی۔

پولیس حکام کے مطابق 10 جون کے حملوں کے روز "دھرتی ماں کے سچے سپوتوں سے فریاد" کے عنوان سے تقسیم کیا گیا ایک لسانی دہشتگرد تنظیم کا پمفلٹ بھی ان حملوں کے واضع محرکات کا حصہ ہے۔

حکام کے مطابق ان واقعات میں ملوث ملزمان کے خلاف بھرپور کارروائیوں کا آغاز کردیا گیا ہے۔