باسٹھ تریسٹھ۔ آئین پاکستان کی ”کالی ککڑی “

April 10, 2013

مولانا روم ڈوبتی قوموں کا نوحہ لکھ گئے۔ جب قومیں اچھائی ، برائی کی تمیز ختم کر بیٹھیں ۔جب چھوٹی، بڑی، درمیانی برائی کے جھمیلوں میں پڑ جائیں تومقدرفقط بربادی۔ ارشادِ ربانی ہے کہ ایسی حالت پرعذاب منتخب ہو جاتا ہے۔”میرے فرشتے پتھر وں کی بارش برسانے کیلئے مستعد ہو جاتے ہیں“۔ تباہی سے پہلے ذہنی گراوٹ اور پسماندگی پورے معاشرے کو اپنے نرغے میں لے لیتی ہے۔ تاجر، بیوپاری، سوداگر،ٹھیکیداراقتدار پر قابض ہو جاتے ہیں ۔ ایک دوسرے پر مالی سبقت لے جانے کے لیے حکومتی مشینری کو تابع کرنا ضروری امر ٹھہرتاہے۔ مقصود اپنی اور اپنی آل اولاد کی تزئین و آسائش کرنا بن جاتا ہے اور معاشرہ میں حرص و طمع عام ہو جاتی ہے۔
انتظار حسین نے ”جنم کہانیاں“میں بزرگوں کی کیا خوبصورت بات رقم کی ہے” کہ حرص و طمع تب پیدا ہوتا ہے جب علم کا فقدان پیدا ہوجائے ۔ کسی بزرگ نے پوچھا علم کا فقدان کب آتا ہے جواب ملاجب دانشمندوں کی بہتات ہو۔
پرانے زمانے میں ایک بادشاہ بہت سخی مشہور تھا ایک روز اس کے دربار میں ایک شخص کہ دانش مند جانا جاتا تھا، حاضر ہوکر عرض پرداز ہوا کہ جہاں پناہ دانش مندوں کی بھی قدر چاہیے۔ بادشاہ نے اسے خلعت اور ساٹھ اشرفیاں دے کر بصد عزت رخصت کیا ۔ خبرمشہور ہوئی۔ ایک دوسرے شخص نے ، کہ وہ بھی اپنے آپ کو دانشمند جانتا تھا، دربار کا رخ کیا اور بامراد پھرا۔ پھر تیسرا شخص، کہ اپنے آپ کو اہل دانش کے زمرہ میں شمار کرتا تھا، دربار کی طرف چلا اور خلعت لے کر واپس آیا۔ پھر تو ایک تانتا بندھ گیا ۔ جو جو اپنے آپ کو دانشمند گردانتے تھے جوق در جوق دربار میں پہنچتے تھے اور انعام لے کر واپس آتے تھے۔اس بادشاہ کا وزیر بہت عاقل تھا ۔ دانشمندوں کی یہ ریل پیل دیکھ کر اس نے ایک روز سرِدربار ٹھنڈا سانس بھرا۔ بادشاہ نے اس پر نظر کی اور پوچھا کہ تو نے ٹھنڈا سانس کس باعث بھرا؟ہاتھ جوڑ کر عرض کیا:جہان پناہ! جان کی اماں پاؤں تو عرض کروں۔
فرمایا: اماں ملی۔ تو تب اس نے عرض کیا:خداوند نعمت تیری سلطنت دانشمندوں سے خالی ہے۔ بادشاہ نے کہا: کمال تعجب ہے۔ تو روزانہ دانشمندوں کو یہاں آتے اور انعام پاتے دیکھتا ہے اور پھر بھی ایسا کہتا ہے۔عاقل وزیر تب یوں گویا ہوا کہ اے آقائے ولی نعمت گدھوں اور دانشمندوں کی ایک مثال ہے کہ ”جہاں سب گدھے ہو جائیں وہاں کوئی گدھا نہیں ہوتا اور جہاں سب دانشمند ہوجائیں وہاں کوئی دانشمند نہیں رہتا“۔
کیا ہمارا ملک سیاستدانوں کی بہتات سے دوچار ہے۔ 24 ہزار کاغذات نامزدگی ایک اعلامیہ ہی تو ہیں۔ الیکشن کے مراحل بتدریج روبہ عمل ہیں۔ کئی ماہ شوروغوغا رہاانتخاب نہیں ہوں گے، انتخابات ملتوی ہوجائیں گے، کڑا احتساب ہو گا، 62/63 کی چھلنی تو گویا امیدوارانِ نشست کے لیے پُل صراط کا کام کرے گی۔جس ملک میں معدودے چند منتخب روزگار کے ”آوے کا آوا“ گوڈے گوڈے کرپشن میں ڈوب چکا ہو ۔ غریب الوطن آئین مملکت خداداد پاکستان کی بے توقیری اوربے حرمتی سرِعام سرِ بازار ہو۔بری شہرت والے اٹھائی گیر، لٹیرے ، کمیشن خور، ٹیکس ، پارٹی چندہ چور ، دن دیہاڑے قوم کو لوٹنے والے ،سر عام شراب پینے والے ، ناچ گانے کی محفلیں سجانے والے ، برائی کی تہمت کو فخریہ تمغہ جوانمردی بنا کر پیش کرنے والے دندناتے پھریں۔ کاغذات نامزدگی جمع کرواتے ہوئے چہرے پر ملال نہ شکن نہ ندامت جبکہ بے شرمی کو شرم آجائے۔ کیاشق 62/63 آئین ِ پاکستان کے ماتھے پربدنماداغ ہے؟ عزت مآب چیف صاحب اگر یہ آئین کا دھبہ ہے تو اس کودھو ڈالیں۔سپریم کورٹ توناقابل عمل دفعات کو معطل کرنے پر قادر ہے۔
ریٹرنگ افسر کے سوالات یہ طے کرتے تو نظر آئے کہ ٹیکس چوری، نالائقی ، کرپشن سرکاری خزانہ کو حلوائی کی دکان بنانا ۔ بدکاری” سنجیدہ مسئلے“ نہیں بلکہ قومی ترانہ ، دعائے قنوت، نکاح نامہ، کیا62/63 کی تضحیک کا ساماں ہی اصل مسئلہ ہے۔ کیا ریٹرننگ افسر قرآن سامنے رکھ کر یہ سوال بھی پو چھ سکتے تھے کہ ”خدا کو حاضر ناضر جان کر کہو کہ آپ شق 62 (D,E,F,G)پر پورا اترتے ہویا نہیں“اور جھوٹی قسم پر توہینِ قرآن کے جرم میں پھانسی کی سزا مل جاتی تو امیدوار 24 ہزار کی بجائے 24 سو بھی نہ ملتے ۔
چند روزہوئے محتر م میاں شہاز شریف ایک ٹی وی پروگرام میں مبالغہ آرائی کی معراج پر تھے جس میں اپنے ڈیفالٹ اور دیانتداری کا سکہ جما رہے تھے یوں لگاجیسے بل گیٹس کی دولت مند بننے کی داستان سنا رہے ہوں۔ اگر ایسے انٹرویو کے اوپر چھلنی لگ جاتی تو شہباز شریف بمع پورا قبیلہ جیل کی کال کوٹھریوں میں نظر آتے ۔مگر الیکشن کمیشن کی چھلنیاں کیڑے مکوڑے اورکمی کمینوں کے لیے ہیں۔ اشک شوئی کے لیے ایک ادھ موٹا کٹا ضرور عملاًکرپشن کے ہاتھی تو چھنگاڑتے ،دندناتے اور ڈراتے نظر آتے ہیں۔
بدقسمتی بدقسمتی فقط بدنصیبی پچھلی 7 دہائیوں سے چھوٹی برائی بمقابلہ بڑی برائی صف آراء ہے۔کیا دونوں برائیوں کا قلع قمع کرنے کا کوئی نظام مشیت ِ ایزدی کا حصہ بھی ہو گا۔طریقہ واردات میں تو چھوٹے بڑے کی تمیزہے ہی نہیں بلکہ ہاتھ کی پانچ انگلیوں کی طر ح نوالہ کھاتے سب برابر۔قائدین جب بھی جلوہ افروز ہوتے ہیں وضاحتیں ہی دیتے نظر آتے ہیں۔ اللہ ایسے رزق سے محفوظ رکھے جس کی وضاحتیں قائدین بمع نو نہال بچوں کے ٹی وی پر آکر پیش کر رہے ہیں۔ تنخواہ دارلکھاری تو تنخواہ ہی جھوٹ کو بہترین پیکنگ میں پیش کرنے کی لیتے ہیں۔سپریم کوٹ جو آئین کی ماں ہے عزت مآب چیف جسٹس صاحب ساری شقیںآ پ کے بچوں کی مانند ہی توہیں۔کیا 62/63 آئین پاکستان کی ”کالی ککڑی “ بن چکا ہے۔کیا آپ کو نظر نہیں آرہا کرپشن کے موجد عفریت بن کر ہمیں دوبارہ نگلنے کو ہیں۔ کیا سپریم کورٹ کو اس بات کا علم نہیں کہ ساری سیاسی جماعتوں کے سربراہ اور مرکزی رہنما اربوں روپے کے اثاثوں کے مالک ہیں جو دورانِ اقتدار حاصل کیے گئے۔اور سارے مرکزی رہنماکرپشن ، بدعنوانی اور نااہلی کے الزامات کی زد میں ہیں۔
ران سسکنڈ کی کتاب "Way of the World" اور ریمنڈبیکر کی کتاب Capitalism of Achilles Heel میں ہمارے قائدین کی ہوشربا داستانیں موجودہیں۔ ایسے مواد سے صرفِ نظر کیوں؟ آئین نے تو بری شہرت کے لیے شق 62 کا ہتھیار دے کر عدالتوں کو لیس کر دیا ہے پھرقوم کو ایسے لٹیروں سے محفوظ کرنے کے لیے حرکت کیوں نہیں۔ چند کمزور ، نحیف جانوروں کی قربانی سے عید قربان کے واجبات ادا نہیں ہوتے۔ جب تک 62/63 کی تلوار کرپٹ لوگوں کا قتل عام نہیں کرتی۔ موجودہ جانچ پڑتال، صرف اور صرف جھوٹ ، فراڈ بلکہ بے سود ۔ ملک کا مستقبل ابھی سے فتنہ سامانی کا منظر پیش کر رہا ہے ۔ اگر آپ کے قدم جو ڈگمگا چکے ہیں۔ صحیح سمت میں نہ سنبھلے تو یہ مان لیا جائے گا کہ جمشید دستی کو سزا جعلی ڈگری پر نہیں بلکہ غربت اور لاچاری پر ملی ہے۔ وگرنہ وہ جنہوں نے جعلی ڈگریوں کے ساتھ فراڈ کی ایک داستان رقم کی ہے اورایسی قبیل کے باقی مجرم معاشرہ کا ناسور بن کر دندناتے نہ پھرتے۔
تحریک انصاف کو بھی اپنی صفوں سے نوسربازوں کو نکالنا ہوگا۔ وگرنہ اچھے لوگ بھی ساتھ پس کر رہ جائیں گے۔ کل محترم عارف نظامی صاحب وزیرِ اطلاعات و نشریات نے میڈیا قبیلہ کا ایک میلہ ظہرانہ سجایا ۔ میری شکل دیکھتے ہی صحافی برادری کی ایک کثیر تعداد سوالی کہ انعام اللہ خان کو ٹکٹ نہ دینے کی اصل وجہ ۔
گوکہ عمران خان اس کا سیر حاصل جواب دے چکے لیکن دانشور مطمئن ہوتے نظر نہیں آتے۔ میں نے ایک تفصیلی کالم پچھلے کئی ہفتوں سے تیار کر رکھا ہے جو اس دفعہ بھی برادرم بابر خان اورعمر فاروق اور انعام اللہ خان کی لجاحت کی نذر ہو گیا۔ البتہ بدقسمت انعام اللہ خان نے ہمت نہیں ہاری اور نہ وقاراور تکریم پر سمجھوتہ کیا۔ کیا حوصلہ ہے اس پٹھان کا تکلیف میں بھی صبر اور ہوش کا دامن تھامے ہے ۔کل منت سماجت کرکے پارلیمانی بورڈ کے سامنے دوبارہ اس طرح پیش ہوا کہ
آگے کسی کے کیا کریں دست ”شکایت“ دراز
وہ ہاتھ سو گیا ہے، سرہانے دھرے دھرے
مجھے نہیں معلوم بورڈ کے کان پر جوں رینگی یا نہیں البتہ جولائی 1935 میں ہیل سیلاسی لیگ آف نیشن (جینوا)کے سامنے ایتھوپیا کی حالت ِ زار پرتاریخی تقریر رقم کر رہا تھا تو 52 ممالک کے اکثر اہم ممبراپنے قلم سے صفحات پر بچوں والے پھول اور پتیاں بنا رہے تھے اور یہی تصویر ایک جرمن مورخ نے ہٹلرکے ملٹری کورٹس کی جب یہودیوں کو ہٹلر کی ٹرائل کورٹس میں اپیل کے لیے پیش کیا جانا تو وہاں بھی صورت کچھ ایسی کہ جب یہودی اپنی بے گناہی کی داستان ِ الم سنا رہے ہوتے تو نازی جرنیل پھول بوٹے بنا کر وقت گزاری کرتے ۔ یہ وقت ہی بتائے گا کہ انعام اللہ کی باتیں لیگ آف نیشن کے کانوں پر صدابصحرا ثابت ہوئیں یا تحریک انصاف کی بالغ نظری کو اپیل کر پائیں۔ NA-71,NA-72 شکست و ریخت کے عمل سے گزر ر رہا ہے،بہت نقصان ہو چکا۔کیا اس دفعہ ہوم گراؤنڈ پر 100 کا ہندسہ عبور کرنا ممکن ہوگا؟ اللہ نے دماغ سیاست کو چار چاند لگانے کے لیے دیا ہے۔ اللہ نہ کرے یہ چاند کو ماند کرنے پر استعمال ہو۔