16 دسمبر سے 5 جولائی تک

July 05, 2020

تحریر:ابرار میر۔۔۔لندن
ہم جب اپنے لڑکپن میں تھے تو ہمیں تحریک پاکستان کے اتار چڑھاؤ، اغراض و مقاصد اور اہم ترین کردار کے حامل قائدین کے بارے میں جاننے کی جستجو رہتی تھی اور اس میں بڑی دلچسپی ظاہر کیا کرتے تھے اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی تصاویر اور تقاریر کو بار بار استعمال کرتے تھے بلکہ ہم تو ا س کے ساتھ ساتھ 1857کی جنگ آزادی کے اوراق بھی پلٹتے رہتے تھے۔ا س وقت تو انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی (آئی سی ٹی) کا نام نشان تک نہیں تھا بس اخبارات، لائبریری اور ایک آدھ پی ٹی وی پر گزارا ہوتا تھا اور بزرگ صبح شام کسی نہ کسی طرح ان پہلوئوں پر بات کرتے رہتے تھے لیکن اب شاید دور ایسا آگیا ہے کہ ہماری نئی نسل کا ایک بڑا حصہ اپنی تاریخ اور ماضی جاننے میں بالکل دلچسپی نہیں لیتاحالانکہ آئی سی ٹی کی سہولت عام ہوچکی ہے۔16دسمبر1971کو قائداعظم کے پاکستان کو انڈیا کی سازشوں اور اپنوں کی بغاوت نے دو لخت کیا اور پانچ جولائی1977 کو پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم کی پہلی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا گیااور آج تک پاکستان سنبھل نہیں پایا اور ہچکولے پہ ہچکولے آتے جارہے ہیں۔ آج کی نئی نسل کے لئےآسان الفاظ میں سولہ دسمبر اور پانچ جولائی کے تعلق کو بیان کردیتے ہیں تاکہ وہ کچھ تو سمجھیں ورنہ تاریخی بانجھ پن تباہ کردے گا۔ سولہ دسمبر کو ملک دولخت ہوا اور مجیب سمیت انڈیا اور مکتی باہنی تحریک ذمہ دار ٹھہری پھر مجیب تو اپنا تھا اور حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں تودیگر کے نام اور کام بھی درج ہیں لیکن شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ٹوٹے پھوٹے ملک کے اداروں کو نہ صرف بچایا بلکہ مضبوط سے مضبوط کرتے چلے گئے لیکن اسی محسن پر بھی جھوٹے اور من گھڑت الزامات لگنے لگے۔ مجیب ادھر بنگال کا بانی بن گیا لیکن شہید ذوالفقار علی بھٹو نے قائداعظم کے بچے کچھے پاکستان کو ایک بار پھر قائداعظم کے اقوال اور اصولوں کی روشنی میں کھڑا کردیا۔ نئی نسل یہ بھی جان لے کہ مجیب کی نیت اور عمل سب کے سامنے آگئے اور اگر شہید بھٹو کی نیت میں کچھ غلط ہوتا تو وہ مجیب کی طرح خود اس حصے کے بانی بن جاتے۔ وقت تیزی سے گزرتا گیا اور قائدعوام، فخر ایشیا اور بانی چیئرمین پیپلزپارٹی نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور معیشت میں انقلابی اصلاحات، قانونی، زرعی اصلاحات، تعلیم، صحت، مذہبی امور، اقلیتی امور، خواتین اور انسانی حقوق سمیت ہر شعبے میں مثبت اصلاحات لاکر ملک کو تاریخی ترقی کی راہ پر رواں دواں کردیا۔ وہ عظیم لیڈر ایشیا، خلیجی ممالک سمیت یورپ اور افریقی ممالک میں بھی صف اوّل کا رہنما بن گیا۔پانچ جولائی1977 کو ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔قائدعوام نے اپنی پیاری بیٹی کو جیل سے یہ بھی لکھا کہ ہم ایٹم بم بنا چکے تھے اور ا س کا پہلا مظاہرہ اگست میں کرنا تھالیکن حکومت ختم کردی گئی۔ نئی نسل کو یہ سمجھنا ہو گا کہ حکومتیں تو آنی جانی شے ہیں تو پھر صرف شہید بھٹو کی حکومت کو ہی کیوں منفرد تناظر میں بیان کیا جاتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ ظاہرہے اس کوختم کرنے کے نقصانات اتنے بھیانک ہیں کہ آج تک پاکستان میں جمہوریت کو قدم جمانے نہیں دئیے گئے کہ بھٹو کی جمہوریت مخالفین کے لئے ناقابل قبول تھی۔ پرویز مشرف نے الطاف حسین جیسے کی پشت پناہی کی اور اللہ کا شکر ہے کہ دوسرا مجیب اپنی موت آپ ہی مرگیا ورنہ پاکستان ایک اور خطرے کے دھانے پر کھڑا ہوتا۔ پاکستان میں سولہ دسمبر اکہتر اور پانچ جولائی ستتر کے مضمرات پر ہر سال بات ہوتی ہے لیکن ملک و قوم کو جمہوریت پھر بھی نہیں دی جارہی۔ اس سیاہ دن کے سیاہ دھبے کو ہم ایک صورت میں کم کرسکتے ہیں کہ اس سے سیکھیں اور آئند ہ کے لئے ملک و قوم کو محفوظ رکھنے کے لئے آمریت کیخلاف نہ صرف نعرے لگائیں بلکہ انقلاب اور جمہوری انقلاب لائیں تب جاکر قائداعظم اور قائدعوام کی روحوں کو سکون پہنچ سکے گا اور شہید جمہوریت بینظیر بھٹو کا خون رنگ لائیگا اور اس کے لئےبلاول بھٹو جیسی نوجوان قیادت کی بھر پور حما یت کرنا ہوگی تاکہ سولہ دسمبر سے پانچ جولائی تک والا عوامی بھٹو ایک بار پھر پاکستان کو مضبوط کرے اور کشمیر کو آزادی دلائے۔