نسل پرستی کے خاتمے کیلئے نئے اقدامات کی ضرورت

July 09, 2020

تحریر:کونسلر حنیف راجہ ۔۔۔گلاسگو
یوں تو برطانیہ بھر میں نسل پرستی کے سرے غلاموں کی تجارت سے جاملتے ہیں جو صدیوں پر محیط ہے، صرف گلاسگو میں انسانی غلامی کا مکروہ کاروبار کرنے والوں کے نام سے اہم سڑکیں منسوب ہیں، ابھی تک ملک کے پارکوں میں ان لوگوں کے مجسمے لگے ہوئے ہیں، جنہوں نے جنوبی افریقہ سے لے کر انڈیا تک تباہی پھیلائی، اگر ہم اپنی اس افسوسناک تاریخ سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے تو کم از کم ان کو ہیرو کا درجہ تو نہ دیں۔ اگر ہم ایک مہذب اور انسانیت دوست قوم ہونے کے دعویدار ہیں تو نہ صرف ان سڑکوں کے نام فوراً تبدیل کریں بلکہ ان تمام مجسموں کو اتار کر عجائب گھروں میں رکھیں۔ پاکستانیوں اور ایشیائیوں کے ساتھ نسل پرستی کی تاریخ کوئی بہت زیادہ پرانی نہیں، برطانیہ کی کالونی ہونے کی وجہ سے پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں برصغیر کے باشندوں نے لاکھوں کی تعداد میں فوج میں شامل ہوکر مختلف محاذوں پر برطانیہ کے تحفظ کی جنگیں لڑیں اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے لیکن برطانیہ میں آباد ہونے کا سلسلہ بحری جہازوں پر ملازمت کرنے والے افراد سے شروع ہوا جن میں سے بعض یہاں پر ہی رک گئے لیکن بڑی تعداد میں امیگریشن دوسری جنگ عظیم کے بعد 50 اور 60 کی دہائی میں شروع ہوئی جب برطانیہ کی نہ صرف معیشت تباہ ہوچکی تھی بلکہ نوجوان نسل کی خاصی تعداد بھی جنگ میں کام آچکی تھی، چنانچہ کنزرویٹو حکومت سے برصغیر اور ویسٹ انڈینز سے آنے والے کارکنوں کی زبردست حوصلہ افزائی کی تاکہ ان کی فیکٹریاں پوری استعداد کار سے چلیں لیکن جلد ہی جب مشکل وقت گزر گیا تو ان افراد کو بوجھ سمجھا جانے لگا۔ 1968ء میں اینک بیائول جیسے نسل پرست افراد نے امیگرنٹس کے خلاف ایک بڑی مہم چلائی اور مستقبل کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہا کہ اگر پناہ گزینوں کو نہ روکا گیا تو برطانوی معاشرہ اس حد تک متاثر ہوگا کہ یہاں خون کی ندیاں بہہ جائیں گی۔ اسی مہم کے اثرات 70 اور 90 کی دہائی تک برطانیہ میں پاکی بیشنگ Paki Bashingکے نام سے کئی گروپ جن میں سکن ہیڈز، نیشنل فرنٹ، برٹش نیشنل پارٹی اور ابھی حال ہی میں انگلش اور سکاٹش ڈیفنس لیگ کے نام سے سامنے آئے، دائیں بازو کے متعصب میڈیا نے تمام ایشیائیوں کو پاکی Paki کا نام دیا اب یہاں پر پاکستانیوں اور دیگر ایشیائیوں کی چوتھی نسل جوان ہوچکی ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں کردار ادا کررہی ہے۔ وہ تعلیم، ذہانت اور محنت میں مقامی گوروں سے ہرگز کم تر نہیں۔ اب ظاہری اور کھلی نسل پرستی کے علاوہ خفیہ نسل پرستی زیادہ کردار ادا کرتی ہے جو ہر ادارے اور پورے معاشرے میں موجود ہے۔ پولیس کا کردار اس سلسلہ میں سب سے افسوسناک رہا ہے۔ بی بی سی ٹی وی نے ’’سیکرٹ پولیس مین‘‘ کے نام سے ایک ڈاکومنٹری بنا کر اس نفرت اور تعصب کو بے نقاب کیا جس کے بعد پولیس کے کئی آفیسران کو اپنی ملازمتیں چھوڑنا پڑیں۔نسلی اقلیتوں کے افراد کو لپ سروس کے طور پر سیاست اور زندگی کے ہر شعبے میں آگے بڑھ کر حصہ لینے کو کہا جاتا ہے لیکن جب وہ آگے بڑھتے ہیں تو ان کو قدم قدم پر نسل پرستی اور تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس وقت پوزیشن یہ ہے کہ 4 فیصد آبادی ہونے کے باوجود پورے اسکاٹ لینڈ میں اس وقت نسلی اقلیتوں کا کوئی جج نہیں، یونیورسٹیوں اور کالجوں کا کوئی وائس چانسلر یا پرنسپل نہیں، کسی اسکول میں کوئی ہیڈ ٹیچر نہیں، جیلوں کا کوئی گورنر نہیں اور اس بات کو اسکاٹش پارلیمنٹ کے ممبر انس سرور نے پارلیمنٹ میں بھی ہائی لائٹ کیا ہے، سٹی کونسلز میں اعلیٰ ملازمتوں پر کوئی کالا نہیں اور ویسے بھی ملازمتوں میں ان کا تناسب بہت کم ہے البتہ جیلوں میں ان کی تعداد آبادی کے تناسب سے بہت زیادہ ہے اور کہا جاتا ہے کہ جج کسی ایک جرم میں گورے کے مقابلے میں کالے کو زیادہ لمبی قید کی سزائیں دیتے ہیں۔ سیاست میں یہ حال ہے کہ اسکاٹش پارلیمنٹ بننے کے بعد پہلے دس سال تک نسلی اقلیتوں کا کوئی فرد ممبر نہ بن سکا، اب بھی ایڈنبرا اور ڈنڈی جیسی بڑی سٹی کونسلز میں کوئی رنگدار نہیں۔ برطانیہ بھر میں نسل پرستی کا یہ عالم ہے کہ شاید ہی نسلی اقلیتوں کا کوئی وزیر، لارڈ میئر، ممبر پارلیمنٹ، کونسلر یہاں تک کے بڑے سے بڑا کوئی ایسا پولیس آفیسر بھی ہو جو کہ نسلی امتیاز کا نشانہ نہ بنا ہو، اسکاٹ لینڈ میں چند ہفتے پیشتر سیاسی پناہ گزینوں کے ایک ہاسٹل میں چند کالے افراد کی اندرونی لڑائی کو ایسے دہشت گردانہ انداز میں پیش کیا گیا جس میں کوئی حقیقت نہ تھی اور میڈیا نے بھی ابتدائی طور پر غلط رپورٹس پیش کیں۔ بریگزٹ نے بھی نسل پرستی میں خاصا اضافہ کیا ہے، برطانیہ اب نہ صرف ہمارا بلکہ ہماری آئندہ نسلوں کا مستقل ملک ہے، ہمارا جینا مرنا اس کے لئے ہے، یہ معاشرہ اور ملک تبھی ترقی کرے گا، جب ہم سب مل کر کام کریں گے، ہم نے یہ نہیں دیکھنا کہ ہم کہاں سے آئے ہیں بلکہ یہ کہ ہم نے کہاں جانا ہے، ہماری منزل اب ایک ہے، اب ملک میں ایک نئی ’’میکفرسن رپورٹ‘‘ کی ضرورت ہے، برطانیہ کے کرمنل جسٹس کی تاریخ میں یہی ایک اہم رپورٹ تھی جس نے ملک میں تبدیلی کی راہ دکھائی اور مقتدر اداروں کو ان کا اصلی چہرہ دکھایا اس میں 70 سفارشات پیش کی گئیں، سٹیفن لارنس کے قتل کی تفتیش پر پہلی بار پولیس پر ادارتی نسل پرستی، پیشہ ورانہ اور اعلیٰ پولیس آفیسران کی ناکامی قرار دیا گیا تھا، ابھی حال ہی میں امریکہ میں جارج فلائیڈ کے پولیس کے ہاتھوں قتل پر برطانیہ بھر میں جو ردعمل ہوا ہے وہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ آبادی کی ایک بڑی تعداد حکومت اور سسٹم کی پالیسیوں سے مطمئن نہیں اور اس میں ایک بڑی ڈرامائی تبدیلی کی ضرورت ہے۔