کام سے ہی نام، باقی سب خام

July 12, 2020

تحریر:روبینہ خان۔۔۔ مانچسٹر
خاموش فلموں کےسپر سٹار چارلی چیپلن نے 1914 سے مزاحیہ اداکاری سے کام شروع کیا ۔ ایک سال کے اندر اتنی شہرت حاصل کر لی کہ مرد اس کی مونچھوں کا سٹائل اور کپڑوں کے انداز نقل کرنے لگے۔ ایک شہر میں لوگ ایک انداز سے ڈریس اپ ہو کر گھوم رہے ہو ں اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے چارلی چپلن سے مشابہت رکھنے والوں کا مقابلہ رکھ دیا گیا بہت سے برٹش اخباروں نے اس مقابلے کی رپورٹس شائع کیں مقابلے میں چارلی چپلن نے ازراہ مذاق خود بھی حصہ لیا۔دلچسپ بات یہ ہوئی کہ خود چالی چپلن یہ مقابلہ ہار گیا ۔ چارلی چپلن کی مشابہت رکھنے والوں میں وہ خود بیسویں نمبر پر آیا ۔ سوال یہ ہے کہ اگر مشابہت کے ساتھ اداکاری کا مقابلہ ہوتا تو نتیجہ کیا برآمد ہوتا۔ یقینا کوئی بھی ان جیسی اداکاری نہیں کر سکتا تھا انداز تو کوئی بھی کسی کا اپنا سکتا ہے لیکن اصل چیز کام ہوتا ہے۔پاکستانی اداکار وحید مراد کی مثال لے لیں ان کے ہیئر سٹائل اور کپڑوں کی نقالی کتنے ہی نوجوانوں نے کی ہوگی لیکن ہم ایک ہی وحید مراد کو جانتے ہیں جو سلور سکرین پر آیا اور چھا گیا۔ ان کی ‏جیسی ایکٹنگ اور ڈائیلاگ ڈلیوری ان کے ساتھ ہی ختم ہو گئی۔ وحید مراد کے ذکر کے ساتھ ہی جہاں ان کی شاندا پرفارمنسس یاد آتی ہیں وہاں اس بات کا دکھ ہوتا ہے کہ وہ ایک حادثے کا شکار ہوئے اور اس کے بعد ان کو فلموں میں کام کی آفرز بہت کم ہوگئی جس کی وجہ سے وہ ڈپریشن کا شکار ہوگئے اور دنیا سے رخصت ہوگئے۔اس میں کیا شک ہے کہ انسان اور خاص طور پر انٹرٹینمنٹ کی دنیا کے لوگ خوبصورت دکھنا چاہتے ہیں۔انسانی سائیکی ہے کہ خوبصورتی اور جوانی کے گزر جانے کا احساس ہضم کرنا آسان نہیں ہوتا یہ دنیا وقت گزرنے کے اعتبار سے جادو نگری محسوس ہوتی ہے۔اگر آپ اپنے اردگرد عمررسیدہ افراد سے پوچھیں کہ ان کو اپنی جوانی کے ایام کتنے یاد ہیں یا کس قدر پرانی بات لگتی ہے تو زیادہ تر لوگوں کا جواب ہوگا کہ، "ابھی کل ہی کی بات ہے" عمر کے ساتھ شکل و صورت کا تعلق تو بنتا ہے لیکن دل کا نہیں۔دل بوڑھا اس وقت ہوتا ہے جب دل کی شریانوں میں( خوش خوراکی یا بد احتیاطی کی وجہ سے) خون کا بہاؤ سست ہو جائے ۔ فلم انڈسٹری میں ایک عرصے تک ہیروئن کے طور پر کام کرنے والی خواتین کو کچھ عرصے کے بعد ہیروئن کی ماں کا رول کرنا ہی پڑتا ہے۔دنیا میں جہاں اور بہت سے غم ہیں وہاں پرظاہری شکل و صورت اور اس قبیل کی دوسرے درد سر موجود ہیں۔اس حقیقت کو مان لینے کے بعد ہی دنیا کاسمیٹک سرجری کی طرف بڑھ رہی ہے۔آنے والے زمانوں میں شاید انسان تا دیر خود کو خوبصورت رکھ سکے گا۔ یہ خواہش کسی ایک فرد کی خواہش نہیں ہر کسی کی خواہش ہے۔جوان اور خوبصورت رہنے کی خواہش نے بیوٹی انڈسٹری کو جنم دیا ہے اور اس میں بہت کام ہو رہا ہے۔کیسی کیسی فیشل کریمیں ،انجیکشنز اور جسم میں کالجن کمی کو پورا کرنے کے لیے ڈرنکس اور ٹیبلیٹ بنائی جارہی ہیں۔لمبی عمر کی دعا سب کرتے ہیں لیکن کوئی بوڑھا ہونا نہیں چاہتا۔کسی حد تک بڑھاپے کی اس" ہونی" کو ٹالا تو جا سکتا ہے۔کیونکہ آج کل صحت کے حوالے سے لوگوں میں بہت زیادہ آگہی موجود ہے لیکن آخر کب تک!!حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ، یہ زندگی دو دن کی ہے ایک دن تمہارے حق میں اور دوسرا دن تمہارے مخالف، جو دن تمہارے حق میں ہو اس دن غرور مت کرنا اور جو دن تمہارے مخالف ہو ،اس دن صبر کرنا۔اسمارٹ فونز پر گوگل آپ کو گزرے وقت کی تصویریں دکھا دکھا کر یاد دلاتا رہتا ہے.(نیرہ نور کی آواز میں کبھی ہم بھی خوبصورت تھے) جس سے صبر اور شکر کرنے کی مشق ہوتی رہتی ہے۔ آپ خوا ہش نہ بھی ہو تو اگلے آپ سے یہ مشق کروا لیتے ہیں۔سمجھنے والے جانتے ہیں کہ دنیا میں ہونے والے مدوجزر میں سے کس طرح سے نکلنا ہے، کون سا کام ہےجس کے دور رس نتائج نکلتے ہیں۔مستقل کام میں مصروف افراد اور شخصیات اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہتے ہیں اور عمر کے ہر حصے میں کام پر توجہ دیتے ہیں .کسی سے محض مشابہ ہونے سے یا باپ ،دادا کے بڑے ہونے سے کوئی بھی شخص اپنی زندگی میں کوئی بلند درجہ حاصل نہیں کر سکتاجب تک وہ اپنی خداداد صلاحیتوں کو دریافت کرنے کی زحمت نہیں کرتا۔زندگی کی اصل ٹریجیڈی یہ ہی ہے۔ ہماری زندگی میں ہم خود کو دوسروں کی نظر سے دیکھتے اور ویسا ہی بننے کی کوشش کرتے ہیں،ہم خود کیا ہیں ؟ ہم میں کیا صلاحیتیں ہیں؟ ہم کیا چاہتے ہیں؟ ہم کیا بننا چاہتے ہیں؟ ہم کس کام کو اپنے لئے پسند کرتے ہیں ؟ دنیا داری کے جھمیلے میں ہم اپنی طرف متوجہ ہی نہیں ہو پاتے۔ ثانوی اور سطحی چیزوں کی طرف توجہ دیتے ہیں ۔بچپن سے ہی یہ کام شروع ہو جاتا ہےہے فلاں کا بچہ فلاں اسکول میں جاتا ہے۔جیب اجازت نہ د ے تو بھی بھیجنا ہے۔خا لہ، چاچی، ماموں کے بیٹے نے اتنے نمبرز سے امتحان پاس کیا ہے ہمارے والےنے کیوں نہیں کیا۔ ان کے بچے اتنا کما رہے ہیں، کتنے کامیاب ہیں۔ یعنی خود کو اذیت دینے کا عمل پوری زندگی جاری رہتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ زندگی کو بہتر بنانا ہی، زندگی کا مقصد ہے لیکن خود کو بہتر بنانا !نہ کہ خود کو دوسروں جیسا بنانا!۔صحت، خوبصورتی سب ٹھیک ہےلیکن آپ کی اپنی ذات اس سارے عمل میں کہاں ہے ؟ نقل کرتے کرتے اصل کو گم نہ کر دیں ۔