خرافات میں کھوئی امت کو چیلنج

July 14, 2020

دین اسلام پر قائم، لیکن اس کی ٹوٹی پھوٹی وہ بھی جزوی مذہبی پریکٹس کرتی امت مسلمہ، آج جتنے بڑےحجم کے ساتھ موجود ہے اتنے ہی خرافات میں یہ کھوگئی۔گویا سائز تو بھاری بھر ہے۔ تاہم اب افاقے کےلئے ،اس سوال کے مکمل درست جواب سے آگاہی ناگزیر ہو گئی کہ مسلم ممالک کا حکمران طبقہ (ایٹ لارج)ہی امت مسلمہ ہے یا مختلف النوع ان ممالک کے عوام کی وہ بھاری اکثریت (مسلم آبادی ) بھی کسی کھاتے میں آتی ہے جو غربت و افلاس میں مبتلا، استحصال زدہ ، ’’آکسیجن ‘‘ کی کمی میں مبتلا اور چاندی سونے کے پنجروں میں موتی چگتی ہے ۔

قارئین کرام ! یہ سطور پڑھنے کے بعد آپ میں یہ سوچ آئی تو ہو گی کہ مائنس ون یا ٹو ، ان ہائوس چینج کے حساب کتاب، آٹا، شوگر مافیا، سبسڈی اسکینڈل، نیب کے عیب، عزیر بلوچ کی اپنی اپنی جے آئی ٹی رپورٹس، اپوزیشن کے مکمل نیب زدہ لیڈروں کیخلاف لاحاصل احتسابی ’’کارروائیاں‘‘ کے الیکٹرک کی دھما چوکڑی، مندر بنانا ہے یا جتنا بن گیا ڈھانا ہے !

سرینڈر مودی سے متاثر ہو کر اپنے میڈیا کو مرضی کا نیشنلسٹ بنانے کی مہم جوئی اور حکومتی صفوں میں قابل احتساب کا احتساب وغیرہ جیسے حالات حاضرہ کے سپائس کوٹڈ موضوعات میں یہ ’’آئین نو‘‘ امت کے نفاق اور خرافات جیسے گھسے پٹے موضوع کی طرف کہاں آ گیا۔

جناب ! آیا نہیں لایا گیا ہوں ۔عالمی سیاست مذہبی رنگ پکڑ رہی ہے اور ہدف فقط پہلے سے ہی خرافات میں ڈوبی، بیمار حکمرانوں کی بیمار رعایا بھی برداشت نہیں ۔بس ہمارے نام ہی تو اسلامی ہیں، جو تھوڑا بہت مذہب پریکٹس کرتے ہیں، اس میں بھی ہمارے نفاق کا ساماں اسلامو فوبیا میں مبتلا اور حالت میں مسلمانوں سے دشمنی قائم رکھنے والوں کی خواہش سے کہیں بڑھ کر نہیں ۔بوسنیا میں سربیائی بھیڑیوں کے قتل عام کے بعد جب بہتی خونی دھاروں کے ہمسایوں تک جانے کا خدشہ پیدا ہوا یورپی ضمیر خدشات سے جاگنے لگا تھا، جو کچھ فلسطین، کشمیر،افغانستان، عراق و ایران (بحوالہ جنگ) شام، لیبیا و مصر اور میانمر میں ہوتا رہا اور ہو رہا ہے، اس پر امت مسلمہ کی مکمل تقسیم بے بسی اور حالت زار، عالمی سیاست کو مذہبی رنگ میں رنگنے والے شدید نسل پرست، کٹر مذہبی اور وسعت پذیری میں مبتلا اسرائیل، بھارت کو انتخابی سیاست سے ہندوتوا کی راہ پر چڑھانے والوں، ابراہم لنکن کے امریکہ کو بذریعہ ووٹ وائٹ سپر میسی میں جھونکنے والوں کی تسلی نہیں ہو پا رہی ۔وہ کشمیر اور فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں آبادی کا تناسب بدلنے، بھارت کے 26کروڑ مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے، بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے اور امریکی وائٹ سپرمیسی کے سائے میں مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی بنانے کےلئے پوری عالمی سیاست کا رنگ بدلنے کو ہی اپنی بین الاقوامی سیاست کا محور نہیں سمجھ رہے ؟اسرائیل کی بھارتی مقبوضہ کشمیر میں تحریک حصول حق خودارادیت کو کچلنے کےلئے تسلی فقط پیلٹ گن کی سپلائی اور اِس کےننگےاستعمال سے نہیں ہوئی، وہ اب پاکستان کے خلاف براہ راست بھارت کا جنگی پارٹنر بن چکا ہے ۔

وہ الگ بات ہے کہ پاکستان کو دو مذہبی قیادتوں کے اس امن دشمن گٹھ جوڑ کو مکمل بے نقاب کرنا ہی نہیں آ رہا نہ اسرائیل کو سمجھانا کہ وہ جغرافیائی دوری کو ہی اپنی ڈھال نہ سمجھے۔اگرچہ امریکہ کی ووٹ کی طاقت میں تبدیل ہونے والی وائٹ سپرمیسی، اسرائیل اور بھارت کی مذہبی جنونی قیادتوں کے لئے ان کے اسلام دشمنی میں ذہنی اور عملی بڑا سہارا تو بن گئی ہے لیکن امریکہ امریکہ ہے، جس طرح ڈیل آف سنچری امریکہ کی کہیں بھی موجود اور امریکی وائٹ ہائوس پر اثرانداز ہونے والی طاقت کی COLD OF INTELLECTUAL CALCULATIONSہوتے ہوتے رک گئی، وہ اب بھی امریکہ میں ’’ذمے داری ‘‘ کے بڑے عنصر کی نشاندہی کر رہی ہے ۔وگرنہ اسرائیل کے خوابوں کے برعکس یہ خارج ازامکان نہیں تھا کہ اگر مذہبی جنونی اسرائیل کی نازبرداری میں صدر ٹرمپ اپنے داماد کے ہوم ورک سے ہونے والی ڈیل آف سنچری پر کچھ عرب قیادتوں کے انتباہ خصوصاً شاہ اردن کے اور ڈیل کے اعلان کو بیمار امت کو کبڑے کی لات کے طور پر اپنے حساب کتاب میں نہ لاتے تو عالمی سیاست کا رنگ دنوں میں کچھ بھی ہو سکتا تھا۔اسرائیل، بھارت اور امریکی کی وائٹ سپرمیسی کا تگڈم غلط سوچ رہا ہے کہ معاملہ فقط وسیع تر تباہی پھیلانے والے اور دیگر جدید ترین ہتھیاروں سے ہی برتری حاصل کرنے کا ہے۔ یورپین بہت سیانے ہیں تاریخ کو زیادہ جانتے ہیں تبھی تو اس کے ایک ہزار سے زیادہ پارلیمینٹرینز نے ڈیل آف سنچری سے قبل مخالفت کا موقف واضح کرکے خود کو امکانی احتجاجیوں کے رجسٹر میں رجسٹرڈ کرا دیا ۔بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے مندوب ڈونی ڈینن نے کہا تو ہے کہ ’’ہم مقبوضہ علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کےلئے عالمی قوانین اور فیصلوں سے زیادہ اپنے مذہبی صحیفے کو دیکھتے ہیں ‘‘لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ 21ویں صدی میں بھی ہندوتوا اور نیل تا فرات گریٹر اسرائیل کے قیام کے سامنے بیمار مسلم امت اس لئے خاموش ہو جائے کہ اسلحے کی طاقت بین الاقوامی قوانین ، فیصلوں اور رائے عامہ سے زیادہ ہے۔

اصل چیلنج مسلم امہ کو ہے جسے غلام بنانا مقصود ہے وہ سوچے کے اسے فقط حکمرانوں کے ’’رحم وکرم‘‘ پر رہنا ہے یا اپنی آزادی و حرمت کا بھی کوئی اہتمام کرنا ہے؟ یہ سوال آج پھر جمال الدین افغانی کی علمی کوششوں کی یاد دلاتا ہے، جس سے خرافات میں کھوئی امہ بالکل بے خبر ہو گئی۔ہے جو کوئی یاد دلا دے کہ ہمیں کیا کرنا ہے ؟ وماعلینا الالبلاغ

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)