سر زمینِ لداخ سے اُبھرتے ہوئے وسیع امکانات

July 17, 2020

مسلمہ اصول تو یہی ہے کہ کسی ملک یا ریاست کی داخلی طاقت اس کی خارجہ حکمتِ عملی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے لیکن تاریخ میں ایسے واقعات بھی ملتے ہیں جب خارجی حالات داخلی معاملات میں حیرت انگیز انقلاب لے آتے ہیں۔ پاکستان ہی کی مثال دیکھیے۔ وہ جب وجود میں آیا تو اس کے مالی حالات بڑے دگرگوں تھے۔ بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو نے پیش گوئی کر دی تھی کہ (خاکم بدہن) پاکستان صرف چھ ماہ تک قائم رہ سکے گا مگر ہوا یہ کہ 1949میں کوریا کی جنگ چھڑ گئی اور عالمی منڈی میں پاکستانی زرعی اجناس کپاس اور پٹ سن کی مانگ بڑھ جانے سے اس کے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے بڑھتے گئے اور اس کی کرنسی کی قدر بھارت کے مقابلے میں زیادہ مستحکم ہوگئی۔

آج ہمیں پھر اسی طرح کا مرحلہ درپیش ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے داخلی معاملات سنگین خطرات میں گھرے ہوئے ہیں۔ سب سے بڑا بحران گورننس اور ڈیلیوری سسٹم کا ہے اور تاریخی شعور سے بےبہرہ لوگ صدارتی نظام کی صدائیں لگا رہے ہیں۔ خوش بختی سے ہمارے خطے میں حیرت انگیز واقعات رونما ہو رہے ہیں جو پاکستان کے لئے وسیع امکانات کی بشارت دے رہے ہیں۔ بھارت کی انتہائی متعصب قیادت جس نے طاقت کے نشے میں 5اگست 2019کو بڑی عیاری سے مقبوضہ جموں و کشمیر اور لداخ کے علاقے ایک دوسرے سے کاٹ کر انڈین ٹیریٹری میں شامل کر لیے تھے، اس کے خلاف عالمی سطح پر ایک ردِعمل منظم ہو رہا ہے اور ایشیا میں ایک نئی صف بندی دیکھنے میں آ رہی ہے۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھارتیہ جنتا پارٹی کا علم اٹھائے ہوئے ہیں جو آر ایس ایس، آریہ سماج اور جن سنگھ کی جان نشیں ہے۔ ان کا اولین مقصد کابل سے جکارتہ کے وسیع وعریض علاقوں پر مہا بھارت کا راج قائم کرنا اور مسلمانوں سے اپنی 800سالہ غلامی کا انتقام لینا تھا۔ اسی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے گجرات کے وزیراعلیٰ مودی نے نہتے مسلمانوں کا قتلِ عام کیا جس کی بنا پر اس کا امریکا میں داخلہ بند ہو گیا تھا، لیکن جب سفید فام نسل کی برتری کا نعرہ لگا کر مسٹر ٹرمپ 2016کے انتخابات میں برسر اقتدار آ گئے، تو انہوں نے اپنے پہلے پالیسی بیان میں پاکستان کو سبق سکھانے اور بھارت کو جنوبی ایشیا کا چوہدری بنانے کا اعلان کر دیا۔ نریندر مودی اس اعلان کے بعد اپنے جامے سے باہر ہو گیا اور یہ ثابت کرنے میں جت گیا کہ وہ پاکستان کو بھی مسخر کر سکتا ہے اور چین کو بھی زک پہنچانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اسی جنونی کیفیت میں بھارتی قیادت نے 27فروری کو اپنےجنگی طیاروں کو پاکستانی حدود میں داخل ہونے کا حکم دیا، لیکن پاکستان کے شیر دل ہوا بازوں نے دشمن کے دونوں طیارے مار گرائے اور اس کا ایک ہوا باز بھی گرفتار کر لیا۔ اس پر بھارت کی بڑی جگ ہنسائی ہوئی اور اس کی چودھراہٹ ڈگمگانے لگی۔ گیدڑ مودی نے شیر کی کھال پہن کر لداخ کی گلوان وادی میں چین پر چڑھائی کر دی، مگر اسے بڑی ذلت کے ساتھ پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ اس کے بیسیوں فوجی مارے گئے اور سینکڑوں گرفتار ہوئے۔ لداخ میں اس جھڑپ نے چین کو تنازع کشمیر کا ایک فریق بنا دیا ہے کیونکہ لداخ تاریخی طور پر چین کا حصہ رہا ہے۔ اس کے علاوہ چین نے 1962میں بھارت کے ساتھ جنگ میں ’اکسائی چن‘ کا علاقہ واپس لے لیا تھا۔ اب سنکیانگ کو تبت سے ملانے والی ہائی وے اسی علاقے سے گزرتی ہے اور سی پیک کا سفر بھی یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ چین بحیرہ عرب تک براہ راست رسائی چاہتا ہے، کیونکہ ساؤتھ چین سی کا امریکا اور جاپان نے ایک طرح سے محاصرہ کر رکھا ہے اور بحیرہ ہند میں بھارت جہاز رانی کے راستے میں مشکلات کھڑی کر سکتا ہے۔

پاکستان اور چین کی مثالی دوستی نئے امکانات کی ایک وسیع دنیا دریافت کر سکتی ہے۔ یہ دونوں ملک سی پیک میں مزید وسعت پیدا کرکے افغانستان کو بھی اس میں شامل کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے لیے سب سے بڑا امکان یہ پیدا ہوا ہے کہ مسئلہ کشمیر ایک بار پھر عالمی سطح پر اجاگر ہوتا جا رہا ہے اور چین اس کا فریق بن گیا ہے جسے ہم بہت بڑی جوہری تبدیلی سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ لداخ میں چین اور بھارت کے درمیان حالیہ جھڑپ نے عالمی طاقتوں کے مابین توازن بگاڑ دیا ہے۔ یہ اسی کا ثمر ہے کہ ایران نے بدلتے ہوئے حالات میں بھارت کے بجائے چین کو شراکت دار بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ 2016میں ایران اور بھارت کے درمیان معاہدہ ہوا تھا کہ بھارت چابہار سے زاہدان تک ریلوے لائن بچھانے میں تعاون کرے گا لیکن اس نے مختلف حیلےبہانوں سے اپنی ذمہ داری نبھانے سےگریز کیا۔ چنانچہ ایران نے چین کے ساتھ 25سالہ معاہدہ کر لیا ہے جس میں تعاون کے نہایت اہم شعبے شامل ہیں۔

اس معاہدے کے تحت چین ایران میں 400ارب ڈالر کی چینی کرنسی میں سرمایہ کاری کرے گا اور چابہار کے علاوہ اس مقام پر بندرگاہ بھی تعمیر کی جائے گی جو دنیا کے 80فیصد تیل کی گزرگاہ ہے۔ ایران اور چین کے قریب آ جانے سے پاکستان کی مغربی سرحدیں بھی محفوظ ہو جائیں گی اور گوادر اور چابہار کی بندرگاہیں ایک دوسرے کے لیے مددگار ثابت ہوں گی۔ انہی دنوں بھارت کو ایک اور واقعے نے ہولناک بدنصیبی سے دوچار کر دیا ہے۔ نیپال دنیا کی واحد ہندو ریاست ہے جس نے بھارت کو آنکھیں دکھانا شروع کر دی ہیں اور یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ دیوتا رام کا تعلق بھارت سے نہیں نیپال سے تھا اور ان کی سلطنت اسی علاقے میں واقع تھی۔ چین ایران معاہدے نے بھارت امریکی گٹھ جوڑ کی بساط بالکل الٹ دی ہے اور پاکستان کے لیے لامحدود امکانات پیدا کر دیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے، کیونکہ اس وقت ہمارا حال یہ ہے کہ ہم واقعات کی حساسیت اور نزاکت سے نابلد معلوم ہوتے ہیں۔