قومی اسمبلی اجلاس ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگیا

July 21, 2020

قومی اسمبلی کا اجلاس ایجنڈے پر کارروائی کے بغیر ہی ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگیا۔

پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے کہا کہ مہربانی کرکے قادر پٹیل کو پوائنٹ آف آرڈر پر بولنے دیا جائے۔

ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے اس پر کہا کہ ایسا نہیں ہوگا، سب اپنی باری پر بولیں گے، زبردستی کسی کو بھی نہیں بولنے دوں گا، میں ایوان کو صحیح طریقے سے چلا رہا ہوں۔

اس پر پیپلز پارٹی اراکین نے ڈپٹی اسپیکر کے رویے پر شدید احتجاج کیا اور رولز کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔

ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ رولز پڑھ کر آتا ہوں، مجھے اس حوالے سے نہ سمجھائیں۔

اپوزیشن نے سینئر صحافی مطیع اللّٰہ جان کے اغوا کے خلاف ایوان سے اور صحافیوں نے پریس گیلری سے واک آؤٹ کیا۔

حکومتی رکن کے الزامات پر جواب کا موقع نہ دیے جانے پر اپوزیشن نے زبردست ہنگامہ آرائی کی جس پر ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس ملتوی کردیا۔

قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی صدارت میں شروع ہوا، نوید قمر اور خواجہ آصف نے سینئر صحافی مطیع اللّٰہ جان کے اغوا کے معاملے پر کہا کہ سچ کو اس طرح سے شکست نہیں دی جاسکتی۔

تحریک انصاف کے رکن عالمگیر خان نے کہا کہ کراچی میں ٹرانسپورٹرز ایس او پیز پر عملدرآمد کے لیے تیار ہیں لیکن سندھ کے وزیر ٹرانسپورٹ کو خرچہ چاہیے۔

عالمگیر خان کی تقریر کا جواب دینے کے لیے قادر پٹیل کو موقع نہ ملا تو اپوزیشن ارکان نے شور شرابہ شروع کر دیا، جس پر ڈپٹی اسپیکر نے قادر پٹیل کو بات کرنے کا موقع دینے سے صاف انکار کردیا۔

اپوزیشن کے مسلسل شور کے باعث ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس کی کارروائی میں نماز عصر کے وقفہ کیا، اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو قادر پٹیل نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے ثابت کردیا کہ نیب نیازی گٹھ جوڑ سے حکومت چل رہی ہے۔

وفاقی وزیر مراد سعید اٹھے تو اپوزیشن نے پہلے شور شرابہ شروع کیا اور بعد میں ایوان سے نکل گئے، جس کے بعد آغا رفیع اللّٰہ نے کورم کی نشاندہی کردی، کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس کی کارروائی جمعرات کی صبح گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی۔