گڈ گورننس کونسل، دیر آید بھی درست نہیں

August 01, 2020

خبر ہے کہ پنجاب حکومت گڈ گورننس کونسل کا قیام عمل میں لائی ہے۔ پبلک پالیسی سازی اور جاری زیر تنقید حکمرانی کی اپروچ پر لچک پیدا کرنے کی حد تک تو بزدار حکومت کا یہ اقدام قابلِ تعریف ہے لیکن عملاً دیر آید بھی درست نہیں ہے۔ پھر مثالی درجے کی بیڈ گورننس جیسا ڈیزاسٹر ہوگیا۔ وزیراعلیٰ بزدار کی سرکردگی میں قائم ہونے والی ’’پنجاب گڈ گورننس کونسل‘‘ کا ڈھانچہ 6صوبائی وزراء اتنے فقط حکومتی اراکینِ اسمبلی اور کونسل کے ایک سیکرٹری پر مشتمل ہے۔ صوبے کے اسی بلند درجے کے انتظامی و پارلیمانی ڈھانچے (گڈ گورننس کونسل) میں بھی ’’بیڈ گورننس‘‘ کی تشخیص واضح ہے۔ گورننس کے حوالے سے پنجاب حکومت پر دو سالہ تنقید اپوزیشن اور میڈیا تک محدود نہیں، حکومت اور تحریک انصاف کے خیر خواہ بھی اس کی نشاندہی کر رہے ہیں اور مایوس ہیں۔ گویا کونسل کی تشکیل کا یہ اہتمام (ڈیزاسٹر) مریض کا اپنا علاج خود کرنے کے مترادف ہے۔ کونسل تو ایک مشاورتی باڈی ہونی چاہئے جو متعلقہ موضوعات، مسائل و معاملات اور اِن کے حل پر اپنی ہائی کیپسٹی کے مطابق مشاورت دے اور شعبوں میں منتظمین کی ڈائریکشن درست اور آپریشنل کوالٹی کو بڑھا کر انتظامی اقدامات کو عوام الناس کے حق میں نتیجہ خیز بنائے۔

امر واقع ہے کہ ہمارے حکومتی سیٹ اپ میں مشاورت کا زاویہ نگاہ مکمل سیاسی اور روایتی انداز کا ہے۔ مشیر (ایڈوائزر) کسی مخصوص شعبے کا اعلیٰ درجے پر نالج ایبل، اس کی پریکٹس کا مکمل تجزیہ کرنے کا اہل اور کنسلٹینسی کا وسیع تجربہ رکھنے والا ٹیکنوکریٹ ہوتا ہے لیکن ہماری حکومتیں فقط اپنی سیاسی ضرورتیں پوری کرنے، حکمران اپنے حصار کو بااعتماد رکھنے اور ان سے اپنے مطلب کا کام نکلوانے کے لئے آمادہ معاونین کو مشیر جیسے ویلیو ایبل ہیومن ریسورس کا درجے دے کر انہیں مختلف اور مکمل ٹیکنیکل شعبوں کے مشیر کا درجہ دے دیتے ہیں جو مطلوب معیار کا مشورہ دینے کے ذرا اہل نہیں ہوتے، سو یہ مشیر نِرے درباری بن کر خود اپنے مفاد یا بڑے بڑے انٹرسٹ گروپس کا اثر قبول کرکے وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کو یا تو پبلک انٹرسٹ سے متصادم تک مشاورت دیتے رہتے ہیں یا سفید ہاتھی ثابت ہو کر بھی بیڈ گورننس کا باعث بنتے ہیں۔ کسی بھی حکومت نے مشیروں کی خدمات لینے سے پہلے مشیر (جو وزیر کے درجے پر بھی آ جاتے ہیں) کی تقرری کے TORsنہیں بنائے۔ کچھ کیسز میں تو یہ ناگزیر ہو جاتا ہے کہ ہر حال میں متعلقہ شعبے کا ہائی فائی ہی مشیر مقرر کیا جائے، تاہم بنتا وہ بھی بغیر TOR کے ہی ہے، صرف اپنی پیشہ ورانہ شہرت پر لیکن اسے اپنا پرفارمنس آڈٹ کرانے کا نہ کرنے کا پابند کیا جاتا ہے۔

جہاں تک گڈ گورننس کے لئے مشاورت کا تعلق ہے اس کا متعلقہ ڈسپلن مینی جیریل/ ایڈمنسٹریٹو سائنسز ہیں، جو عوام دوست پالیسی اور فیصلہ سازی اور مکمل اور معیاری عملدرآمد کی ضامن ہوتی ہیں اور نشاندہی کرتی ہیں کہ گڈ گورننس کے تقاضے پورے کرنے کے لئے انٹرڈسپلنری اپروچ اختیار کرتے ہوئے کون سےشعبے کے کس معیار کے ماہرین کی خدمات لی جائیں۔ ’’آئین نو‘‘ میں پاکستان میں ہر نئی حکومت کی تشکیل اور آغاز پر گڈ گورننس کو یقینی بنانے کے لئے ہر محکمے اور وزارت کو متعلقہ علم کے ساتھ جوڑنے اور جدید ٹیکنالوجی کی سپورٹ پر زو ر دیا جاتا رہا ہے لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ ہنوز دلّی دور است۔

بزدار حکومت نے اپنا رخِ زیبا گڈ گورننس کی طرف کیا ہے تو اس کی Consumption کے لئے اتنا عرض ضرور ہے کہ وہ یہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ ’’گڈ گورننس‘‘ کے یہ 8لازمے (Essentials)ہیں:

٭ شفافیت (Transparency) انتظامی امور، قانون قاعدے کے مطابق بالکل واضح اور ان کی معلومات متعلقین اور عوام الناس کی پہنچ میں ہوں۔

٭ذمے دارانہ اور ہمدردانہ طرز عمل (Responsiveness)عوام الناس اور سائلین کی خدمت اور ضروریات پوری کرنے پر انہماک اور انہیں جلد سے جلد نمٹانے کا جذبہ۔

٭اتفاق رائے (Consensus) حکومتی فیصلوں اور اقدامات کو ممکنہ حد تک متفقہ بنانے کی مخلص اور عملاً کوشش۔

٭Equity۔ سب سے برابری کا سلوک۔

٭جامعیت (Inclusiveness) انتظامی کاموں کو ادھورا نہیں چھوڑنا بلکہ ہر لحاظ سے ہر پہلو واضح اور مکمل ہو۔

٭فرائض کی انجام دہی میں مستعدی کا مظاہرہ (Efficiency) جو کام کے نتائج سے ٹیسٹ سے ہو سکے۔

٭احتساب (Accountibility)ہو یا نہ ہو، زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں، پوری قوم جان گئی ہے کہ یہ کیا ہے؟ اور کیسے اور کن کا ہونا چاہئے؟

٭ Participatory approach۔ پالیسی، فیصلہ سازی اور عملدرآمد کے عمل میں Intended beneficiaries جن کی ترقی مقصود ہے) کی زیادہ سے زیادہ شرکت کو ممکن بنانا۔

یہ سارے لازمے پورے کرنے کے لئے ہر حکومت عوامی خدمات کے مختلف شعبوں کو متعلقہ علوم سے جوڑنے کی ہمیشہ محتاج ہوگی۔ ملین ڈالر ٹپ یہ کام ای گورننس اور مطلوب کمیونیکیشن سپورٹ سسٹم سے ہی آسان ہو سکتا ہے۔ وما علینا الا البلاغ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)