یارب! میرے وطن کی یہ کھیتی ہَری رہے....

August 09, 2020

تحریر: نرجس ملک

مہمان سہیلیاں: اُسوہ، عزوبہ

ملبوسات: شاہ پوش

آرایش: دیوا بیوٹی سیلون

عکّاسی: عرفان نجمی

لے آؤٹ: اسرار علی

گرچہ اِمسال دیگر اہم دِنوں، تہواروں کی طرح ’’عیدِ آزادی، جشنِ خُود مُختاری‘‘ کا دن بھی کسی حد تک کورونائی وَبا میں لِپٹا ہوا ہی آرہا ہے، مگر صد شُکر کہ وہ پہلے جیسے حالات نہیں۔ عالم گیر وَبا کا زور ہی نہیں ٹُوٹا، خوف بھی خاصا کم ہوگیا ہے۔ مُلکِ عزیز سے متعلق دنیا بھر، خصوصاً عالمی ادارۂ صحت کے اندازے کچھ زیادہ درست ثابت نہیں ہوئے۔ شاید نیلی چھتری والے کو سبز ہلالی پرچم تلے رہنے والوں کی کم مائیگی و بےبسی پر رحم آگیا ہے، وگرنہ ہم نے تو ہرگز کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی تھی۔ ایک ایسا خطرناک، موذی وائرس جس نے دنیا کی سُپر پاورز تک کو ہلا کے رکھ دیا، ہم نے اُسے بھی مذاق، کھیل تماشا ہی سمجھا۔

حالاں کہ اس وَبا کے بوجھ سے جہاں بڑی بڑی معیشتوں کی کمر جُھک گئی ہے، ہماری تو پہلے ہی سےڈانواں ڈول معاشی نیّا جیسے مستقل ہچکولوں کی زد ہی میں آگئی۔ وہ منیر نیازی نے کیا کہا تھا ؎ اِک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو… مَیں ایک دریا کے پار اُترا تو مَیں نے دیکھا۔ ہائے، ہمارا ’’نیا پاکستان‘‘، ہماری نام نہاد ’’ریاستِ مدینہ‘‘… اہلیانِ کراچی نے تو چند روز قبل جس طرح ابرِ رحمت کو سخت ترین زحمت، بلکہ حد درجہ اذّیت بنتے دیکھا، اور کہیں شہر کا کوئی والی وارث، (نہ نیا، نہ پرانا) دکھائی نہیں دیا، تو ہماری تو بس یہی دُعا ہےکہ یااللہ! ہمیں کسی طرح ہمارا پُرانا، قائد اعظم کا پاکستان اور شہرِ قائد، روشنیوں کا شہر، کراچی ہی واپس لوٹا دے، تو ہمیں اور کچھ نہیں چاہیے۔

ایک طرف پچھلے 7، 8 ماہ سے کورونا نے مَت ماری ہوئی ہے، اُس پر بارش اور عیدِ قرباں کے بعد یہ ہر طرف پھیلی گندگی، غلاظت، آلائشیں اور تعفّن… ایسے میں کوئی خُوش بو جیسی بات کرے، تو کیسے کرے…؟؟حالاں کہ دنیا میں سب سے زیادہ مِلّی و قومی نغمے لکھنے، گانے کا اعزاز ہمیں ہی حاصل ہے، مگر کمال تو تب تھا کہ جب یہ رسیلے بول، پھول بن کر صرف لَبوں ہی سے نہ جَھڑتے، کسی صُورت عمل میں بھی دِکھائی دیتے۔

احمد ندیم قاسمی کی وہ لازوال مناجات ویسے بھی دل و دماغ سے محو نہیں ہوتی، لیکن ماہِ اگست میں تو خصوصیت سے درِ دل پہ با قاعدہ دستک دینے لگتی ہے کہ ؎ ’’خُدا کرے میری ارضِ پاک پر اُترے…وہ فصلِ گُل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو…یہاں جو پھول کِھلے، وہ کِھلا رہے برسوں… یہاں خزاں کو گزرنےکی بھی مجال نہ ہو… یہاں جو سبزہ اُگے، وہ ہمیشہ سبز رہے…اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو… گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں… کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو… خُدا کرے نہ کبھی خَم، سرِ وقارِ وطن …اور اُس کے حُسن کو تشویشِ ماہ و سال نہ ہو…ہر ایک خُود ہو، تہذیب و فن کا اوجِ کمال… کوئی ملول نہ ہو، کوئی خستہ حال نہ ہو… خُدا کرے کہ میرے اِک بھی ہم وطن کے لیے… حیات جُرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو۔‘‘بے شک یہ ہر محبّ ِ وطن کے دل سے نکلی صدا ہے، لیکن صدائیں بھی تب ہی سُنی جاتی ہیں، جب اُن پر یک دل، یک سُو ہو کر ’’لبّیک‘‘ کہا جائے۔

لگ بھگ پون صدی سےہم دنیا کے نقشے پر ایک آزاد مُلک کی حیثیت سے موجود ہیں۔ اس عرصے میں ہم نے کیا کھویا، کیا پایا؟ یہ بحث تو ہر سال ہی کسی نہ کسی انداز سے چِھڑ جاتی ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ خالی خولی بحث مباحثے سے بھی کیا حاصل، بات تو اُس دن بنے گی، جس دن محض جھنڈے لہرا کے، جھنڈیاں ٹانک کے، منڈیروں پہ چراغ، دیے جلا کے، ملّی نغموں کی دُھنوں پہ رقص ہی نہیں کیا جائے گا، یہ عزمِ صمیم بھی کچھ اور راسخ ہوگا کہ یہ جو آج اقبال کا خواب، قائد کی تعبیر ہمارے سپرد ہے، آنے والی نسلوں کو اس سے کہیں بہتر حالت میں سونپی جائے گی۔ وہ کیا ہے ناں ؎ موج بڑھے یا آندھی آئے، دیا جلائے رکھنا ہے… گھر کی خاطر سو دُکھ جھیلیں، گھر تو آخر اپنا ہے۔ تو اپنے گھر کو بہر طور بچانا، سنبھالنا، بنانا سنوارنا تو ہم ہی نے ہے۔ باہر سے جو آئے گا، وہ کسی مفاد کی خاطر یا نقب لگانے ہی آئے گا۔ گھر کی صفائی ستھرائی، تعمیر و ترقّی کے لیے تو آنے سے رہا۔

ہربار کی طرح اس بار بھی اپنی طرف سے تھوڑی سی تحریک، مہمیز کی خاطر ہم نےآپ کے لیے یہ اُجلی سی’’جشنِ آزادی اسپیشل بزم‘‘ سجائی ہے۔ گو، عمومی طور پر گزرے سالوں سا جوش و خروش، رونق میلہ نہیں، خصوصاً تعلیمی اداروں کی بندش کے سبب اسکولز، کالجز میں ہونے والی تقاریب کی تیاریاں نظر آرہی ہیں، نہ ہی ماحول میں سبز و سفید رنگ اُس طرح گُھلا ہے، جو اس ماہ کا طرّہِ امتیاز تھا، لیکن جذبات و احساسات بہت خالص ہیں کہ اس عالم گیر وبا نے کم از کم پوری قوم کو یہ ضرور باور کروادیا ہے کہ ہم پاکستانیوں کا اگر دنیا میں کوئی ٹھور ٹھکانا ہے، تو وہ یہ ’’دھرتی ماں‘‘ ہی ہے۔ تو اس دلی تمنّا، خواہش کہ ؎ ’’میرے وطن یہ عقیدتیں اور پیار تجھ پہ نثار کردوں… محبّتوں کے یہ سلسلے بےشمار تجھ پہ نثار کردوں … میرے وطن میرے بس میں ہو تو تیری حفاظت کروں مَیں ایسے… خزاں سے تجھ کو بچا کے رکھوں، بہار تجھ پہ نثار کردوں… تیری محبّت میں موت آئے تو اس سے بڑھ کر نہیں ہے خواہش … یہ ایک جاں کیا، ہزارتجھ پہ نثار کردوں… یہ ساری عزّت، یہ ساری عظمت تیرے ہی دَم سےمجھے ملی ہے… یہ دھن دولت، یہ عزّت اور یہ وقار تجھ پہ نثار کردوں۔‘‘ کے ساتھ آپ سب کو جشنِ آزادی بہت بہت مبارک ہو۔ اِک اِک سانس کے ساتھ دُعا ہے ؎ یارب! میرے وطن کی یہ کھیتی ہری رہے… صندل سے مانگ، بچّوں سے گودی بَھری رہے۔