عوام، حکمراں اور تبدیلی

August 14, 2020

ہم بہ حیثیت قوم اس کشتی کے مسافروں کی طرح ہیں جو موجوں کے رحم و کرم پر ہواور ملاحوں کے آسرے پر ساحل کی آس میں ہوں۔جب سے وطن عزیز وجود میں آیا ہے کئی حکمران آئے اور گئے۔بعض تو دیار غیر سے بھی ہماری قسمت بدلنے کے خواب دکھانے آئے اور اپنے خواب پورے کر گئے۔وقت بدل گیا دنیا بدل گئی لیکن نہیں بدلے تو ہمارے ملک کے حالات۔قوم ابھی بھی حالات کے اسی گھن چکر میں پھنسی ہوئی ہے ۔ ہر نیا آنیوالا حکمران جانے والے کو ملک کی معاشی بربادی کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ملک و قوم پر قرضوں کے بوجھ اور خزانہ خالی ہے کا قصور وار سابقہ حکمرانوں کو قرار دیتا ہے۔لیکن موجودہ حکمران نئے نئے طریقوں اور نعروں سے قوم کو بہلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ سابقہ حکمران چور تھے اور سب کچھ لوٹ کر لے گئے۔خزانہ ایسا خالی کیا تھاکہ جب ہم نے اقتدار سنبھال کر جا کے دیکھا تو خزانے میں کچھ بھی نہ تھا۔سرکاری اداروں میں ہزاروں غیر قانونی بھرتیاں کی تھیں۔کرپشن کا ایسا بازار لگایا تھا کہ دو سال سے ہم سراغ لگاتے لگاتے تھک گئے لیکن سابقہ حکمرانوںکی کرپشن کی داستانیں ختم نہیں ہو رہی ہیں۔الغرض اس طرح کی بے شمار باتیں کی جا رہی ہیں لیکن حسب سابق یا حسب روایت قوم کی حالت کی تبدیلی اور بہتری کے لئے ایک انچ بھی قدم نہیں بڑھایا گیا۔دانائوں کا خیال ہے کہ سابقہ حکمرانوں کو چور چور کہنے کے بجائے موجودہ حکمران اقتدار کی ہوس نہ کرتے اور اللہ پاک کا ذکر کرتے تو امید کی جا سکتی تھی کہ کسی مرتبے پر پہنچتے۔ورنہ عاقبت تو سنور جانے کی امید کی جا سکتی تھی۔اب تو یہ حال ہے کہ صنم تو مل گیا لیکن وصال نہیں ملا جس کا وہ برملا اظہار بھی کرتے ہیں۔جہاں تک کرپشن کی بات ہے تو مبینہ طور پر وہ تو اب بھی ہو رہی ہے بلکہ سننے میں آتا ہے کہ اب تو بڑے بڑے ڈاکے مارے جاتے ہیں۔اب بھی قوم و ملک کی تقدیر کے فیصلے پردیسی اور عالمی اداروں کے بابو کرتے ہیں۔

اب بھی میرٹ کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں،بیورو کریٹس اور سرکاری افسران سے لے کر کلرک تک کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ تعاون نہیں کرتے اور وجہ یہ بتاتے ہیں کہ یہ سابقہ حکمرانوں کے منظور نظر ہیں۔لیکن دوسری طرف دیکھیں تو پنجاب میں کتنے چیف سیکر ٹریز اور آئی جی تبدیل کئے گئے اور مزیدافسران کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔یہ تمام افسران اسی حکومت میں لائے گئے اور تبدیل کئے گئے۔تو یہ کس کے منظور نظر ہیں اور کیوں تبدیل کئے جا رہے ہیں۔لیکن مبینہ طور پر اب وزیراعلیٰ کو ہی تبدیل کیا جا رہا ہے۔پی ٹی آئی کی حکومت میں یہ بھی دیکھا گیا کہ اہم حکومتی عہدوں اور قریب ترین لوگوں کے مشوروں پر بعض اپنوں کو بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا جاتا۔اس کی ایک تازہ مثال صوبہ کے پی میں وزیر اعلیٰ کے مشیر کی ہے۔جس کو مشیر اطلاعات بنایا گیا وہ اپنی ذمہ داریاں احسن طریقہ سے سر انجام دے رہے تھے۔لیکن اپنوں ہی کی سازش کے شکار ہوئے۔اور ایک بے سرو پا الزام میں عہدے سے ہٹائے گئے کہ جس کا نہ تو کوئی مدعی ہے نہ کوئی گواہ ہے۔اور نہ ہی اس کا اس معاملہ میں کوئی اختیار تھا۔

اس سے پہلے بھی پی ٹی آئی کی گزشتہ صوبائی حکومت میں ایک وزیر کے ساتھ ہوا تھا۔لیکن جن کے کلے ابھی تک مضبوط ہیں وہ بدستور براجمان ہیں اور مزے کر رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے بارے میں سننے میں آیا ہے کہ ان کو جس سیڑھی پر چڑھایا گیا تھا اب اس کو ہلایا جا رہا ہے اور شاید جلد اس کو کھینچ لیا جائے۔پی ٹی آئی کی طرف سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک اہم رہنما کو لانے کے اشارے ملتے ہیں۔لیکن حالات و واقعات اب ایسے کسی بھی انتظام کو وقتی اور عارضی بتا رہے ہیں۔میں نے پہلے بھی ایک کالم میں عرض کیا تھا کہ اگست میں تبدیلیاں شروع ہونے کا امکان ہے اور آگے جا کر یہ تبدیلیاں بڑی تبدیلی کا باعث بن سکتی ہیں۔نیب کی طرف سے طلبیوں اور پکڑ دھکڑ کے جھکڑ کا بھی امکان ہے۔خطے کے حالات اور حکومت کی پے در پے ناکامیاں یہ اشارے دے رہی ہیں کہ اب ملک مزید تجربات کا متحمل نہیں ہو سکتا نہ ہی موجودہ نظام میں مزید رفو گری کی گنجائش ہے۔اب شاید یکمشت پورے نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔بیورو کریسی ہو یا پولیس کے اعلیٰ افسران یہ حکومت کے احکامات پر قانون کے مطابق عمل کرتے ہیں۔

اس لئے اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے بجائے اداروں اور افراد پر الزام لگانا مناسب نہیں ہے نہ ہی یہ مسائل کا حل ہے۔اصل سوال یہ ہے کہ عام آدمی کا کیاحال ہے۔اس کے دکھوں کا مداوا کیوں نہیں کیا جاتا۔عام آدمی کا جو برا حال پہلے تھا اب مزید بدتر ہو گیا ہے۔ اب کسی بھی وقت بے آواز لاٹھی چل سکتی ہے۔اب بھی انتظامی کارروائیاں ختم کر کے عوام کے مسائل حل کرنے پر توجہ دی جائے۔عام آدمی کو روزگار اور عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی فراہم کرنے کا بندوبست کیا جائے۔مہنگائی کو ختم کیا جائے،انصاف کا حصول آسان بنایا جائے ورنہ کل برا وقت کسی پر بھی آسکتا ہے۔کیونکہ وہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔