’’قاھرہ‘‘ کی تاریخی عمارتیں

August 16, 2020

قاہرہ مصر کا دار الحکومت ہے، جس کی آبادی دو کروڑ سے زائد ہے۔ قاہرہ دنیا کا 17واں بڑا اور براعظم افریقہ کا سب سے بڑا شہر بھی جانا جاتا ہے۔ قاہرہ مصر کے شمال میں دریائے نیل کے کنارے، اس کے جزائر پر بالکل اس مقام پر واقع ہے جہاں دریائے نیل صحرائی علاقے سے نکل کر دو شاخوں میں تقسیم ہوکر ڈیلٹائی خطے میں داخل ہوتا ہے۔

دریا کے مشرق کی جانب قائم اس قدیم شہر کے گرد زرعی زمینیں موجود ہیں۔قاہرہ کے مغربی علاقے ، جن کو انیسویں صدی کے وسط میں شاہ اسماعیل نے فرانس کے دار الحکومت پیرس کی طرز پر تیار کیا تھا، بہت خوبصورت ہیں۔ آپ کو یہاں سرکاری عمارات اور جدید طرز تعمیر دکھائی دیں گی جبکہ قدیم شہر میں سینکڑوں قدیم مساجد بھی اپنی شان دکھاتی ہیں۔

قاہرہ مشرق میں صحرا کی جانب فراہمی آب کے جدید نظام کی بدولت توپھیلتا جارہا ہے۔ دریائے نیل کے جزیروں کودو پُل آپس میں ملاتے ہیں۔ ان جزائر پرحکومت کی بہت سی عمارتیں قائم ہیں جن میں سرکاری افسران یہاں رہائش پزیر ہیں۔ علاوہ ازیں شہر کو غزہ کے گردو نواح اور امام بابا سے ملانے کے لیے بھی دریائے نیل پر پُل قائم بنائے گئے ہیں۔غزہ کے مغرب میں صحرائی علاقے میں تین بلند ترین اہرام مصر ہیں، جو جدید قاہرہ سے 11 میل (18کلومیٹر) جنوب میں واقع ہیں۔

جامعہ الازھر کی تعمیر

قاہر میں موجود کم و بیش ایک ہزار سال پرانی اور مسلم دنیا میں دینی واسلامی علوم کی سب سے بڑی درسگاہ جامعہ الازھر نہ صرف اپنی علمی وجاہت اور قد کاٹھ میں ممتاز مقام رکھتی ہے بلکہ اس کی تعمیر میں بھی مسلمانوں کے قدیم فن تعمیر کی جھلک نمایاں دکھائی دیتی ہے۔

جامع مسجد الازھر کی تعمیر بھی مسلم معماروں کی فنکاری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جامع مسجد کا ڈیزائن بہت حد تک تیونس میں موجود دو مشہور مساجد القیروان شہر کی جامع مسجد عقبہ بن نافع اور دارالحکومت تیونسیہ کی جامع مسجد الزیتونہ سے بہت حد تک مماثل ہے۔

صقلیہ سے تعلق رکھنے والے ایک فاطمی مسلمان گورنر المعزالدین اللہ الفاطمی کے حکم پر970ءمیں اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور مسجد کی تعمیر تقریباً 28ماہ میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔روزِ اوّل سے جامع مسجد ‘‘الازھر’’ کے نام سے مشہور نہیں تھی بلکہ پہلے اس کا نام جامع مسجد القاہرہ تجویز کیا گیاتھا۔ کچھ عرصے بعد اسے فاطمی حکمرانوں نے دخترِرسول سیدہ فاطمہ الزہرا کی نسبت سے اس کا نام جامع مسجد الزہرا اور پھر الازہر رکھ دیا گیا۔ 11 ہزار 500 مربع میٹر رقبے پر پھیلی یہ درسگاہ تمام عالم میں مسلمانوں کی علامت اور پہچان گردانی جاتی ہےاور یہ مصرکی سیاست کا ایک اہم ستون بن چکی ہے۔

صدارتی محل

مصر کے دارالحکومت قاہرہ کے پوش علاقے میں قصر الاتحادیہ یا اتحادیہ محل ہلیو پولس ہے۔یہ ایک سو چار سال سے موجود ہے۔ 1910ء میں یہ عمارت 'گرینڈ ہوٹل کے نام سے ایک ریسٹورنٹ کے لیے بنائی گئی، تاہم بعد ازاں اسے ایوان صدر کا مقام دے دیا گیا۔ محل میں 400کمرے،55فلیٹس اور کئی بڑے ہال ہیں۔

مرکزی ہال600مربع میٹر وسیع ہے ، جس کے عین سامنے55میٹر بلند ایک گنبد اس کی رونق اور اور شان کو بڑھاتاہے۔ قصر ہلیو پولس پہلی اور دوسری جنگ عظیم میںعالمی شخصیات کی آمد ورفت کا مرکز رہا۔ بعد ازاں اسے بطور ملٹری ہسپتال اور ملٹری اکیڈمی بھی استعمال کیا جاتا رہا۔ 1960ء کی دہائی میں یہ عمارت میں متعدد وزارتیں اور اہم محکموں کے دفاتر کا مرکز بن گئی۔

1972ء میں انور سادات کے اقتدارکے دوران "قصر الاتحادیہ" شام ، مصر اور لیبیا کا مشترکہ ہیڈ کوارٹر قرار دیا گیا ، جس کی وجہ سے اس کا نام "قصر ہلیو پولس" کے بجائے "قصر الاتحادیہ" اور "قصر العروبہ" رکھا گیا۔ آج تک اس محل کو دونوں ناموںسے پکارا جاتا ہے۔

قاہرہ کی دیگر ممتاز عمارات

انیسویں صدی سے قاہرہ سیاحت کا مرکز بن چکا ہے اور دنیا بھر سے لاکھوں سیاح قدیم مصر خاص طور پر اہرام دیکھنے یہاں آتے ہیں۔ قاہرہ میں کئی مالز اور شاپنگ سینٹر قائم ہیں،ان میںزیادہ مشہور سٹی اسٹارز ہے، جو دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مال سمجھا جاتاہے۔

یہاں بلند عمارات میں نائل سٹی ٹاور،نیو قاہرہ سٹی ٹاورز،فیئرمونٹ قاہرہ، مصری قومی بینک ٹاورز اور نیو سعودی عربین ایمبیسی ٹاور شامل ہیں۔شہر کے مشہور ترین اسپتالوں میں السلام انٹرنیشنل ہسپتال، عین شمس یونیورسٹی ہسپتال اور القصر العینی جنرل اسپتال شامل ہیں۔

فرعونوں کے مجسمے

قاہرہ کے آثار قدیمہ کے مرکز میں فرعون مصر ریمسس دوم کے دو بلند و بالا مجسمے نصب کیےگئے ہیں۔ اِن مجسموں کے ساتھ کئی مینار بھی قائم کیے گئے ہیں۔ فرعون مصر کے دیوہیکل مجسمے 19 ویں صدی میں دریافت ہوئے تھے ۔ فراعین ِ مصر کے مجسمے دیکھنے لوگ دنیا بھر سے تشریف لاتے ہیں۔