اقبال کے ساتھ ایک سفر!

April 22, 2013

علامہ اقبال کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے مجھے جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش آتا ہے وہ ان کے سنہ پیدائش کے حوالے سے ہے ۔ اقبال خوش قسمتی سے مجھ سے بہت پہلے اس دنیا میں آئے تھے اور یوں وہ خواہ مخواہ ان باتوں کا کریڈٹ لے گئے جو دراصل مجھے کہنا تھیں اوربقول عہد حاضر کے ایک عظیم دانشور جناب خوشامد طومار پوری ان سے بہتر انداز میں کہنا تھیں تاہم اقبال کے ایک ہم عصر مجھ سے بہتر رہے میں نے ان کی پہلی تقریر سنی تو انہوں نے فرمایا کہ انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ اقبال کو دور سے دیکھا تھا ۔ دوسری تقریر میں انہوں نے اقبال سے ہاتھ ملانے کا دعویٰ کیا ۔ تیسری تقریر میں وہ ان کی ہر مجلس میں شامل ہوتے تھے ۔ چوتھی تقریر میں انہوں نے انکشاف کیا کہ اقبال ہر کام ان کے مشورے سے کرتے تھے اور میں نے ان کی جو آخری تقریر سنی اس میں انہوں نے دبے لفظوں میں بتایا کہ شکوہ کی اشاعت پر ہونے والے اعتراضات پر اقبال بہت دل گرفتہ تھے ۔ ان سے اپنے دوست کی دل گرفتگی نہ دیکھی گئی چنانچہ انہوں نے ؟؟ جواب شکوہ “ لکھا اور چپکے سے ان کے سرہانے کے نیچے رکھ دیا تاہم زندگی بھر اقبال سے اس کا ذکر نہ کیا کہ حساب دوستاں درد دل بھی تو کوئی چیز ہے ۔واضح رہے اس وقت ان صاحب کی عمر کی وجہ سے ان کی آدھی ٹکٹ لگتی تھی بلکہ بعض خوش ذوق کنڈیکٹر تو انہیں اس سے بھی مستثنیٰ قرار دے ڈالتے تھے ۔
دراصل اقبال کے اس طرح کے دوست کچھ عرصہ سے بہت عام ہو گئے ہیں تاہم حرام ہے ان کی گفتار یا کردار میں علامہ کے فکر کی کوئی جھلک نظر آتی ہو یا انہیں پتہ ہو کہ اقبال کی شاعری کا کیا مقام ہے ۔ان کے پیغام کی کیا اہمیت ہے ۔ لیکن یہ قائد اور اقبال کو بیچتے چلے جاتے ہیں۔ گزشتہ روز مجھے ایک ایس ایم ایس موصول ہوئی جس میں کہا گیا تھا کہ قائد اعظم کی تصویریں جمع کر رہا ہوں۔ مجھے اس سلسلہ میں آپ کے تعاون کی ضرورت ہے چنانچہ آپ کے پاس قائد اعظم کی تصویر والے جتنے بھی کرنسی نوٹ ہیں وہ براہ کرم مجھے ارسال کر دیں ۔ کرنسی نوٹوں کے ان پرستاروں نے پاکستان کوبہت نقصان پہنچایا ہے یہ پرستار ایوان اقتدار میں بھی موجود رہے ہیں اور آج بھی موجود ہیں ۔ یہ لوگ قائد اعظم کی تقریروں اور اقبال کے کلام کو سنسر کرتے رہے ہیں ایک وقت تھا کہ انہوں نے اس کے علاوہ ریڈیو ، ٹی وی پر بھی بہت سے لفظوں کے حوالے سے پابندی عائد کر دی ۔ ان کے دور میں صرف ”دل برداشتہ “ کا لفظ سنسر ہونے سے رہ گیا حالانکہ اس میں ”دلبر“ اور ”داشتہ “ دونوں موجود ہیں ۔ انہوں نے قائد اور اقبال کو ایک کٹر ملا کے طور پر ہمارے سامنے پیش کیا ۔ ان سیاسی لوٹوں نے اپنی جماعت کو قائد اور اقبال کے نظریات کی حامل جماعت قرار دیا ۔ منیر نیازی کہا کرتے تھے کہ پہلے نقاد انہیں عدم توجہ سے مارتے تھے اب توجہ سے مارتے ہیں۔ اقبال کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے ان کے دشمن انہیں عدم توجہ سے مٹانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے ”پرستار“ توجہ سے ان کا حلیہ بگاڑنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہماری یونیورسٹیوں اور کالجوں میں بھی ان کے ساتھ کچھ اسی قسم کا سلوک ہو رہا ہے ۔ اقبالیات کے نام پر جو پڑھایا جا رہا ہے وہ اقبال کی روح کو تڑپانے کے لئے کافی ہے۔
اقبالیات پڑھانے والے بہت سے پروفیسر اور ڈاکٹر حضرات ایسے ہیں جو اقبال کے بارے میں اتنا ہی جانتے ہیں جتنا اقبال ان کے بارے میں جانتے ہیں۔ اقبالیات کے ایک ایسے ہی استاد کے متعلق مشہور ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ اخبار میں لکھا کہ وہ اقبال کے مزار پر گئے اور انہیں یہ دیکھ کر دکھ ہوا کہ وہاں بتی بجھی ہوئی تھی اور مزار پر تالا پڑا تھا ۔یہ پڑھ کر ایک ستم ظریف ان صاحب کے گھر آیا اور انہیں کہا کہ دراصل اقبال کو تمہارے آنے کا پتہ چل گیا تھا چنانچہ خود انہوں نے حکم دیا تھا کہ بتی بجھا دو اور مزار کو تالا لگا دو ۔
ان تمام باتوں کے باوجود میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ اقبال کے ساتھ ہمارا رویہ ہمارے قومی رویئے سے مطابقت رکھتا ہے ۔ دراصل ہم جن راستوں پر چل پڑے ہیں ان راستوں پر چلنے والوں کو اقبال ہضم ہی نہیں ہو سکتا ۔ اقبال امید کا شاعر ہے ہم مایوسی کے دلدادہ ہیں۔ مایوسی کے عالم میں گھر سے نکلتے ہیں اور رستے میں ملنے والے ہر شخص کو مایوس کرتے چلے جاتے ہیں ۔ ایک شخص اچھا خاصا خوشگوار موڈ میں سیٹی بجاتا چلا جا رہا ہے ہم اسے روک کر کہتے ہیں ”آپ کا چہرہ کچھ پیلا پیلا سا ہے ،آنکھوں کے گرد حلقے بہت گہرے ہیں، خیریت توہے؟“اس کے بعد خیریت کہاں سے آنی ہے وہ سیٹی تو کیا سٹی بھی بھول جاتا ہے اور سیدھا ڈاکٹر کا رخ کرتا ہے ڈاکٹر بھی مایوسی اور اپنی ذات پر عدم اعتماد کا شکار ہے۔وہ خود کو دکھانے کسی حکیم کے پاس گیا ہوتا ہے ۔ حکیم صاحب کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک ہومیو پیتھک سے دوا لینے گئے ہیں اور ہومیوپیتھک کے متعلق اطلاع ملتی ہے کہ وہ ایک بابا جی سے دم کرا رہا ہے ۔ چنانچہ ”یقین پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے “ کی تلقین کرنے والے شاعر کو ہم دل سے کیسے قبول کر سکتے ہیں؟ ہماری پارلیمینٹ متفقہ طور پر اٹھارویں ترمیم پیش کرکے 1973ء کا آئین بحال کرتی ہے جسے فوجی ڈکٹیٹر پامال کرتے چلے آ رہے تھے لیکن ہمارے تجزیہ نگار اتنے بڑے کارنامے کو نظرانداز کرکے اس میں سے صرف مایوسی کے پہلو نکال رہے ہیں ۔ اقبال امید کے علاوہ احترام آدمیت کا شاعر ہے ہم احترام آدمیت کا مطلب ہی بھول چکے ہیں چنانچہ تمام اداروں میں تذلیل آدمیت کا سلسلہ جاری ہے ۔ اقبال سوال اٹھانے اور ان کے جواب تلاش کرنے والا شاعر ہے، وہ تو اس حوالے سے دل یزداں میں کھٹکنے کی بات کرتا ہے جبکہ ہم صرف اللہ ھو کے ورد کو کافی سمجھتے ہیں۔ اقبال ہمیں شاہین بنانا چاہتا ہے ہم کرگس بنتے چلے جا رہے ہیں ۔ اقبال کا انسان تقدیر بدلنے پر قادر نظر آتا ہے ہم راضی برضا رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اقبال دین ملا کو فی سبیل اللہ فساد قرار دیتا ہے ہم اسکے اسلام کو اصلی اسلام سمجھ کر سینے سے لگائے ہوئے ہیں ۔ اقبال کا نوحہ علم سے محرومی کا نوحہ ہے وہ اپنے آباء کی کتابیں یورپ میں دیکھتا ہے تو اس کا دل سی پارہ ہو جاتا ہے جبکہ ہمارا رویہ مجموعی طور پر علم دشمنی پر مبنی ہے ۔ اقبال دنیاوی خداؤں کے سامنے سجدہ ریز ہونے کی بجائے ایک سجدے کی بات کرتا ہے جو انسان کو ہزاروں سجدوں سے بے نیاز کر دیتا ہے لیکن ہم اپنی چھوٹی چھوٹی اغراض کے لئے سینکڑوں سجدے کرتے چلے جاتے ہیں۔
میرا ایک سیاست دان دوست خود کو اقبال کا پیروکار کہتا ہے مگر اسکی پیروکاری کا اندازہ یہ ہے کہ ہر سربراہ مملکت کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے ۔ اس کے بعد اسے کسی دوسرے کو سجدہ کرنے کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ ساری بیورو کریسی اسکے سامنے سجدہ ریز نظر آتی ہے ۔ اقبال کائنات کے رازوں کی جستجو پر زور دیتا ہے ہم ایک دوسرے کے رازوں کا کھوج لگانے میں لگے رہتے ہیں۔ فنون لطیفہ کے حوالے سے اقبال کہتا ہے ۔
رنگ ہو یا خشت وسنگ، چنگ ہو یا حرف وصوت
معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود
اور ہمارے درمیان کتنے ادیب،شاعر ، موسیقار اور مصور رہ گئے ہیں جن کے فن میں خون جگر کی نمود نظر آتی ہو؟
یہ سلسلہ بہت لمبا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ میں نے یہ بھی محسوس کیا ہے کہ خود میری اپنی تحریر میں مایوسی کا عنصر زیادہ آ گیا ہے حالانکہ بیسویں صدی میں عالم اسلام میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں میں ہر جگہ اقبال کااثر دکھائی دیتا ہے بلکہ پوری دنیا کے ادبی منظر نامے میں اقبال کا پرتو دیکھا جا سکتا ہے اور اردو ادب پر اس کے اثرا بہت گہرے ہیں۔ ہمارے ہاں اقبال کو یونیورسٹیوں کے مدرسانہ انداز کی بجائے اسے تخلیقی زاویہ نظر سے دیکھنے کی کوشش بھی جاری ہے ۔ اس وقت جبکہ مذہب کے نام پر خون بہانے کا سلسلہ جاری ہے اور جہالت کو علم کے متبادل سمجھ لیا گیا ہے وہ ہماری توجہ مذہب کی خوبصورتیوں کی طرف مبذول کراتا ہے ۔ اقبال اپنے کشت ویراں سے مایوس نہیں ہے ۔ قومیوں کی زندگی میں جو سانحات رونما ہوتے ہیں اقبال اسے بھی مثبت انداز میں دیکھتا ہے کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا لہٰذا ہمیں بھی مایوس ہونے کی ضرورت نہیں اور خوشی کی بات یہ ہے کہ ہم آہستہ آہستہ اپنے انداز فکر کو مثبت بنانے کی کوشش کر رہے ہیں سوائے میرے اس دوست شاعرکے جسے حکومت نے ان کی ادبی خدمات پر پرائیڈ آف پرفارمنس دیا تو میرے یہ دوست خوش ہونے کی بجائے یہ سوچ کر اداس ہو گئے کہ اگلے سال یہ ایوارڈ کسی اور کو چلا جائے گا ۔
اور آخر میں صرف ایک اور بات اور وہ یہ کہ اپنی روشن خیالی، انسان دوستی، علمی گہرائی اور اعلیٰ ترین شاعری کے حوالے سے اکیسویں صدی میں اگر کوئی شاعری ریلیونٹ ہے تو وہ اقبال ہے ۔ بحری جہاز ساحل پر لنگر انداز کیا جا سکتا ہے لیکن یاد رکھیں یہ لنگر انداز کرنے کیلئے نہیں بنایا گیا ہوتا ۔ سو اب وقت آ گیا ہے کہ ہم تن آسانی چھوڑیں اور اقبال کے ساتھ کھلے سمندروں کے سفر پر روانہ ہو جائیں۔