مشرق وسطیٰ کی سیاست کا نیا موڑ

August 19, 2020

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان ہونے والے نئے سمجھوتے نے نہ صرف مشرق وسطیٰٰ کی سیاست کو ایک نیا رُخ دے دیا ہے بلکہ خطّے کے دیگر ممالک جیسے ایران اور پاکستان کے لیے بھی نئے مسائل کھڑے کر دیئے ہیں۔

ایران تو اس معاملے میں شروع دِن سے بڑا واضح مؤقف رکھتا ہے مگر پاکستان کے لیے یہ مسئلہ اتنا آسان نہیں ہے۔ ایران کے صدر حسن رُوحانی نے تو کہہ بھی دیا کہ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ سمجھوتہ کر کے ایک بہت بڑی غلطی کی ہے۔ انہوں نے اسے ایک دھوکا قرار دیا ہے۔

تیرہ اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین معاہدے کا اعلان کیا تو سب کو حیرت ہوئی کہ اس معاہدے کا اعلان دونوں فریقوں کے بجائے ایک تیسرے ملک یعنی امریکا نے کیوں کیا۔ لیکن اس اعلان سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اس کے پیچھے امریکا اور امریکا میں موجود اسرائیلی لابی کا بڑا ہاتھ معلوم ہوتا ہے۔ معاہدے کے تحت دونوں ملک سفارتی تعلقات قائم کر لیں گے اور ایران کا یہ خدشہ بجا معلوم ہوتا ہے کہ معاہدے کا ایک اور بڑا مقصد خطّے میں ایسے ممالک کو اکٹھا کرنا ہے جو ایران کے خلاف ہوں۔ گوکہ ایرانی صدر رُوحانی نے دھمکی آمیز لہجے میں امارات کو خبردار کیا کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی حیثیت کو مستحکم کرنے سے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں لیکن بظاہر امارات پر اس تنبیہ کا کوئی اَثر معلوم نہیں ہوتا اور وہ اپنے تعلقات اسرائیل کے ساتھ قائم کر ہی لے گا۔

امریکی صدرٹرمپ کی طرف سے اس اعلان کی ایک بڑی وجہ یہ لگتی ہے کہ نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں ٹرمپ کی جیت کے امکانات خاصے کم ہیں اور کورونا کے بحران کا بُری طرح سامنا کرنے پر امریکی عوام ٹرمپ سے شدید ناراض ہیں، اس لیے ٹرمپ کچھ ایسا کر کے دِکھانا چاہتے ہیں کہ امریکی عوام خوش ہو جائیں لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں امریکی لوگ خوش ہوں یا نہ ہوں صیہونی گروہ جن کا امریکا میں خاصا اَثر ہے امریکی صدر کے انتخاب پر اَثرانداز ہوتے ہیں اور صیہونیوں کا خوش ہونا ٹرمپ کے لیے جیت کا پیغام ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی لیے اس معاہدے کا اعلان ابوظبی یا تل ابیب کے بجائے واشنگٹن سے کیا گیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ آخر امارات اور سعودی عرب کیوں چاہتے ہیں کہ ٹرمپ دوبارہ جیتیں؟اس کی دو وجہ سمجھ میں آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ٹرمپ نے ایران کے خلاف سخت گیر رویہ اپناتے ہوئے ایران کے ساتھ سابق امریکی صدراوباما کا کیا ہوا معاہدہ ختم کیا اور ایران کو بُرے حالات کا شکار کیا، جس سے سعودی عرب اور امارات دونوں بہت خوش ہیں۔ دُوسری وجہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کے شاہی خاندان اپنے تحفظ کے لیے امریکا پر انحصار کرتے ہیں۔

تیسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ سعودی عرب اور امارات معاشی اور فوجی طور پر اسرائیل سے تعلقات کے فوائد اُٹھانا چاہتے ہیں۔ اب یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ اُن کو اسرائیل کا کیا فائدہ پہنچتا ہے۔

ایران کے نہ صرف صدر رُوحانی بلکہ پاس دارانِ انقلاب نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ ، امارات اور اسرائیل کے معاہدے کے بعد صیہونی حکومت جو بچوں کی قاتل ہے، تباہی کی طرف جائے گی۔ گو کہ امارات کے مطابق یہ معاہدہ ایران کے خلاف نہیں لیکن بین الاقوامی طور پر ایسا ہی سمجھا جا رہا ہے۔ ادھر ترکی نے بھی اس معاہدے پر تنقید کی تو امارات نے ترکی کے اعتراضات کو بھی مسترد کر دیا ہے۔

امارات کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور انور قرقاش کے مطابق ایران کو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اس کا تعلق صرف اورصرف اسرائیل، امارات اور امریکا سے ہے اور اس کا مقصد ایران کے خلاف کوئی اتحاد تشکیل دینا نہیں ہے۔ اب اس بیان کو سادگی کا ایک نمونہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے، کیوں کہ اسرائیل اور امریکا ہی اس خطّے میں ایران کے سب سے بڑے دُشمن ہیں،ان دُشمنوں سے ہاتھ ملا کر یہ کہنا کہ اس کا ایران سے کوئی تعلق نہیں ایک خام خیالی ہی ہو سکتی ہے۔

کمال کی بات یہ ہے کہ اگلی ہی سانس میں ، انور قرقاش نے یہ بھی کہا کہ ایران کے ساتھ پیچیدہ تعلقات کے باعث امارات کو کچھ خدشات بھی لاحق ہیں مگر ان خدشات کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ یاد رہے کہ امارات یمن کی خانہ جنگی میں ملوث رہا ہے جہاں ایران حوثی قبائل کی مدد کر رہا ہے جب کہ امارات نے حوثی مخالف دھڑوں کی حمایت بھی کی ہے اور پہلی بار جنگی طور پر بھی شامل ہوا ہے۔

ایران کے مقابلے میں ترکی کا معاملہ ذرا مختلف ہے، کیوں کہ صدر طیب اردوان کے مطابق ترکی امارات سے اپنا سفیر واپس بلانے پر غور کر رہا ہے، کیوں کہ اسرائیل سے معاہدہ فلسطینیوں سے غدّاری ہے۔

اب یہ سوال بجا طور پر اُٹھایا جا سکتا ہے کہ خود ترکی تو اسرائیل کے ساتھ پورے تجارتی تعلقات قائم رکھے ہوئے ہے اور ان سے فلسطینی عوام سے غدّاری نہیں ہوتی تو پھر امارات سے کیسے ہو سکتی ہے؟ اس کے علاوہ ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ سالانہ پانچ لاکھ اسرائیلی سیّاح ترکی کا رُخ کرتے ہیں اور ترکی کی سیر و سیاحت کے دوران مختلف شہروں اور تاریخی مقامات جاتے ہیں۔ کیا ان سے بھی فلسطینیوں کے ساتھ کوئی غدّاری نہیں ہوتی۔ اس طرح ترکی کے رویئے میں بڑا واضح دوغلاپن نظر آتا ہے۔پھر ترکی اور اسرائیل کے درمیان سالانہ دو ارب ڈالر سے زیادہ کا لین دین بھی ہوتا ہے اور اسرائیل میں ترکی کا اپنا سفارت خانہ بھی ہے تو کیا ان تمام باتوں سے بھی غدّاری کی بُو نہیں آتی؟

دراصل سفارتی تعلقات رکھنا ایک اچھی بات ہے اور آج کی دُنیا میں اختلافات کے باوجود بات چیت کے راستے ہمیشہ کھلے رکھنے چاہئیں۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات بالکل ٹھیک نہیں لیکن سفارتی تعلقات قائم ہیں اور رہنے چاہئیں۔ اگر مقبوضہ کشمیر کے بھارتی الحاق کے بعد پاکستان بھارت سے اپنے سفارتی تعلقات توڑ لیتا تو یہ کسی طرح بھی احسن عمل نہ ہوتا۔ اسی طرح اگر پاکستان بھارت کے تعلقات سفارتی سطح پر برقرار رکھ سکتا ہے تو عرب ممالک یا دیگر مسلم ممالک کو بھی یہ پورا حق حاصل ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کریں اور ساتھ ہی فلسطینی حقوق کی بات بھی کرتے رہیں جس طرح پاکستان کشمیری حقوق کی بات کرتا رہتا ہے۔

اسرائیل اور امارات کے لیے معاہدے کا ایک نتیجہ تو یہ ہے کہ اسرائیل نے دریائے اُردن کے مغربی کنارے پر مزید علاقوں پر قبضے کے منصوبے کو ختم تو نہیں البتہ ملتوی ضرور کر دیا ہے۔ امارات کا مؤقف یہ ہے کہ اس معاہدے کے بعد فلسطینی رہنمائوں کومزید وقت مل گیا ہے کہ وہ اس مسئلے پر غور کر کے اسرائیل سے مذاکرات شروع کر سکتے ہیں۔ اس طرح امارات نے ٹرمپ اور نیتن یاہو کے پیش کردہ اَمن معاہدے کی ایک طرح سے توثیق کر دی ہے اور اسرائیل کے بجائے فلسطینی رہنمائوں سے سمجھوتہ کرنے کی توقع کر رہے ہیں۔

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اس معاہدے کے بعد فلسطینی رہنمائوں کے پاس اپنے حمایتی ممالک کی تعداد مزید کم ہو جائے گی اور وہ اسرائیل کے مقابلے میں خود کو مزید یک و تنہا محسوس کریں گے۔

یاد رہے کہ پچھلے چالیس سال میں عرب ممالک میں امارات اب تیسرا ملک بن گیا ہے جس نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اسرائیل کے قیام کے بعد عربوں نے کئی بار کوشش کی کہ اسرائیل سے جنگ لڑ کر اسے شکست دی جائے اور فلسطینی علاقے آزاد کرائے جائیں مگر 1948، 1956، 1967 اور 1973ء کی جنگوں میں مسلسل ناکامی کے بعد مصر وہ پہلا ملک تھا جس نے 1979ء میں امریکی صدر جمی کارٹر کی زیرِنگرانی کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر دستخط کر کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے، مصری صدر انور السادات کو اس کی پاداش میں انتہاپسندوں نے قتل کر دیا تھا۔

اس کے بعد 1994ء میں اُردن دُوسرا عرب ملک تھا جس نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کئے ،گو کہ موجودہ اسرائیل زیادہ تر ان علاقوں پر مشتمل ہے جو تاریخی طور پر اُردن کا حصہ رہے ہیں۔ حتیٰ کہ بیت المقدس اور یروشلم بھی 1967ء تک اُردن کا حصہ تھا جس پر اسرائیل نے قبضہ کیا اور اب اس کو اپنا دارالحکومت بنانے کا ارادہ رکھتا ہے لیکن پھر بھی اُردن نے ان تنازعوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے اسرائیل سے تعلقات قائم کئے اور یہ مطالبہ نہیں کیا کہ پہلے مقبوضہ علاقے خالی کرو۔

اُردن اور مصر کے بعد امارات عرب ممالک میں تیسرا اور خلیجی ممالک میں پہلا ملک ہے، جس نے اسرائیل سے سمجھوتہ کیا ہے۔ اس معاہدے کے بعد فلسطینی رہنما اور صدر محمود عباس نے اس معاہدے پر گفتگو کے لیے عرب لیگ کا اجلاس بلانے کی تجویز پیش کی ہے۔ لیکن عرب ممالک میں جو ملک تاریخی اور روایتی طور پر فلسطینیوں کے حامی سمجھے جاتے تھے ان کا تیا پانچہ کیا جا چکا ہے، جن میں دو بڑی مثالیں عراق اور شام کی ہیں جب کہ تیسری مثال افریقہ سے لیبیا کی ہے جہاں کے معمر قذافی کو اپنی اسرائیل مخالف پالیسی کی بڑی قیمت چُکانا پڑی۔

اب مسلم دُنیا میں عرب اور عجم کی تفریق بڑی واضح نظر آ رہی ہے۔ عربوں میں کوئی بھی ایسا ملک نہیں ہے جو اسرائیل کی کھل کر مخالفت کر سکے ،کیوں کہ پچھلے ستّر سال میں اُن کی حکمت عملی ہمیشہ ناکام رہی اور انہیں پے دَر پے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

دُوسری طرف عجم یا غیر عرب ممالک میں، ترکی، ایران، پاکستان، بنگلا دیش، ملائیشیا اور انڈونیشیا کے علاوہ وسطی ایشیا کے ممالک بھی شامل ہیں۔ ان میں ترکی، ایران اور ملائیشیا واضح طور پر فلسطین اور کشمیر دونوں مسئلوں پر اپنا مؤقف دیتے رہے ہیں۔ پاکستان نے فلسطین کےمسئلے پر مبہم اور غیرواضح رویہ اختیار کیا ہے۔ اب جو نئی صف بندی نظر آ رہی ہے اس میں پاکستان کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ عرب کے ساتھ ہے یا عجم کے ساتھ اور یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں ہے۔

اس سارے منظرنامے میں بھارت کا کردار بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے ،کیوں کہ تاریخی طورپر بھارتی حکمران جماعت زیادہ تر انڈین نیشنل کانگریس رہی ہے جس نے ہمیشہ اسرائیل کے مقابلے میں فلسطینیوں کی حمایت کی ہے۔ اب بھارتیا جنتا پارٹی واضح طور پر اسرائیل کے قریب ہے اور اب بھارت کے اسرائیل اور امارات دونوں سے اچھے تعلقات ہیں۔ پھر اس خطّے کی مجموعی صورتِ حال پر بھی اسرائیل اور بھارت کی سوچ بڑی حد تک مماثل ہوتی جا رہی ہے۔ لگتا یہی ہے کہ بھارت اس معاہدے کا خیرمقدم کرے گا۔

اب پاکستان ایک دوراہے پر کھڑا ہے جہاں سے ایک راستہ چین، ایران اور ترکی کوجاتا ہے تو دُوسرا امارات، سعودی عرب، اسرائیل اور امریکا کو۔ فی الوقت تو پاکستان نے چین کے ساتھ مل کر امارات اور امریکا کے راستے سے خود کو کچھ الگ کیا تھا مگر صورتِ حال ڈانواں ڈول ہے اور اصل فیصلہ غالباً مفادات سے ہوگا۔

پاکستان کی مالی حالت خاصی مخدوش ہے۔ اس صدی کے پہلے عشرے میں جنرل مشرف نے جنرل ضیاء الحق کے نقش قدم پر چلتے ہوئے امریکا سے اپنی خدمات کی خوب مالی امداد وصول کی تھی۔ جس کا ذکر وہ اپنی کتاب میں تفصیل سے کر چکے ہیں کہ کس طرح یہاں سے طالبان رہنمائوں کوپکڑ پکڑ کر امریکا کے حوالے کیا گیا اور اس کے عوض بھاری رقوم وصول کی گئیں۔

لیکن دُوسرے عشرے میں صورتِ حال تبدیل ہوئی، خاص طور پر نوازشریف کے برسرِاقتدار آنے اور چینی منصوبوں میں شامل ہونے سے پاکستان میں چینی اَثر و نفود تیزی سے بڑھتا گیا اور امریکا کی ناراضی بھی نوازشریف کی بے دخلی میں خارج اَز امکان نہیں تھی۔

اب پچھلے دو سال میں وزیر اعظم عمران خان اور جنرل باجوہ نے چین کے مقابلے میں امریکا، امارات اور سعودی عرب کی طرف رُخ موڑا اور سعودی عرب اور امارات دونوں کے رہنمائوں نے پاکستان کے دورے بھی کیے جس کے عوض چند ارب ڈالر ہماری جھولی میں ڈال دیئے گئے اور ہم وقتی طور پر خوش بھی ہوگئے مگر یہ خوشی عارضی ہی ہونی تھی کیوں کہ قرض کا نشہ اُترتے ہی ہمیں معلوم ہوا کہ رقوم واپس بھی کرنی ہیں اس لیے پھر بھاگ دوڑ شروع ہوگئی اور اِدھر اُدھر ہاتھ پیر مارے جانے لگے۔

گو کہ اسلامی ممالک میں پاکستان واحد ملک ہے جس کے پاس جوہری طاقت ہے اس لیے اسلامی ممالک میں پاکستان کو ایک مختلف درجہ حاصل رہا ہے مگر ایٹمی دھماکوں کے بعد بیس سال میں ہونے والے واقعات نے ثابت کیا ہے کہ جوہری ہتھیار سے کچھ زیادہ فائدہ نہیں ہوا۔ نہ جنرل مشرف امریکا کے سامنے ایک دِن ٹھہر سکے اور فوری طور پر خود ان کے بقول ’’پتھر کے دور‘‘ کی دھمکی کے بعد امریکا کے سامنے ڈھیر ہوگئے۔ پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم نے ہزاروں لوگ گنوائے۔حتیٰ کہ اُسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد سے برآمدگی کے لیے امریکی کارروائی میں بھی ہم کچھ نہ کر سکے۔ آخری دھچکا ہمیں اس وقت لگا جب پچھلے سال اگست میں بھارت نے مودی کی قیادت میں مقبوضہ کشمیر کی خاص حیثیت ختم کرتے ہوئے اس کے الحاق کا اعلان کیا اور ہم بھارت کو بُرا بھلا کہتے رہ گئے ۔

ان حالات کے پیش نظر شاید عرب ممالک کو پاکستان سے تعلقات میں کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا۔غالباً یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب اور امارات نے اب پاکستان کی ناخوشی کے باوجود بھارت سے بہت قریبی تعلقات استوار کر لیے ہیں۔ مثلاً گزشتہ سال اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس میں بھارت کو خصوصی مبصّر کے طور پر بلایا گیا تھا ،حالاں کہ پاکستان نے اس کی مخالفت کی تھی لیکن امارات نے پاکستان کے احتجاج پر کوئی توجہ نہ دی۔ ویسے بھی مسلمانوں کی آبادی کے لحاظ سے بھارت میں مسلمانوں کی تعداد پانچ سب سے بڑے عرب ممالک کی مجموعی مسلم آبادی کے برابر ہے۔ پانچ سب سے بڑے عرب ممالک ہیں مصر، الجزائر، سوڈان، عراق اور مراکش ہیں، جن کی مجموعی مسلم آبادی تقریباً پچیس کروڑ ہے اور تقریباً اتنے ہی مسلمان صرف بھارت میں رہتے ہیں۔غالباً اسی لیے امارات نے فیصلہ کیا تھا کہ اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس میں بھارت کو کم از کم مبصّر کے طور پر بُلایا جانا چاہیے۔ پچھلے پچاس سال میں یہ پہلا موقع تھا کہ ایسے اجلاس میں بھارت کو بُلایا گیا۔ اس کے علاوہ رواں سال کے اجلاس میں جب پاکستان نے بھارت پر اسلام سے نفرت یا اسلامو فوبیا کا الزام لگایا تو تنظیم نے اس الزام کو مسترد کر دیا پھر مالدیپ جو ایک مسلم ملک ہے، بھارت کی کھل کر حمایت کرتا رہا۔

اسی طرح بالا کوٹ حملے کے بعد بھی امارات اور سعودی عرب دونوں نے پاکستان کی حمایت نہیں کی بلکہ گرفتارشدہ بھارتی ہوا با زابھی نندن کی رہائی میں بھی مبینہ طور پر سعودی عرب نے پاکستان سے بات کی تھی۔

طالبان کی مسلسل حمایت پر بھی سعودی عرب اور امارات پاکستان سے ناراض نظر آتے ہیں، گو کہ 1996ء سے 2001ء تک افغانستان میں طالبان کی حکومت کو قانونی تسلیم کرنے والے دُنیا کے صرف تین ممالک میں امارات، پاکستان اور سعودی عرب تھے، مگر گیارہ ستمبر 2001ء کے حملوں کے بعد جب سے طالبان کی حکومت کا خاتمہ امریکا کے ذریعے ہوا ہے سعودی عرب اور امارات، طالبان کے مخالف رہے ہیں اور امریکا کی ہم نوائی کی ہے، جب کہ ہم نے پوری کوشش کی ہے کہ طالبان کو دوبارہ کابل کی حکومت میں شامل کیا جائے۔

اس سلسلے میں جب قطر نے اپنے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کا دفتر کھولا اور پاکستان نے اپنی سرپرستی میں طالبان رہنمائوں کو قطر بھیجا تو اس پر بھی سعودی عرب اور امارات ناراض ہوئے اور خود قطر کی بھی ناکہ بندی کر دی۔

حال ہی میں پاکستان نے کوشش کی کہ اسلامی تعاون کی تنظیم کے ذریعے کشمیر کا مسئلہ اُٹھایا جائے مگر سعودی عرب اس مسئلے کو بھارت کا اندرونی معاملہ سمجھتا ہے۔ اس لیے کہ خود سعودی عرب اپنے اندرونی معاملات میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں کرتا۔

جب پاکستان نے ناخوشی کا اظہار کیا تو سعودی عرب نے پاکستان کو دیئے قرض میں سے ایک ارب ڈالر واپس مانگ لیے جووزیر اعظم عمران خان صاحب نے اقتدار میں آنے کے بعد بمشکل حاصل کئے تھے ۔

2019ء میں امارات نے بھارتی وزیراعظم مودی کو اپنے ملک کے سب سے بڑے شہری اعزاز سے بھی نوازا تھا اور پاکستان کو واضح اشارہ دے دیا تھا کہ امارات کے لیے بھارت کی خاص اہمیت ہے جو وہ پاکستان کی خاطر تبدیل نہیں کرے گا۔ اب اس نئے معاہدے کے بعد یقیناً بھارت اسرائیل، امارات، امریکا اور سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہوگا اور غالباً دیگر خلیجی ممالک جیسے کویت، بحرین اور عمان وغیرہ بھی ایسا ہی کریں گے جب کہ قطر کو بھی فیصلہ کرنا ہوگا۔

اسرائیل اور بھارت کے درمیان حالیہ برسوں میں کئی معاہدے بھی ہوئے ہیں، جن کی رُو سے دونوں ممالک دفاعی ساز و سامان کی تیاری میں تعاون کریں گے،چوں کہ خلیجی عرب ممالک ایران اور یمن کے باعث خود کو ہتھیاروں سے لیس کرتے رہتے ہیں اس لیے یہ ممالک اسرائیل اور بھارت دونوں سے مزید ہتھیار بھی حاصل کر سکتے ہیں۔

اس طرح ہم دیکھتے ہیں اسرائیل اور بھارت جو دونوں اکثریتی غیرمسلم ممالک ہیں، وہ عرب ممالک کی بدولت اربوں ڈالر کے فوائد حاصل کریں گے۔ گو کہ سعودی عرب کے لیے کھلے طور پر اسرائیل سے تعلقات بنانا ذرا مشکل رہا ہے مگر موجودہ ولی عہد محمد بن سلمان، اسرائیل کے بارے میں بڑا نرم گوشہ رکھتے ہیں ۔پھر سعودی عرب نے اسرائیل اور بھارت کے درمیان فضائی سفر کے لیے اپنی حدود کی اجازت بھی دے دی ہے۔ اب حالیہ معاہدے کے بعد خود اسرائیل کے اندر انتہاپسند یہودی اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کہ انہوں نے کیوں امارات سے معاہدے کے لیے فلسطینی علاقوں کو شامل کرنے کا منصوبہ ملتوی کر دیا ہے۔

نیتن یاہو پر رشوت ستانی اور دھوکا دہی کے الزامات بھی ہیں جن پر ان سے استعفے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ سعودی عرب اور امارات یہود و ہنود سے اچھے تعلقات کے خواہاں اور ہر قسم کے سمجھوتے کرنے پر تیار ہیں اور ایسا کر کے خود دیگر مسلم ممالک کو ناراض کرنے سے بھی گریزاں نہیں ہیں،مگر خود مسلم ممالک اس قابل نہیں ہیں کہ اپنے آپس کے تعلقات اور فرقہ وارانہ تنازع کو پس پشت ڈال کر کام کر سکیں۔ جب کہ اس معاہدے کے حامی عرب کہہ رہے ہیں کہ عشروں بعد اب عربوں کو مسجدالاقصیٰ میں نماز ادا کرنے کی اجازت مل رہی ہے تو عام مسلم دُنیا کو اس پر خوش ہونا چاہیے نہ کہ اس پر اعتراض کیا جائے۔

عرب ممالک نے بالآخر یہ تسلیم کر لیا ہے کہ حتمی دُشمن یا اَزلی دُشمن کا تصوّر غلط ہے اور ہمیں اپنے رویوں میں بنیادی تبدیلیاں کرناہوں گی۔ اسرائیل اور بھارت دونوں دُنیا کے طاقت ور ممالک ہیں جن سے تعلقات میں بہتری کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہمارے قریب ترین دوست عرب ممالک اسرائیل اور بھارت سے دوستی قائم اور برقرار رکھ سکتے ہیں تو ہمیں بھی اس سمت جلد یا بدیر سوچنا ہوگا۔

فلسطین اور کشمیر دونوں اہم مسئلے ہیں اور ان پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کی کوشش کرنی چاہئے ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ عرب اور عجم کی تقسیم کے بجائے مل کر امن کی طرف قدم بڑھا ئے جائیں۔ ورنہ عرب ممالک فائدے میں رہیں گے اور عجمی ممالک کچھ بھی حاصل نہ کر سکیں گے۔