تھرپارکر کی تلخ یادیں

August 23, 2020

ایک انسان کے دوسرے انسان پر کچھ حقوق ہوتے ہیں۔ انہی حقوق کی رعایت و پاسداری کو صالح معاشرہ اور مثالی تمدن کہا جاتا ہے۔ ہمدردی، ایثار، امداد باہمی اور دوسروں کی مشکلات میں ان سے تعاون و خیر خواہی ایسے اوصاف ہیں جن کا مطالبہ شریعت ہر مسلمان سے کرتی ہے۔دین اسلام ایثار، ہمدردی، خیر خواہی اور غمخواری کانام ہے۔ قارئین پس منظر کے طور پر یاد رہے کہ گزشتہ ماہ ہمارا 5رُکنی وفد تھر کے لئے روانہ ہوا۔ کراچی سے حیدرآباد، میرپور خاص، عمر کوٹ تک واقعتا حالات معمول کے مطابق تھے۔ زندگی یونہی رواں دواں تھی، لیکن جیسے ہی ہم چھور سے آگے اچھرو تھر پہنچے تو آنکھوں سے پٹی کھلنا شروع ہوگئی۔ سب ہرا ہی ہرا دِکھنا بند ہوگیا، سڑک ختم ہوگئی۔ عام گاڑی آگے نہیں جاسکتی تھی۔ ریت کے جھکڑ جکڑنے لگے۔ مشکیزے اور مٹکے نظر آنے لگے۔ اونٹوں اور گدھوں کے ذریعے پانی منتقل ہوتا نظر آنے لگا۔ خال خال نظر آتے لوگوں کے چہروں پر مسکنت عیاں تھی۔2گھنٹے لق و دق صحرا میں چلنے کے بعد ہم نماز کے لئے پانی کی تلاش میں ایک قدیم کنویں پر پہنچے۔ کنویں کے اردگرد لوگوں اور جانوروں کا ایک ہجوم تھا۔ خواتین کے سروں پر مٹکے تھے۔ ننگے پائوں بچوں اور پھٹے پرانے کپڑے پہنی بچیوں نے گدھوں پر چمڑے کے مشکیزے لادے ہوئے تھے۔ گائوں کے نوجوان اور بوڑھے چمڑے کے ڈولوں سے بڑی محنت اور مشقت سے تھوڑا تھوڑا پانی نکالنے میں مصروف تھے۔ تھر میں پانی اوسطاً 4 سو سے 6سو فٹ نیچے ہوتا ہے۔ منہ میں ڈالا تو نمکین۔ پوچھنے پر پتا چلا یہاں پر ایسے نمکین پانی کو میٹھا پانی ہی سمجھا جاتا ہے۔اس وقت اچھرو تھر کے لوگوں کو چار بڑی مشکلات کا سامنا ہے۔ نمبر 1، پانی کی قلت ہے۔ کنوئوں سے پانی نکالنے کےلئے موٹروں اور جنریٹروں کی ضرورت ہے۔ نمبر 2، کھانے کے لئے خوراک کی اَشد ضرورت ہے۔ خوراک کی کمی کی وجہ سے لوگوں کی پسلیاں نکلنے لگی ہیں۔ وافر مقدار میں خوراک تقسیم کرنی چاہئے۔ نمبر 3، صحت کے سنگین مسائل ہیں۔ ادویات اور ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔ فرسٹ ایڈ کا سامان درکار ہے۔ نمبر 4،تعلیم ضروری ہے۔ دس دس بارہ بارہ سال کے بچوں نے اسکول کا منہ تک نہیں دیکھا۔ گائوں اور بستیوں سے شہر آنے کے لئے راستے بھی نہیں ہیں۔ سڑک اور ٹرانسپورٹ بھی لازمی ہے۔ایک دن ہم اچھرو تھر میں گزارکر اگلے دن دوسری جانب واقع چھاچھرو چلے گئے ۔اس علاقے کی حالت بھی اچھرو تھر سے مختلف نہ تھی۔آج نئی تہذیب کا ہر فرد بسیار خوری کے باعث موٹاپے، شوگر، ڈپریشن، بے خوابی، تفکرات، طرح طرح کی نفسیاتی اور روحانی امراض کا شکارہے۔مصنوعی بھوک پیدا کرکے کھانے والےوقت سے پہلے ہی موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ آپ خود سوچیں! صدیوں پر محیط ترقی کے باوجود ’’ترقی یافتہ‘‘ ممالک میں عوامی صحت کا معیار روز بروز زوال پذیر کیوں ہے؟ ہمیشہ کھاتے رہنا یہ ہماری تہذیب نہیں۔ ہماری تہذیب کھانے والی نہیں، دوسروں کو کھلانے والی ہے۔افسوس! آج ہم یہ بھول گئے کہ مستقل کھاتے رہنے والا ہمیشہ بھوکا رہتا ہے، جو بھوک کو قبول کرلے اس کی بھوک مٹ جاتی ہے، نفس قانع ہوجاتا ہے۔ لذت، خواہش اور چٹخارے میں مبتلا قوم کے معدے ہمیشہ خراب رہتے ہیں۔ آج کا انسان فاسٹ فوڈ، جنک فوڈ، چاکلیٹ، سگریٹ کے استعمال کو ترقی کی علامت سمجھ کر اپنی بہترین صلاحیتیں ان کے حصول میں ضائع کررہا ہے اور غریبوں کے گھروں میں اُتری ہوئی حقیقی بھوک رکھنے والوں کو بھول چکا ہے۔ ہم دو انتہائوں کے درمیان جی رہے ہیں، ایک طرف تو زیادہ کھانے کی وجہ سے موت کے منہ میں جارہے ہیں تو دوسری طرف فاقوں کی وجہ سے زندگی ہار رہے ہیں تھرپارکر میں گھومتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے افریقہ کے کسی علاقے میں ہیں۔ بھوک سے نڈھال بچے، کمزور مرد، لاغر خواتین اور جاں بلب بوڑھے تھے۔ تھرپارکر کے مختلف حصوں میں پانی کی قلت ہے۔ سینکڑوں میلوں پر مشتمل علاقے ایسے ہیں جہاں لوگ پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں۔ آپ کی ذرا سی توجہ سے ہزاروں زندگیاں بچ سکتی ہیں۔ یہ لوگ ہمارے بھائی ہیں، انہیں زندگی کی سب سے اہم ضرورت ’’پانی‘‘ میسر نہیں۔ انہیں پینے کیلئے پانی نہیں ملتا تو صفائی اور دیگر ضروریات میں ان کو کتنی مشکلات کا سامنا ہوگا؟ حضرت سعد بن عبادہؓ کی والدہ کی وفات ہوئی۔ انہوں نے آپ ﷺ سے پوچھا:’’میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے کیا میں اس کے لئے صدقہ کروں؟‘‘ آپ نے فرمایا:’’ ہاں‘‘ اس نے کہا:’’کونسا صدقہ بہتر اور افضل ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا:’’پانی پلانا۔ ‘آپؐ نے فرمایا جس نے کسی مسلمان کو وہاں پانی پلایا جہاں پانی آسانی سے میسر نہ تھا تو گویا اس نے ایک غلام آزاد کرادیا۔ جس نے کسی کو اس وقت پانی پلایا جب پانی نہیں ملتا تھا تو گویا اس نے اس کو زندہ کردیا۔‘‘ (معجم طبرانی اوسط، حدیث نمبر 6588) ۔کچھ ٹرسٹ تھرپارکر کے مختلف علاقوں میں پانی کے کنویں اور ہینڈ پمپس لگا رہے ہیں ۔ تعلیم عام کرنے کے لئے مکاتب قائم کر رہے ہیں۔ غربت کم کرنے کیلئے کئی پروجیکٹس لا رہا ہے۔ہمیں ان کا بھر پور ساتھ دینا چاہئے۔