دو برس کی ٹامک ٹوئیاں

August 26, 2020

نصف درجن کے قریب وزرائے کرام خودستائی میںبڑھ چڑھ کر عمران حکومت کے دو برس کے کارہائے نمایاںکو نمایاںکرتے کرتے ہانپ سے گئے۔ مگر رپورٹرز تھے کہ اُن سے کوئی خبر بن نہیںپا رہی تھی۔ لے دے کے اگر کسی کے پاس کہنے کو کچھ تھا بھی تو ثانیہ نشتر اور اُن کا احساس پروگرام جو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی یاد تازہ کیے رکھتا ہے۔ یقیناً ثانیہ نشتر مبارک باد کی مستحق ہیں کہ اب یہ پروگرام 203 ارب روپے سے تقریباً ایک کروڑ ستر لاکھ غریب خاندانوںتک پہنچ پائے گا۔

بہتر ہوگا کہ بقول آصف علی زرداری کے جو کیش سپورٹ پروگرام کی شاہراہ بنی ہے، اُسے غربت، جہالت اور بیماریوںکے خاتمے کے لیے استعمال کرتے ہوئے ملینیم ڈیویلپمنٹ اہداف کے حصول سے جوڑ دیا جائے۔ تو نصف درجن وزرا کے پاس کچھ کہنے کو نہ تھا۔ تحریکِ انصاف کی حکومت کے نصیب میںسوائے باتیں بنانے کے ہے بھی کیا۔

لیکن داد دینا پڑتی ہے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کو جو باتیں بنانے کے ماہر ہیں اور حال ہی میں وہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بڑی سُبکی کا باعث بنے۔ مشیرِخزانہ حفیظ شیخکی آئندہ کی خوش گمانیوںپہ اب کوئی سر دھننے والا نہیں رہا۔ وہ بس آئی ایم ایف کے نسخوںپر عمل کریں۔ یہ خاص یوٹرن تھا کہ اسد عمر کی چھٹی ہوئی اور وہ کِرم خوردہ مالی و مالیاتی نسخوںکا بکچہ اُٹھا چلے آئے۔

خساروں کی کمر کستے کستے اُنہوںنے معیشت ہی کی کمر توڑ دی۔ غریبوںکی کمر تو پہلے ہی ٹوٹی ہوئی تھی، مہنگائی، روپے کی بے قدری، بے روزگاری اور بدحالی کے ہاتھوںوہ زندہ درگور ہو کر رہ گئے۔

گزشتہ برس منفی معاشی نمو کا ریکارڈ قائم کرنے کے بعد وہ اپنے ہی برے ریکارڈ کو ذرا کم بُرا کر پائے تو مبارک باد کے مستحق ہوںگے۔ کوئی اُن سے پوچھے کہ وہ اس برس کساد بازاری کے حالات میںپانچ کھرب کے محاصلات کہاںسے جمع کر پائیںگے۔

اس حکومت کا اگر کوئی طرئہ امتیاز رہا بھی ہے تو وہ اس کی قلابازیاںیا یوٹرن لینے کی بیباکی ہے۔ انتخابات میںجو خواب دکھائے گئے اور جو بلند بانگ دعوے کیے گئے وہ سب دھرے کے دھرے رہ گئے۔ بس ایک احتساب باقی بچا جسے سیاسی مخالفین کا منہ کالا کرنے کے لیے صبح شام استعمال کیا گیا۔ ابھی تک تو کوئی چور ڈاکو اپنے انجام تک پہنچتا دکھائی نہیںدیا اور محتسبوںکے کھاتے میںآیا بھی تو کرکٹ والا انڈہ۔

ہاں! یاد آیا، وہ کاسۂگدائی جسے توڑنے کی بہت آس دلائی گئی تھی، خیر سے قرضہ دو سال میں11.35 کھرب روپے بڑھ گیا جو کہ نواز شریف حکومت کے پانچ سالہ دور میں لیے گئے قرضہ جات سے زیادہ ہے۔ کشکول ٹوٹنے کی بجائے پھیلتا چلا گیا ہے۔ یقیناً روپے کی قدر کم ہونے اور شرحِسود 13 فیصد سے زائد رکھنے کا بھی اس میںبڑا ہاتھ ہے۔

لیکن یہ فیصلے بھی تو اس حکومت کے دوسرے معاشی دیو کے تھے جو اسٹیٹ بنک میںبراجمان ہیں۔ معاشی کارکردگی ماہرین کی اس جوڑی کو دیکھنی ہے تو ذرا قیمتوںکا جائزہ ہی لے لیں۔ چینی مافیا پہ حملہ آور ہونے کے بعد چینی کی قیمت 68روپے فی کلو مقرر کی گئی، لیکن مارکیٹ میںیہ 100 روپے سے اوپر جا رہی ہے۔

اِسی طرح آٹا مافیا کے خلاف جونہی حکومت میدان میںاُتری اور آٹے کی قیمت 40 روپے فی کلو مقرر کی بھی تو آج وہ 70 روپے کلو بِک رہا ہے۔ لگتا یہی ہے کہ مافیائوں نے تحریکِ انصاف کی حکومت میںڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ چینی مافیا پکڑتے ہیںتو مبینہ طور پر اپنے ہی معتبر ترین لیڈر اور چیف منسٹر کا نام آ جاتا ہے۔

آٹا مافیا کے پیچھے بھاگتے ہیںتو اپنے ہی رنگے ہاتھ پکڑے جاتے ہیں۔ گندم کی خریداری میںکسانوںکے ساتھ دھرو کیا گیا اور چاندی ہوئی بھی تو اسمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں کی۔ نیب حرکت میںآیا، نہ مالِمسروقہ برآمد ہوا کہ بڑے بڑے لوگوںکا یہی دھندہ ہے۔

جھوٹ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے جب کورونا کی وبا کو روکنے کی کامیاب حکمتِعملی کا سینہ پھلا پھلا کر ذکر کیا جاتا ہے۔ خود وزیراعظم طے کردہ لاک ڈائون کی پالیسی کو ناکام بنانے پر تُلے بیٹھے تھے۔

اور اس پر طرہ یہ کہ دُنیا کو اس پر عمل کرنے کی دعوت دے کر جگ ہنسائی کا بندوبست کیا گیا۔ جس ایک حکومت نے کچھ سنجیدگی دکھائی اُس کی ایسی مٹی پلید کی گئی کہ وزیراعلیٰسندھ بھی چپ سادھنے پہ مجبور ہو گئے، وگرنہ گورنر راج اور کراچی کو وفاق کا علاقہ بنانے کی دھمکیاںتو ہنوز جاری ہیں۔ یہ تو بس قدرت کا معجزہ ہے کہ کورونا کا وائرس جو پاکستان میںپھیلا وہ ذرا معتدل واقع ہوا، ورنہ قیامت ٹوٹ پڑتی۔

اس کالم میںتواتر سے مافیائوںاور گھریلو نوآبادیوں (Fiefdoms) کا ذکر کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان کے وفاق کے خلاف اگر کوئی متحرک ہے تو وہ انہی مافیائوںاور نوآبادیوںکا وفاق ہے۔ جب معیشت اور گورننس کے پیچھے یہی قوتیںہوںگی تو ایک اچھا بھلا ملک اور اُس کے جی دار عوام کیا کر پائیں گے؟

جن عدالتی، پولیس و انتظامی اصلاحات کا بہت ڈنکا بجایا جاتا رہا ہے وہ بس ہمارے محترم عشرت صاحب کا تحقیقی مشغلہ بن کے رہ گیا ہے۔ کسی بھی اصلاح پہ دو طرح کی نوکر شاہی مانتی ہے، نہ پولیس راضی ہوتی ہے اور جن کے ہاتھ میں184(3)ہے اُن کے نظامِانصاف کو کوئی ہاتھ تو لگا کے دکھائے۔ ان سب کے اوپر وہ ہیںجو سیاہ و سفید کے مالک ہیں اور کوئی اشاروں و کنایوںمیں گزارش کرتا بھی ہے تو اس کی سرزنش کی جاتی ہے۔ یادش بخیر وہ مقامی حکومت کہاںگئی جس کا بہت ڈھول پیٹا گیا۔

جو موجود تھیں، معطل کر دی گئیں اور جو بننی تھیں وہ تخلیق کے بطن میں مردہ پائی گئیں۔ پاکستان ایک دلدل میںپھنسا ہوا ہے۔ دست نگری و مفت خوری، کمر توڑ سلامتی، مافیائوںکی دو نمبر سرمایہ داری، پڑھے لکھے جاہلوں کی فوج ظفر موج، رجعت، توہم پرستی اور جہالت ہمارے بیچارے ملک کا طرئہ امتیاز ہے۔ ایسے میںکپتان یا بڑا کپتان کرے بھی تو کیا۔ آوے کا آوا بگڑا پڑا ہے۔

رہی اپوزیشن، نہ پتہ ہے کہ اس کا لیڈر کون ہے اور یہ چاہتی کیا ہے؟ ہمت ہے نہ راست بازی، حکمت ہے نہ متبادل پروگرام۔ سب ٹائیںٹائیںفش ہو کے رہ گئے ہیں۔ ایسے میں سول سوسائٹی، صحافی، وکلا اور محنت کش کریںبھی تو کیا، جب فقط سر پھوڑنا مقدر ہو جائے۔