اختیارات کا رونا اور کراچی کی تباہی

August 26, 2020

کراچی طویل عرصے سے مسائل کاشہر بن چکا ہے ۔ بڑھتی ہوئی آلودگی سے لے کر پانی کی نکاسی تک کا نظام درہم برہم ہے۔ بجلی کا بحران،ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، سڑکوں پر خطر ناک ٹریفک،پبلک ٹرانسپورٹ کا نہ ہونا، تعلیمی مسائل، گندگی سے پھیلنے والی بیماریوں سے لے کر کتے کے کاٹنے کے بعدلگائی جانے والی ویکسین کا موجود نہ ہونا،سمندر پاس ہوتے ہوئے بھی شہریوں کو پانی میسر نہ ہونا۔ اس کے علاوہ بھی بے تحاشا مسائل اس شہر میں موجود ہیں۔حالیہ بارشوں کے بعد جب شہر کی حالت مزید خستہ ہوئی تو ہر طرف شور مچ گیا۔لیکن یہ صورت حال ایک روز میں پیدا نہیں ہوئی ۔

اس کے پیچھے دہائیوں کی ’’مساعی ‘‘ کارفرما ہے۔ایسے میں یہ بحث زور پکڑچکی ہے کہ نظام پر توجہ دی جائے۔کوئی میئر کے اختیارات محدود ہونے کا شکوہ کررہا ہے،کوئی ایک چین آف کمانڈ کی بات کررہا ہے،کہیں مالیاتی مسائل اجاگر کیے جارہے ہیں،وغیرہ وغیرہ۔لیکن کوئی بیرونی دنیا کی طرف نہیں دیکھ رہا کہ دنیا کے دیگر شہروں کے نظام کس طرح چلائے جارہے ہیں ۔ یہاں ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا دنیا کے ہربڑے اور صاف ستھرے قراردیے جانے والے شہر کے میئرز بہت زیادہ اختیارات کے مالک ہیںیا وہاں کا نظام مجموعی طورپر ایسی ساخت کا حامل ہے کہ اس میں اختیارات کی جنگ اور اس بارے میں شکووں اور شکایات کی وجہ سے شہر میں تعمیر و ترقی کےکام رکنے نہیں پاتے؟

بلدیاتی ادارے، جمہوریت کی بنیادی اکائی

کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کا بنیادی تصور یونانی فلسفیوں نے دیا تھا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یونانی تہذیب نے دنیا کو جو سب سے بڑا تحفہ دیا وہ جمہوریت ہے۔ بلدیاتی ادارے جمہوریت کی بنیادی اکائی تصور کیے جاتے ہیں۔ دنیا کے ہر بڑے شہر مثلا لندن، نیویارک، واشنگٹن، ٹوکیو، سنگاپور، اور پیرس میں بلدیاتی نظام قائم ہے۔ جہاں میئر اور کونسلرشہر کا نظم ونسق چلانے کے ذمے دار ہوتے ہیں۔بعض شہروں میں تو پولیس بھی میئر کے ماتحت ہوتی ہے۔بلدیاتی نظام میں گلی ،محلے کے معاشرتی مسائل کو وہاں کی مقامی قیادت مقامی سطح پر حل کرتی ہے ۔ بلدیاتی نظام کے تحت شہری حکومت درج ذیل مسائل کو دیکھتی ہے:

شہر کی گلیوں کو پکا کرنا اور سڑکوں کی تعمیر ۔پینے کے پانی کی فراہمی۔گند آب کی نکاسی کا انتظام کرنا۔گلیوں اور محلوں کی صفائی،کچرا اٹھوانااور اسے ٹھکانے لگانے کا بندوبست کرنا۔ تعلیم،صحت،عوام کی فلاح کےاداروں، دارالمطالعوں اور کھیل کے میدانوں کاقیام اور انتظام کرنا۔شہر کو سر سبز اور شاداب اور خوب صورت رکھنا ۔ پارکوں اور تفریح گاہوں کا انتظام کرنا۔

بلدیاتی اداروں کو جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے ۔ بلدیاتی نظام کودنیا کے تمام مستحکم جمہوری ممالک میں جمہوریت کی پہلی سیڑھی تصور کیا جاتا ہے۔بلدیاتی انتخابات کے بغیر جمہوری نظام کا تصور بھی محال ہے۔ لیکن پاکستان میںاس کے برعکس ہوتا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ملک میں جب بھی سیاسی جماعتیں بر سراقتدار آتی ہیں تو انہیں بلدیاتی انتخابات کرانے کی توفیق نہیں ہوتی ۔اس کے برعکس جب بھی آمر اقتدار پر قبضہ کرتے ہیں تو جلد از جلد بلدیاتی انتخابات کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔

جمہوریت کا مطلب ہے عوام کی حکومت عوام کے لیے۔لیکن جمہوریت کی چیمپین سیاسی جماعتیں یہ بات اقتدار میں آکر بھول جاتی ہیں۔حالاں کہ تعمیراتی اور ترقیاتی کام بلدیاتی نظام ہی سے ممکن ہیں۔ہم کب یہ سمجھیں گے کہ رکن قومی یا صوبائی اسمبلی کا کام گلی کی نالی بنوانا نہیں بلکہ ایسی قانون سازی کرنا ہے جس سے تعمیرو ترقی کے کاموں میں آسانیاں پیدا ہوسکیں۔یہ کام بلدیاتی نمائندوں کا ہے،ایم این اے یا ایم پی اے کا نہیں۔ہماری سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ بلدیاتی نظام عام آدمی کی دست رس میں ہوتا ہے اور عوام اپنے علاقے کے مسائل اس نظام کی مدد سے حل کرسکتے ہیں۔

عوام کے دیرینہ مسائل کا حل بروقت بلدیاتی انتخابات اور بلدیاتی نظام کو مسحکم کرنے میں ہے۔جمہوری حکومتیں بلدیاتی انتخابات کرانے سے اس لیے ڈرتی ہیں کہ اس سے فنڈز اور اختیارات نچلی سطح پر عوام کو منتقل ہوجاتے ہیں جس سے ان کے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ اس نظام کی بنا پر ان اراکین کے لیے بدعنوانی کے دروازے بند ہوجاتے ہیں اور وہ گلیوں اور محلوں کی سڑکوں کی تعمیر، سیوریج اور فراہمی آب کے منصوبوں، تعلیمی اداروں اور اسپتالوں میں من مانیاں کرنے سے محروم ہوجاتے ہیں۔

نظام کے تجربات

ہمیں آزاد ہوئے ستّر برس سے زاید عرصہ ہوچکا ہے لیکن ہم اب تک یہ طے نہیں کرسکے ہیں کہ ملک میں کس طرح کا بلدیاتی نظام رائج ہونا چاہیے۔ہر فوجی آمر اپنا بلدیاتی نظام لے کر آتا ہے۔ان کے بعد آنے والی سول حکومتیں اسے ختم کردیتی ہیںاور ان اداروں میں اپنے پسندیدہ سرکاری افسران تعینات کردیتی ہیں۔ عوام کے مسائل یہ نام زد افسران نہیں بلکہ صرف اور صرف منتخب اور با اختیار بلدیاتی نمائندے ہی حل کرسکتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ ملک میں بلدیاتی نظام کی تاریخ کا سب سے اچھا نظام سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے دور میں نافذ کیا گیا تھا۔جس میں خواتین کے لیے 33 فی صد نشستیں رکھی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ اقلیتوں، مزدوروں اور کسانوں کو بھی خاطر خواہ نمائندگی دی گئی تھی۔ اس نظام کی وجہ سے بڑے شہروں میں ترقیاتی عمل تیز ہوا تھا۔ مگر ان کے رخصت ہوتے ہی ان کا متعارف کرایا گیا نظام بھی لپیٹ دیا گیا تھا۔ان تجربات کے نتیجے میں ملک بھر میں کراچی سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شہر نظر آتا ہے۔

چناں چہ وقت آچکا ہے کہ کراچی کے حالات کے تمام ذمے داران سے سوالات کیے جائیں کہ کیسے برساتی نالوں کے اندر بستیاں آباد ہوگئیں،کے ایم سی، کینٹونمٹ بورڈز اور ڈی ایچ اے اپنے علاقوں کو کیوں نہیں ٹھیک کرتیں، سندھ حکومت کے اداروں کی کارکردگی کیا ہے، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ پانچ دہائیوں سے کون چلا رہا ہے اور اس کی انتظامیہ کہاں ہے، کے ایم سی کے کتنے گھوسٹ ملازمین ہیں جو خصوصی خدمات پر مامور ہیں اور شہر کے لئے کام نہیں کرتے، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی برساتی بہاؤ کے بیچ کھڑی تعمیرات کو کیوں نہیں روک پائی اور سندھ حکومت نے دہائیوں کی ان خرابیوں کو درست کرنے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے ہیں۔درحقیقت ان سب نے مل کر کراچی کا یہ حال کیا ہےلہذا ان سب سے سوالات ہونے چاہئییں۔

اختیارات ہونا ہی پہلی اور آخری شرط ہے؟

اب جب ملک میں بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ آنے والاہے تویہ سوال ہر جانب سے کیا جارہا ہے کہ ان اداروں کے سربراہ کتنے بااختیار ہوں گے؟لیکن یہ سوال کیوں کیا جارہاہے؟کیا دنیا میں کچھ کرنے کے لیے اختیارات کا ہونا ہی پہلی اور آخری شرط ہوتی ہے۔کیا دنیا کے ہر بڑے اور ترقی یافتہ شہر کا میئر بہت طاقت ور ہوتا ہے؟یہ جاننے کے لیے ہم نے اس حوالے سے چند ممالک کا جائزہ لیا ہے اور یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ ان کے بڑے شہروں کے میئر کتنے با اختیار ہیں۔

دنیا بھر میں میئرز کے اختیارات اور ذمے داریاں مختلف ہوتی ہیں۔ اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ کسی شہر میں کس طرح کی مقامی حکومت ہے۔عام طو ر سے ریاست ہائے متحدہ، امریکا میں میئر کی ذمے داریاں درج ذیل ہوتی ہیں:

سٹی کونسل کے ذریعے خدمات انجام دینا۔کونسل کے اجلاسوں میں اپنی رائے کا اظہار کرنا۔مختلف کمیٹیز کی صدارت اور رکنیت کے لیے کونسل کے اراکین کو نام زد کرنا۔مشاورتی بورڈز اور کمیشنزکے لیے شہریوں کا تقرر کرنا۔سالانہ میزانیہ تیار کرنا اور چیف ایڈ منسٹریٹیو آفیشلز یا سٹی مینیجر کی جانب سے تیار کردہ سالانہ میزانیہ وصول کرنا۔سالانہ رپورٹ تیار کرکے اسے کونسل کے سامنے پیش کرنا۔

ریاست ہائے متحدہ ،امریکا کے بعض شہروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں کے میئرز اختیارات کے اعتبار سے طاقت ور ہوتے ہیں اور بعض شہروں کے میئرز اس اعتبار سے کم زور تصور کیے جاتے ہیں۔تاہم ان کے کم زور یا طاقت ور ہونے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ وہ موثر ہوتے ہیں یا غیر موثربلکہ اس سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ وہ سیاسی طور پر کتنے طاقتور ہیں اور میونسپل چارٹر میں انہیں کس حد تک انتظامی اختیارات تفویض کیے گئے ہیں۔ عملا ایسا کوئی پیمانہ نہیں ہے جس کے ذریعے کم زور اور طاقت ور میئر کا تعین کیا جاسکے۔

تاہم اس کے لیے یہ دیکھا جاتا ہے کہ متعلقہ شہر کے میئرز کے پاس ماضی میں کس قسم کے اختیارات تھے اور وہ شہر کس رفتار سے پھیل رہا ہے۔وہاں اس شہرکے میئر کو طاقت ور سمجھا جاتا ہےجہاں میئر کونسل کا نظام رائج ہوتا ہے اور میئر کا انتخاب بہ راہ راست عوام کرتے ہیں۔کم اختیارات والے میئرز ان شہروں کے تصور کیے جاتے ہیں جہاں کونسل مینیجر طرز کا نظام ہوتا ہے اور میئر کا انتخاب سٹی کونسل کے اراکین کرتے ہیں۔

طاقت ور یا زیادہ اختیارات والا میئر اسے تصور کیا جاتا ہے :

جومقامی حکومت کا چیف ایگزیکٹیو آفیسر ہوتا ہے اور تمام ترانتظامی اختیارات اس کے عہدے میں مرتکز ہوتے ہیں۔ جو انتظامی ڈھانچے کو بہ راہ راست احکامات جاری کرتا ہے ،یعنی وہ اس کے بہ راہ راست کنٹرول میں ہوتا ہے۔جو مختلف شعبوں اور محکموں کے سربراہان کا تقرر کرنے یا انہیں ہٹانے کا اختیار رکھتا ہے۔اگرچہ اس کی کونسل کے پاس قانون سازی کا اختیار ہوتا ہے ،لیکن اس کے پاس ویٹو پاور ہوتا ہے۔یعنی وہ کونسل کے بنائے ہوئے کسی قانون یا اس کی منظور کردہ کسی قرار داد کو اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے رد کرسکتا ہے۔جس کی کونسل کے پاس روزانہ کے امور پر نظر رکھنے کا اختیار نہیں ہوتا۔

کم زور یا کم اختیارات والا میئر اسے تصور کیا جاتا ہے :

جس کے شہر کی کونسل قانون سازی اور انتظامی اختیارات کے لحاظ سےطاقت ورہوتی ہے ۔جس کے اختیارات کم ہونے یا ویٹو پاور نہ ہونے کی وجہ سے میئر حقیقی معنوں میں چیف ایگزیکٹیو نہیں ہوتا۔جس کی کونسل شہر کی انتظامیہ کی موثر نگرانی سے میئر کو روک سکتی ہو۔جس کے علاقے میں ایسے متعدد انتظامی بورڈز اور کمیشنز ہو ں جو آزادانہ طور پر شہری حکومت کے دائرے میں رہ کر کام کرسکتے ہوں۔

ریاست ہائے متحدہ، امریکامیں کل 19429میونسپل کورنمنٹس یا مقامی حکومتیں ہیں۔بہت سے چھوٹے قصبوں میں کونسل مینیجر سسٹم رائج ہے اور زیادہ تر کاونٹیز کا نظام اسی طرح چلایا جاتا ہے۔جہاں یہ نظام نہیں ہے وہاں کم زور میئر کا نظام رائج ہے۔

تاہم وہاں کے تقریبا تمام بڑے شہروں میں طاقت ور میئر کا نظام موجود ہے۔جن قصبوں کی آبادی پانچ ہزار یا اس سے کم نفوس (مختلف ریاستوں میں یہ شرح مختلف ہے)پر مشتمل ہے وہاں مقامی حکومتوں کا نظام موجود نہیںہےاور ان کا انتظام بہ راہ راست کاونٹی کی حکومت چلاتی ہے۔

جہاں مقامی حکومتوں کا نظام موجود ہے وہاں میئرز اور سٹی کونسل کا انتخاب بہ راہ راست ہوتا ہے ۔ہر شہر کے چارٹر میں اس کے عہدے کی میعاد اور وہ کتنی مرتبہ منتخب ہوسکتا ہے، درج ہوتی ہے۔عام طور سے میئر کا انتخاب نومبر کے مہینے میں آنے والے پہلے پیر کے بعد آنے والے منگل کے روزوفاقی انتخابات کے ساتھ ہوتا ہے۔ تاہم تمام میونسپلٹیز میں ایسا نہیں ہوتا۔

شہری حکومتوں کی وسیع ذمّے اریاں

آج اسّی فی صد سے زاید امریکی شہری بڑے شہروں،ان کے نواح یاقصبوںمیں رہتے ہیں۔ ان کے پولیس سے لے کر صحت و صفائی،تعلیم سے لے کر آگ سے تحفظ تک اور رہایشی سہولتوں سے لے کر پبلک ٹرانسپورٹ تک کے معاملات عموما بہ راہ راست شہری حکومتیں دیکھتی ہیں۔وسیع تناظر میں ان حکومتوں کی تین قسمیں بیان کی جاتی ہیں۔یعنی میئر کونسل کا نظام ، کمیشن کا نظام اورسٹی کونسل مینیجر کا نظام۔ان میں سے میئر کونسل کا نظام سب سے پرانا بتایا جاتا ہے۔

میئر کا انتخاب ہوتا ہے اور اس کی کونسل کے اراکین جنہیں ایلڈر مین ALDERMEN) ( کہا جاتا ہے، بعض اوقات منتخب کیے جاتے ہیں اور بعض اوقات ان کا انتخاب وارڈز یا اضلاع سے کیا جاتا ہے۔میئر ایگزیکٹیو شاخ کا سربراہ ہوتا ہے جو کونسل کے اجلاسوں کی صدارت کرتا ہے ،شعبوں کے سربراہان کا کونسل کی منظوری سے تقرر کرتا ہےاور اور اکثر شہر کے بجٹری آفیسر کا بھی تقرر کرتاہے۔اسے شہر کی قانون ساز شاخ یعنی کونسل کے منظور کردہ آرڈی نینس کو ویٹو کرنے کا بھی اختیار ہوتاہے۔

طاقت ور میئر کونسل طرز کا نظام وہاں 1990کی دہائی سے زیادہ تر بڑے شہروںمیںبہت مقبول ہے۔ بڑے شہروں میں میئر کو شہر کے بارے میں پالیسی بنانے کا اختیار ہوتا ہےاور شہر کی انتظامیہ کو روزانہ کے امور کی دیکھ بھال کی ذمے داری نبھانا ہوتی ہے۔عام طور سے شہری حکومت کے قانون ساز سالانہ میزانیہ اور عمومی پالیسی بناتے ہیں،قوانین کی قرارداد کی صورت میں منظوری دیتے ہیںاور حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔

ٹورنٹو ،کینیڈا کا میئر بر بنائے عہدہ شہر کی کونسل کا سربراہ ہوتا ہے۔وہ سرکاری تقریبات میں شہر کی نمائندگی کرتا اور شہر کے سی ای او کے طور پر کام کرتا ہے۔سی ای او کی حیثیت سے اس پر یہ ذمے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ شہر کے امور میں عوام کی شرکت کو یقینی بنانےاورشہریوں کی فلاح کے لیے کام کرے۔دی سٹی آف ٹورنٹو ایکٹ کے مطابق شہر کے منتخب میئر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ شہر کی ترقی اور بہتری کے لیے کام کرے اور سٹی کونسل اس سے یہ اختیار چھین نہیں سکتی۔

تاہم مذکورہ ایکٹ میئر کو محض چند اختیارات دیتا ہے جن میں سے زیادہ تر رسمی نوعیت کے ہیں۔دوسری جانب کونسل اسے جو اختیارات دیتی ہے وہ انہیں جب چاہے واپس لے سکتی ہے۔میونسپل گورنمنٹ آف ٹورنٹو کا میئر شہر کے بیش تر امورکے بارے میں اکیلے فیصلے کرنے کا مجاز نہیں ہے بلکہ اس کام کے لیے وہ سٹی کونسل کا پابند ہے۔اس کے اختیارات کا منبع سٹی آف ٹورنٹو ایکٹ اور سٹی کونسل کے بائی لاز ہیں۔

تاہم ان میں اونٹاریو کی ریاستی اسمبلی جب چاہے ترمیم کرسکتی ہے۔کینیڈا میں ایک عدالتی حکم کے مطابق میونسپلٹیز کو آئینی طور پر آزادانہ حیثیت حاصل نہیں ہے بلکہ وہ صوبائی پارلیمان کی رائے کے ماتحت ہیں۔مذکورہ ایکٹ کے تحت میئر سٹی کونسل کا سربراہ ہوتا ہے اور شہر کا چیف ایگزیٹیو آفیسر ہوتا ہے۔

وہ سٹی کونسل کے اجلاس کی صدارت کرسکتا ہے تاکہ شہر کے امور سہولت سے اور موثر انداز میں چلائے جاسکیں، وہ کونسل کو رہنمائی فراوہم کرسکے،سرکاری تقریبات میں شہر کی نمائندگی کرسکے،کونسل کو مخصوص معلومات فرہم کرسکے اور تجاویز دے سکے۔وہ پولیس کو کنٹرول نہیں کرسکتا۔اپنے شہر کے قانون سازوں پر اثر انداز نہیں ہوسکتا۔نہ ہی وہ کوئی ایگزیکٹیو آرڈر جاری کرسکتا ہے۔

وہ شہر کا نظام چلانے کا ذمے دار نہیں ہوتا کیوں کہ یہ سٹی مینیجرز کا کام ہے۔تاہم ہنگامی حالات میں اسے بعض اقسام کے اہم فیصلے کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔مثلا شدید برف باری کی صورت میں وہ فوج کو طلب کرسکتا ہے ۔ جیسا کہ 1999میں ہوا تھا۔اس کے مقابلے میں سٹی کونسل کو زیادہ اختیارات حاصل ہیں۔

پیرس ،فرانس میں شہر کا نظم نسق چلانے کے لیے سٹی گورنمنٹ قائم ہے۔وہاں میونسپلٹی کی تاریخ 1790سے شروع ہوتی ہے۔کونسل آف پیرس شہر کا نظم نسق چلاتی ہے۔یہ بہ یک وقت پیرس سٹی کونسل اور جنرل کونسل فار دی ڈپارٹمنٹ ڈی پیرس کے اختیارات استعمال کرتی ہے۔ پیرس کا میئر سٹی کونسل آف پیرس کا صدر ہونے کے ساتھ مذکورہ ڈپارٹمنٹ کابھی صدر ہوتا ہے۔شہر میں163 کونسلرز ہیں۔

یہ فرانس کا واحد شہر ہے جس کا دہرا کردار ہے۔یعنی ایک جانب کمیون کا اور دوسری جانب ڈپارٹمنٹ کا کردار۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی وجہ پرانا طرز حکومت ہے جس کی جڑیں تاریخ میں پیوست ہیں۔بعض شعبوں پر پری فیکچرز کا کنٹرول ہے اور بعض پر وفاقی حکومت کا۔آگ سے تحفظ ،امدادای سرگرمیوں اور پولیس کا شعبہ بہ راہ راست وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہے۔شہر کی کوئی میونسپل فورس نہیں ہے۔تاہم اس کے اپنے ٹریفک وارڈنز ہیں۔

کونسلرز کا انتخاب چھہ برس کے لیے کیا جاتا ہے۔شہر کے بیس میونسپل سب ڈویژنز ہیں۔ ہر ڈویژن کا اپنا ٹاون ہال اور منتخب کونسل ہے جو اپنے سب ڈویژن کے لیے ایک میئر کا انتخاب کرتی ہے۔کونسل آف پیرس کےچنیدہ اراکین پیرس کے میئر کا انتخاب کرتے ہیں۔پیرس کے کمیون اور ڈپارٹمنٹ کے دہرے کردار کے باوجوداس کی ایک کونسل یعنی کونسل آف پیرس ایسا ادارہ ہےجو دونوں کے معاملات دیکھتا ہے۔

اس کونسل کی صدارت پیرس کا میئر کرتا ہے۔پہلےشہر کے میئر کو زیادہ اختیارات حاصل نہیں تھے ،لیکن 1977میں کی جانے والی اصلاحات کے نتیجے میں اس کے اختیارات میں اضافہ ہوا۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ فرانس کا بلدیاتی نظام کافی پےچیدہ ہے۔پیرس کانظام بھی بہت سی پے چیدگیوں کا کا حامل ہے جس کی وجہ سے وہاں نواحی علاقوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔اگر چہ 2005میں نواحی علاقوں میں پھوٹ پڑنے والے فسادات کے بعد نظام کو بہتر بنانے کی کچھ سعی کی گئی تھی لیکن مسئلہ پوری طرح حل نہیں ہوسکا ہے۔

یہ مثالیں بتاتی ہیں کہ مختلف ممالک کے مختلف شہروں میں کم زور اور طاقت ور میئرز ہونے کے باوجود وہاں بلدیاتی نظام مجموعی طورپر اس طرح کام کرتا ہے کہ کسی شہر کی تعمیروترقی کا عمل رکنے نہیں پاتا۔کیا ہم ان مثالوں سے سیکھ کر اپنے شہروں کی حالت بہتر نہیں بنا سکتے؟

لندن کے میئر کو حاصل کم آزادی

انگلستان اور ویلز میں میئر کا انتخاب انیسویں صدی سے ہونا شروع ہوا۔انگلستان میں یہ نظام 1882کے میونسپل کارپوریشن ایکٹ کی شق نمبر 15کے تحت شروع ہوا تھاجس کے ذریعے میئر کا انتخاب ممکن بنایا گیا۔تاہم بیسویں صدی میں زیادہ تر انگلستان اور ویلزکے بوروز BOROUGHS میں میئرز کو زیادہ انتظامی امور تفویض نہیں کیے گئے تھے اور عام طور سے اسے ایک امتیازی شان کے طور پر دیا گیا اعزاز سمجھا جاتا تھا۔

تاہم 2000 میں متعارف کرائی گئیں اصلاحات کے نتیجے میں انگلستان کی چودہ لوکل اتھارٹیز نے اپنے لیے میئر کا بہ راہ راست انتخاب کیا جو مل کر سوک میئر کا کردار نبھاتی ہیں ۔ ان میں لیڈر آف دی کونسل ہوتا ہے اور ان کے اختیارات پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔

ٹاون کونسل کا میئر ٹاون میئر کہلاتا ہے۔ویلز میں بھی میئر کا اسی طرح انتخاب ہوتا ہے۔یعنی بورو،کاونٹی اور سٹی کونسل کی سطح پر۔بڑے شہروں کے میئر لارڈ میئر کہلاتے ہیں۔

گریٹر لندن اتھارٹی کا میئر ہر چار برس بعد منتخب کیاجاتا ہے۔اسی طرح لندن اسمبلی کے اراکین کا بھی انتخاب کیا جاتا ہے۔اسے ایگزیکٹیو میئر کہا جاتا ہے۔ لندن اسمبلی 25اراکین پر مشتمل ہوتی ہے۔اس اتھارٹی کو ٹرانسپورٹ ، پولیسنگ، اقتصادی ترقی،فائر اور ایمرجنسی پلاننگ وغیرہ کے ضمن میں کافی اختیارات حاصل ہیں۔

اسے زیادہ تر فنڈ حکومت کی طرف سے ملتے ہیں۔میئر جو بھی پالیسی بناتا ہے اسے باقاعدگی سے عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ دی گریٹر لندن اتھارٹی کو کسی حد تک لوکل کونسل ٹیکس وصول کرنے کا بھی اختیار ہے۔میئر آف لندن دراصل دی گریٹر لندن اتھارٹی کا حصہ ہوتا ہے۔ لندن اسمبلی اس کی کارکردگی پر نظر رکھتی ہے۔میئر کے اختیارات عمومی اور خصوصی اقسام کے ہیں۔اس کی اہم ترین ذمےداریاں یہ ہیں:

گریٹر لندن کی حدود میں اقتصادی ترقی اور دولت میں اضافےاور سماجی ترقی کو فروغ دینا۔ماحول کی بہتری کے لیے کوشش کرنا۔

2007میں کی جانے والی اصلاحات کے نتیجے میں اسے ہاوسنگ، پلاننگ، کچرے اور فضلے اور ماحولیات سے متعلق امور کے بھی اختیارات تفویض کیے گئے ہیں۔

گریٹر لندن اتھارٹی کے چار فنکشنل بازو ہیں جو آزادانہ طور پر کام کرتے ہیں، لیکن ان کی اسٹریٹجک سمت کا تعین میئر کرتا ہے۔ان میں سے ایک بازو لندن ڈیولپمنٹ ایجنسی تھی جسے اب ختم کردیا گیا ہے۔دوسرا بازو میٹرو پولیٹن پولیس اتھارٹی تھی جسے اب میئر آفس فار پولیسنگ اینڈ کرائم میں تبدیل کردیا گیا ہے۔اب چار نئے ادارے ٹرانسپورٹ ، پولیسنگ، ترقیات،فائر اور ایمرجنسی سروس کے لیے بنائے گئے ہیں۔

تاہم لندن کے میئر کو اپنے اختیارات استعمال کرنے کے ضمن میں بہت کم آزادی حاصل ہے کیوں کہ اتھارٹی کو کئی معاملات میں بہ راہ راست سروس اور ڈلیوری کے اختیارات حاصل ہیں۔میئر اتھارٹی کی فنکشنل باڈیز کے لیے کسی سینیر ممبر کا تقرر نہیں کرسکتا۔نہ ہی وہ میٹرو پولیٹن پولیس کمشنر کا تقرر کرسکتا ہے۔تاہم وہ ٹرانسپورٹ آف لندن اور میئر آفس فار پولیسنگ اینڈ کرائم کے اجلاس کی صدارت کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔

اس کا دوسرا بڑا اختیار جی ایل اے کے لیے میزانیہ بنانا ہے جو بارہ ارب یورو سے زیادہ کا ہوتا ہے۔ وہ لندن کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کی غرض سے مرکزی حکومت سےفنڈ لینے کے لیے رابطہ کار کا کردار بھی ادا کرتا ہے۔وہ شہر کے لیے اسٹریٹجک پلان بنانے کا بھی ذمے دار ہوتا ہے اور اسے اتھارٹی کے فنکشنل بازووں کو ہدایات دینے کا بھی اختیار ہوتا ہے۔

لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ منصوبہ بندی کرنے کے بعد اس کے نکات کے بارے میں اتھارٹی سے صلاح و مشورہ کرے،اپنے منصوبوں کو مشتہر کرے، میئر اور لندن اسمبلی اتھارٹی کو اپنی سالانہ رپورٹس پیش کرے۔میئر کے لیے لازم ہے کہ وہ سال میں ایک مرتبہ اسٹیٹ آف لندن مباحثے کا اہتمام کرے اور سال میں دو مرتبہ میئر اور اسمبلی عوام کے سوالات سننے کے لیے اجلاس منعقد کریں جس میں عوام سوالات پوچھ سکیں۔