کراچی: اُجڑے دیار کی باتیں

September 02, 2020

دس برس قبل صوبہ سندھ میں آنے والے قیامت خیز سیلاب کے اثرات سے نکلنے میں اس کے باسیوں کو برسوں لگے تھے کہ اس برس پھر صوبے کے باسیوں پر مون سون کے موسم میں سخت مشکل آپڑی۔لیکن اس مرتبہ دیہی سندھ کے مقابلے میں صوبے کے سب سے بڑے شہر،کراچی میں اربن فلڈنگ نے تباہی مچائی۔تاہم یہ پاکستان ہے جہاں سیلاب، خشک سالی اور زلزلے جیسی قدرتی آفات سے کہیں نہ کہیں سال میں ایک یا دو مرتبہ تو واسطہ پڑتا ہی ہے۔ 1947ء سے 2007ء تک پاکستان میں آنے والی قدرتی آفات کے نتیجے میں ہونے والے مالی نقصانات ایک محتاط اندازے کے مطابق چوبیس کھرب پچاس ارب روپے کے تھے۔

اس عرصے میں اقتدار میں رہنے والے فوجی آمروں اور جمہوری حکم رانوں نے انتظامِ آفات (ڈیزاسٹر مینجمنٹ) کا مؤثر اور مربوط نظام تشکیل دیا ہوتا تو یہ کھربوں روپے ملک کی اقتصادیات اور قوم کی حالت کو بہتر بنانے پر خرچ ہوسکتے تھے۔جب ستّربرسوں میںہم یہ نظام تشکیل نہیں دے سکے تو اس کا گلہ محض موجودہ صوبائی اور وفاقی حکومت سے کرنا شاید مناسب نہ ہو۔ تاہم پے درپے آنے والی قدرتی آفات ہمیں بار بار ایسا نظام تشکیل دینے کی مہلت یا اشارہ دے رہی ہیں۔

صوبہ سندھ میں حال میں ہونے والی زبردست بارش کا پانی تو کئی علاقوں سے نکل گیا ہے یا نکل رہا ہے ۔ لیکن کراچی کاخستہ حال بنیادی ڈھانچا مزید کم زور ہوگیا ہےجس کے منفی اثرات نہ صرف اس شہر کے سماجی اور اقتصادی حالات پر تادیر پڑتے رہیں گے بلکہ صوبہ سندھ اور ملک پر بھی اس کے منفی اقتصادی اثرات مرتب ہوں گے۔

موسمیاتی تبدیلی نے بہت کچھ بدل دیا

ہمارے ذمّے داران تو سوتے رہے،لیکن موسمیاتی تبدیلی کا فطری نظام اپنا کام کرتا رہا۔حالاں کہ 2010 سے یہ بات بالکل واضح ہوچکی ہے کہ پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے بُری طرح متاثر ہیں۔تاہم ہم نے اس سے بچنے کے لیے محض چند نیم دلانہ اقدامت اٹھائے اور یہ سمجھا کہ بس ہم نے بہت کچھ کرلیا ہے۔لیکن اب ہر آنے والا موسم ہمیں یہ بتاتا رہتا ہے کہ وہ پہلے جیسا نہیں رہا ہے۔موسمِ سرما میں کہیں معمول سے زیادہ سردی اور دھند کی خبریں آتی ہیں تو موسمِ گرما میں معمول سے زیادہ گرمی اور ہیٹ ویووزکا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اور مون سون نے تو یوں لگتا ہے کہ اپنی جون ہی تبدیل کرلی ہے۔

میٹریولوجی،ایک نظر انداز شعبہ

ماحول اور موسمیات سے متعلق شعبوں میں میٹریولوجی کے مضمون کو بہت اہمیت حاصل ہے، لیکن ہماراحال یہ ہے کہ آج بھی پاکستان میں اسے بہ حیثیت مضمون نہیں بلکہ طبیعیات کی ایک شاخ کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ فضا سے متعلق فزکس (PHYSICS OF ATMOSPHERE) میں ہے، لیکن بہت سے ممالک میں اسے ایک علٰیحدہ مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ ہمیں بھی فوری طور پر اس ضمن میں اقدامات اٹھانے چاہییں۔

مون سون کےخطرناک انداز

ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے دنیا بھر میں موسموں کی تبدیلی ٹھوس حقیقت بن چکی ہے اور ماحول اور موسمیات کے ماہرین اس بارے میں بہت کچھ ثابت کرچکے ہیں اور تاحال ان کی تحقیق کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ ان ماہرین کے مطابق پاکستان بھی موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہوچکا ہے۔چناں چہ محکمہ موسمیات کے مطابق یکم جولائی سے شروع ہونے والی مون سون کی بارشوں کے دوران 28 اگست تک بارشوں کے حالیہ سلسلے کے شروع ہونے سے پہلے تک اکتّیس فی صد’’غیر معمولی‘‘ بارشیں ہوچکی تھیں۔

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق یکم اگست سے تیس اگست تک ملک بھر میں مون سون بارشوں سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 116 ہوچکی ہے۔حکام کے مطابق مجموعی طورپرملک بھر میںدس چھوٹی بڑی سڑکوں، نو پلوں اور دو پاور ہاوسز کو نقصاں پہنچ چکا ۔ مکمل طورپر تباہ ہونے والے گھروں کی تعداد1051اور جزوی طور پر 543گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔محکمہ موسمیات کے ترجمان ڈاکٹر محمد خالد ملک کے مطابق وہ توقع کر رہے ہیں کہ پاکستان میں مون سون کا موسم، جو پندرہ ستمبر تک ہوتا ہے، اس مرتبہ تیس ستمبر تک رہے گا ۔

ان کے بہ قول عموماً پاکستان میں مون سون کے دو ٹریک ہیں۔ایک پنجاب اور دوسرا سندھ ہے۔ عموماً پنجاب میں مون سون کی اسّی فی صد بارشیں ہوتی ہیں۔ جس میں ملک کے شمالی علاقہ جات بھی شامل ہوتے ہیں۔ سندھ میں یہ بیس فی صد ہوتی ہیں۔ مگر اس سال یہ ہوا کہ مون سون کے دو ٹریک میں پچاس،پچاس فی صد بارشیں ہوئیں۔ جس کی وجہ سے پانی کھڑا بھی ہوا اور ہمیں شدید صورت حال کا بھی سامنا کرنا پڑا۔محکمہ موسمیات کے مطابق سندھ میں رواں سال اگست کے دوران ستّرفی صد بارشیں ہوئی ہیں۔

سندھ میں خراب صورتِ حال

ان حالات میں صوبہ سندھ کی حکومت نے پہلے صوبے میں رین ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا اور پھر اعلان کیا کہ رواں مون سون کے دوران شدید بارشوں کی وجہ سے مختلف اضلاع میں جانی و مالی نقصانات کے باعث بیس اضلاع آفت زدہ قرار دے دیے گئے ہیں ۔ حکومت ِسندھ حکومت کے نوٹیفیکیشن کے مطابق ان میں کراچی کے چھ ضلعے، حیدرآباد، بدین، ٹھٹہ، سجاول، جامشورو، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو الہ یار، مٹیاری، دادو، میرپور خاص، عمر کوٹ تھرپارکر، شہید بے نظیرآباد، اور سانگھڑ شامل ہیں۔ان تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ نقصانات کا تخمینہ لگا کر معاوضوں کی ادائیگی کے لیے اقدامات کریں۔

یاد رہے کہ سندھ کے کئی علاقوں میں مون سون کی بارشوں سے لوگوں کے گھر، کاروبار اور زندگیاں متاثر ہوئی ہیں اور بہت سے علاقوں میں بجلی، گیس اور موبائل سروس جیسی بنیادی ضروریات کی عدم دست یابی کے مسائل بھی موجود ہیں۔

ادہر کراچی سمیت پاکستان کے بعض علاقوں میں طوفانی بارش کے بعد سول انتظامیہ اور فوج کی جانب سے امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔تاہم محکمہ موسمیات نے مزید بارشوں کی پیش گوئی کر دی ہے۔کراچی میں بعض مقامات پر رابطے منقطع ہونے سے لوگ اپنے خاندان اور دوست احباب سے کٹ کر رہ گئے ہیں۔ لوڈشیڈنگ اور سیلولر نیٹ ورک کی بندش کو بارش کے اثرات سے جوڑا جا رہا ہے۔

کراچی پولیس کے مطابق جمعرات ،ستّائیس اگست کو شہر کے مختلف علاقوں میں بارش کی وجہ سے پیش آنے والے حادثات میں خواتین اور بچوں سمیت کم از کم 23 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ کراچی پولیس کے تعلقات عامہ کے دفتر کے مطابق جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب ضلع شرقی کے علاقے سچل میں تین افراد انتہائی تیز پانی میں بہہ گئے تھے۔

تاہم پولیس کے مطابق اب بھی مختلف واقعات میں بہہ جانے والے افراد کی لاشیں ملنے کا عمل جاری ہے جنہیں مختلف سرد خانوں میں رکھا جارہا ہے۔ اکتّیس اگست تک کراچی پولیس کے پبلک ریلیشن آفس کا کہنا تھاکہ ابھی پولیس اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ ہلاک ہونے والوں یا جمعے کے روز ملنے والی لاشوں کے حوالے سے اعداد و شمار بتا سکے۔

دوسری جانب ایدھی فاونڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی کے مطابق جمعہ، اٹھائیس اگست کو انہیں کراچی سے آٹھ لاشیں ملی تھیں۔ ان کے ادارے کے مرتب کردہ ریکارڈ کے مطابق حالیہ بارشوں اور سیلابی صورت حال کے دوران 26اگست کو 17 افراد،27اگست کو24افراد ہلاک ہوئے اور28 اگست کو آٹھ افراد کی لاشیں ملی تھیں۔ایدھی فاونڈیشن کے ریکارڈ کے مطابق شہر میں بارش کے باعث سیلابی پانی میں ڈوب کر،دیواریں اور چھتیں گرنے اور کرنٹ لگنےکے حادثات میں 49اموات ہوئیں۔

کراچی کے متعدد علاقے ایسے بھی ہیں جہاں اکیس اگست کو ہونے والی بارشوں کا پانی ستّائیس اگست تک نہیں نکل سکا تھا کہ ستّائیس اگست کی طوفانی بارش نے رہی سہی کسر پوری کردی اور تادمِ تحریر (یکم ستمبر)تک یہ ہی صورت حال تھی۔

فلیش فلڈاوراربن فلڈنگ

ملک میں2010میں آنے والے قیامت خیز سیلاب کے نتیجے میںدو ہزار سے زاید افراد ہلاک، تقریباً تین ہزار زخمی اور ایک کروڑ دس لاکھ افراد بے گھر ہوئے تھے۔ 19لاکھ 10ہزارچار سوانتیس مکانات کو نقصان پہنچا تھا۔ مجموعی طور پر دو کروڑ سے زاید پاکستانی متاثر ہوئے اور ملک کےاٹہتّراضلاع میں شدید نقصانات ہوئے تھے۔ آب پاشی کے نظام، پلوں، گھروں، سڑکوں اور ریل کی پٹریوں کو پہنچنے والے نقصانات کا اندازہ دس ارب امریکی ڈالرز کے مساوی لگایا گیا تھا۔

متاثر ہونے والے زیادہ تر اضلاع میں فلیش فلڈ سے نقصانات ہوئے تھے جس سے نمٹنے کے لیے تاحال کوئی حکمت عملی ترتیب نہیں دی گئی ہے۔ اچانک اور تیزی سے آنے والے اس قسم کے سیلاب سے نمٹنے کے لیے بہت سے ممالک بہ شمول جرمنی نے بہت اچھے انتظامات کیے ہیں جن کی وجہ سے اب وہاں فلیش فلڈ آتے تو ہیں مگر ان سے نہ ہونے کے برابر جانی اور مالی نقصانات ہوتے ہیں ۔ ایسا نظام پاکستان میں بھی قائم کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کے لیے مقتدر حلقوں کو اپنی ترجیحات تبدیل کرنا ہوں گی جو سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

ملک کے مختلف علاقوں میں بائیس جولائی 2010ء سے فلیش فلڈزآنے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔اچانک اور تیزی سے آنے والا سیلاب (فلیش فلڈ) دراصل کسی علاقے میں ہونے والی بارشوں کی وجہ سے نمودار ہوتا ہے اور تین سے پانچ گھنٹوں میں کسی مخصوص علاقے میں آتا ہے۔ یہ عموماً ندی نالوں میں پانی بھرنے سے آتا ہے جو عموماً خشک رہتے ہیں یا پھر ان میں بہت کم پانی رہتا ہے۔ اس قسم کے سیلابی ریلوں میں پانی کی مقدار بیس ہزار کیوسکس سے بھی کم ہوتی ہے، لیکن پہاڑی ڈھلوانوں کی وجہ سے ان میں تیزی آجاتی ہے۔ فلیش فلڈ سے نمٹنے کے لیے علٰیحدہ طرح کا نظام بنانا پڑتا ہے۔ تاہم پاکستان میں تاحال اس سلسلے میں کوئی خاص کام نہیں ہوا ہے اور یہاں اس قسم کے سیلاب کے بارے میں پیشگی اطلاع دینے کا کوئی مربوط نظام نہیں ہے۔

شہروں میں بارش کا پانی اکٹھا ہوجانے سے سٹی یا اربن فلڈنگ ہوتی ہے۔ مثلاً اگر کراچی میں سو ملی میٹر بارش ایک روز میں ہوجائے تو پورا شہر ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس ضمن میں بنیادی ذمے داری مقامی حکومتوں یا بلدیاتی اداروںکی ہے کہ وہ پانی کی نکاسی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر انتظامات کریں۔ فلیش فلڈ اور سٹی فلڈنگ کو روکنے کے لیے ہمیں متعلقہ علاقوں میں سوکلومیٹر رینج والے ریڈار لگانے ہوں گے۔ ان ریڈارز کو مقامی حکومتیں چلائیں۔ ان کی مدد سے ہم پہاڑی علاقوں میں مٹی کے تودے گرنے اور لینڈ سلائیڈنگ وغیرہ پر بھی نظر رکھ سکتے ہیں۔

محکمہ موسمیات کراچی نے ستّائیس اگست کی بارش سے قبل بتایا تھا کہ اکّیس اگست کی بارشوں سے پیدا ہونے والی صورت حال’’اربن فلڈنگ‘‘ تھی اورپیر سے بدھ کے دوران ہونے والی بارشوں میں بھی اربن فلڈنگ کا خدشہ موجود ہے۔محکمہ موسمیات کراچی کے ڈائریکٹر سردار سرفراز کے مطابق یہ صورت حال شدید بارشوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔محکمہ موسمیات کے مطابق کراچی میں ستّائیس اگست کی بارش کے بعد شہر میں ایک ماہ میں بارش کا تقریباً نو دہائی پرانا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔

محکمہ موسمیات سندھ کے چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفرازکا اس روز کہنا تھا کہ اگست 2020میں شہر میں 484ملی میٹر بارش ریکارڈ کی جا چکی ہے جس میں سے 130 ملی میٹر بارش صرف ستّائیس تاریخ کو ہوئی ہے۔دست یاب ڈیٹا کے مطابق کراچی میں اگست کے مہینے میں اب تک اتنی بارش ریکارڈ نہیں کی گئی اور آخری مرتبہ 1931 میں اتنی بارش ریکارڈ کی گئی تھی۔محکمۂ موسمیات کراچی کے مطابق ستّائیس اگست کو صبح آٹھ بجے سے رات گیارہ بجے تک سب سے زیادہ بارش پی اے ایف فیصل بیس پر 223.5 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی تھی۔کیماڑی میں 167.5،شمالی کراچی میں 166.6، ناظم آباد میں 159.1 اور پی اے ایف مسرور بیس پر 148.5 اور ایئرپورٹ اور اس کے گردونواح میں 121 ملی میٹر تک بارش ریکارڈ کی گئی تھی۔

محکمہ موسمیات کے بہ قول کراچی میں اگست کے مہینے میں تیس برسوں میں بارش کا اوسط اکسٹھ ملی میٹر تھا۔ تاہم اس برس اگست میں بارشوں کے ستّائیس تاریخ سے قبل آنے والے تین سلسلوں کے دوران ہی اِکسٹھ ملی میٹر سے زاید بارش ریکارڈ کی جاچکی تھی۔ستّائیس اگست کو ہونے والی بارش کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے سردار سرفراز نے کہا تھا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ بارشوں کا یہ سلسلہ گزشتہ تین سلسلوں سے زیادہ شدید ہوسکتا ہے، جس کی وجہ سے اربن فلڈنگ جیسی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے جس سے شاید پورا کراچی ہی متاثر ہو، مگر نشیبی علاقے،اولڈ سٹی ایریاز، صدر وغیرہ کے علاقوں کے متاثر ہونے کا زیادہ امکان ہے۔

سردار سرفراز کا کہنا تھا کہ اکّیس اگست کو سرجانی ٹاؤن اور اردگرد کے علاقوں میں تو 106 ملی میٹر بارش ہوئی، مگر کراچی کے کچھ علاقے ایسے تھے جہاں بتّیس ملی میٹر تک بارش ہوئی پھربھی وہاں صورت حال سنگین ہوگئی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں کچھ علاقوں میں آدھے گھنٹے کے دوران پچاس ملی میٹر بارش ہوئی تھی۔ ان کے مطابق کم وقت میں زیادہ بارش ہونے سے بھی حالات گمبھیر ہوجاتے ہیں۔

یہاں سوال یہ ہے کہ کراچی کی اس کہانی کا کوئی انت بھی ہے؟ ماہرین کے مطابق کراچی میںاربن فلڈنگ کی بنیادی وجہ پانی کو نکاسی کے لیے راستہ نہ ملنا اور کوڑے کرکٹ کو ٹھکانے نہ لگانا ہے۔شہری منصوبہ بندی کے ماہرین کے بہ قول کراچی ایسا شہر ہے جو بغیر کسی منصوبہ بندی کے بڑھتا اورشہر کنکریٹ کا جنگل بنتا چلا گیا ہے۔ کراچی میں پانچ سو سے زاید برساتی نالے ہیں جو بحیرہ عرب میں جا کرگرتے ہیں۔

مگر آبادی بڑھنے کے باعث کراچی کی ندیوں اور نالوں پر بھی آبادیاں قائم ہوگئیں۔ آج اس شہر میں کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کا مؤثر انتظام ہے اور نہ نکاسیِ آب کی کا کوئی انتظام ہے۔ان حالات میں اب اگر شہر میں معمول کی بارشیں بھی ہوں تو صورت حال نارمل نہیں رہتی۔اور خیر سے اب تو یہاں معمول سے زیادہ برسات ہونے لگی ہے۔ اس صورت حال میں کراچی میں اربن فلڈنگ اور اس کے نقصانات کا خدشہ پہلے سے زیادہ ہوچکا ہے۔

ماہرین کے مطابق اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ شہر کا ماسٹر پلان دوبارہ بنایا جائے، جس میں اس شہر کی ضروریات کو مدنظر رکھا جائے۔یہ ایک طویل مدتی کام ہے۔تاہم فوری طور پر کرنے کا کام یہ ہے کہ تمام ندی نالوں پر سے تجاوزات ختم کی جائیں اور انہیں اچھی طرح صاف کیا جائے۔

بحالی اور تعمیرِنو کا کام اور منصوبہ بندی

ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ بعد از آفت بحالی اور تعمیرنو کا کام کسی بھی صورت میں دو یا چار سال کا نہیں بلکہ طویل المدت ہوتا ہے۔ اس کے لیے دس پندرہ برس کی منصوبہ بندی درکار ہوتی ہے۔ دنیا میں اب تک اس حوالے سے بہترین کام امریکا میں کیا گیا ہے۔ یہ مثالی کام انہوں نے سول وار (خانہ جنگی) کے بعد کیا تھا۔ بہت سے ممالک اور افراد نے اس سے بہت کچھ سیکھا اور وہ انداز اپنایا ہے۔

شمال اور جنوب کی ریاستوں کے درمیان غلامی ختم کرنے کے معاملے پر شروع ہونے والا جھگڑا خانہ جنگی تک جاپہنچا تھا جس میں امریکا کا جنوبی علاقہ بری طرح تباہ ہوگیا تھا۔ اس خانہ جنگی کے بعد کافی عرصے تک امریکا میں معاشی بحران بھی رہا تھا۔ جنوبی علاقہ زراعت کی وجہ سے اہمیت کا حامل تھا۔ تعمیرنو کا کام یہ تھا کہ متعلقہ افراد لوگوں کے مسائل ان کے علاقے میں جاکر سمجھنے کی کوشش کریں۔ پھر ان مسائل کی نشان دہی کرکے انہیں حل کرنے کے لیے ماڈل بنائیں۔یوں تحقیق اور لگن کے ساتھ انہوں نے اپنا ہدف حاصل کرلیا۔ ماہرین کے مطابق سندھ میں بھی حکومت غیرسرکاری اداروں اور تنظیموں کے ساتھ مل کر اس طرح کا کام کرسکتی ہے۔

دنیا بھر میں ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ قدرتی آفات کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میںانتہائی غریب اور نچلے متوسط طبقات کے لوگ سرِ فہرست ہوتے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک میں بحالی کے کاموں میں شفافیت کی کمی اور عام لوگوں کی شمولیت نہ ہونے کی وجہ سے با اثر افراد بحالی کے لیے ملنے والی رقوم اور امداد کا غلط اور ناجائز استعمال کرتے ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر میں 2005ء میں آنے والے قیامت خیز زلزلے اور 2010ء میں آنے والے تباہ کن سیلاب کے بعد بھی ایسی شکایات عام تھیں۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ایسے حالات میں انتہائی غربت کی زندگی گزارنے والوں کا تناسب بڑھ جاتا ہے لہذا بحالی کے منصوبوں میں ان کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔

ہمیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ بارشیں کبھی زحمت نہیں ہوتیں بلکہ ہمیشہ رحمت ہی رحمت ہوتی ہیں۔یہ انسان ہوتا ہے جو خود انہیں اپنے لیے زحمت بنالیتا ہے۔کراچی میں جو کچھ ہوااس میں متعلقہ اداروں کے ساتھ عوام کےرویّوں کا بھی بہت عمل دخل ہے ۔ چناں چہ آئندہ ایسے حالات سے بچنے کے لیے ہم سب کو اپنے رویّے تبدیل کرنے ہوں گے۔

قدرتی آفات اور ہماری تیّاری

ماہرین کے مطابق ہر ادارے میں دو طرح کے کام ہوتے ہیں، یعنی حکمتِ عملی کی تشکیل اور اس کا عملی نفاذ۔ انتظامِِ آفات کا قومی ادارہ (نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی) حکمت عملی تیار کرنے کے مرحلے سے گزر چکا ہے۔ ملکی اور غیر ملکی ماہرین نے مل کر ایک عمدہ لائحہ عمل تشکیل تو دے دیا، لیکن اصل مسئلہ اس کے نفاذ کا ہے۔ صوبوں میں اضلاع اور تحصیل کی سطح پر اسے کیسے چلایا جائے گا؟ اس سوال کا تاحال اطمینان بخش جواب نہیں مل سکا ہے۔ اس کام کے لیے تیکنیکی مہارتیں لازم ہیں۔ صرف عمومی انتظامی صلاحیتوں سے یہ کام موثر اور فعال انداز میں نہیں کیا جاسکتا۔ این ڈی ایم اے میں تاحال تیکنیکی مہارتوں والے افراد کی شدید کمی ہے۔

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے پاکستان میں تعینات سابق نمائندہ برائے انتظام آفات زبیر مرشد کے مطابق پاکستان کا 1958ء کا آفات سے متعلق ایکٹ پڑھنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ آفات امن و امان کا مسئلہ ہے، لہٰذا اس ’’دردِ سر‘‘ سے نمٹنا ضروری ہے۔ چناں چہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اسی تاثر کی روشنی میں اقدامات تجویز کیے جاتے ہیں۔یہ اقدامات فوری مدد کے تناظر میں اٹھائے جاتے ہیں۔ یوں اس مسئلے کا مستقل اور دیرپا حل تلاش کرنے کی فکر کار فرما نظر نہیں آتی۔ پاکستان میں فلڈ کمیشن، سپارکو، محکمۂ موسمیات وغیرہ قدرتی آفات کے خطرات سے نمٹنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ ایمرجنسی ریلیف سینٹر، ریلیف کمشنر، ریونیو ڈپارٹمنٹ، ضلعی انتظامیہ وغیرہ ریلیف کا کام کرتی ہیں، لیکن ان اداروں کے باہمی رابطے بہت کم زور ہیں۔

یہاں تخفیفِ آفات (ڈیزاسٹر ریڈکشن) کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی جاتی۔ سارا زور بحالی اور تعمیرِ نو پر دیا جاتا ہے۔ آفات سے نمٹنے کے لیے قبل از وقت تیاری کے ضمن میں کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ رابطے کے فقدان کی وجہ سے متعلقہ ادارے ایک دوسرے کی خوبیوں اور خامیوں کے بارے میں جانتے ہی نہیں۔ انتظامِ آفات کے ضمن میں این ڈی ایم اے پر بھاری ذمے داری عاید ہوتی ہے۔اسے متعلقہ اداروں اور حکومت کے درمیان پُل کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ صوبائی حکومتوں کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ ہر سال قدرتی آفات کی وجہ سے کروڑوں، اربوں روپے کا جو نقصان ہوتا ہے، اسے کم کرنے کے لیے انتظامِ آفات کے نظام میں سرمایہ کاری کرنا بے حد ضروری ہے۔

ایک عالمی امدادی ادارے کے انتظامِ آفات کے شعبے سے منسلک ماہر کے بہ قول آفات سے نمٹنے والے ضلعی ادارے کے اہل کاروں کو اگر اس ضمن میں خاطر خواہ تربیت دی گئی ہو، تب کہیں جاکر ہم کہہ سکیں گے کہ ضلعے یا تحصیل کی سطح پر آفات سے نمٹنے کی تیاری ایک حد تک مکمل ہے۔ انتظام آفات سے متعلق اداروں کے اہل کاروں کو پہلے سے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ لوگوں کو متاثرہ علاقوں سے نکال کر کہاں بسانا ہے۔ ضلعے اور صوبے کے حوالے سے بھی کم از کم معیارات بنائے گئے ہیں۔

اگر ان معیارات کو مدنظر رکھا جائے تو بہت سے جانی اور مالی نقصان سے بچا جاسکتا ہے۔ انتظام آفات کے ضمن میں ہر صورت میں ضلعے ہی کو بنیادی اکائی کے طورپر کام کرنا چاہیے کیوں کہ کسی بھی قسم کی آفت میں ضلعے کی انتظامیہ کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔ اگر ضلعی انتظامیہ کے پاس وسائل اور تربیت نہیں ہوگی تو مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔ اسی طرح ضلعے کی سطح پر خدمات سے متعلق کام کرنے والے سرکاری اداروں کے اہل کاروں کی تربیت بھی ضروری ہے۔

شہری دفاع کا ادارہ کبھی بہتر تھا، لیکن اب وہ تباہ حال ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وقت کے تقاضوں کے مطابق اس کے اہل کاروں اور وابستگان کی تربیت کی گئی اور نہ اس ادارے کے پاس خاطر خواہ وسائل ہیں۔ فراہمی آب، سینی ٹیشن، صحت وغیرہ کے ضلعی محکمے، لائیو اسٹاک، زراعت اور صحت کے صوبائی محکموں کا کردار بھی انتظامِ آفات کے ضمن میں اہم ہوتا ہے۔ ان محکموں اور شعبوں کے لوگوں کی بھی تربیت کی بہت ضرورت ہے۔ آفات سے نمٹنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اطلاعات اس زبان میں دیں جو لوگوں کی سمجھ میں آسانی سے آسکے۔