اب اسرائیل، بحرین معاہدہ

September 13, 2020

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے لئے ایسے سبز قدم ثابت ہوئے کہ جب سے انہوں نے سعودی عرب اور اسرائیل کا دورہ کیا ہے بعد ازاں اس خطے میں بےچینی روز افزوں ہے۔ ٹرمپ کے اس دورے کے نتائج اب سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں کہ 11ستمبر کے روز انہوں نے متحدہ عرب امارات کے بعد بحرین اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان کیا اور یہ عندیہ بھی دیا کہ اور عرب ملک بھی اسرائیل سے تعلقات استوار کریں گے۔ بحرین کے بادشاہ حماد بن عیسیٰ الخلیفہ نے دو ریاستی حل اور بین الاقوامی قراردادوں کے تحت اسٹرٹیجک آپشن کے طور پر وسیع تر امن تک رسائی کی ضرورت پر زور دیا۔ فلسطین نے مذکورہ معاہدے کو رد کرتے ہوئے اس کی بھرپور مذمت کی ہے اور حماس نے اسے جارحیت قرار دیا ہے۔ مسلم ممالک میں دو رویوں کی وجہ ذاتی مفادات اور فروعی اختلافات کے سوا کچھ نہیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ یہ سب کھیل امریکی صدارت کا الیکشن جیتنے کے لئے کر رہے ہیں لیکن افسوس کہ عرب دنیا میں ان اقدامات کے حوالے سے دور اندیشی دکھائی نہیں دے رہی۔ اس حقیقت کو بھی جھٹلانا ممکن نہیں کہ ان اقدامات کی ایک وجہ سی پیک بھی ہے جس کی فعالیت خلیجی ریاستیں اور دیگر عرب ممالک اپنی معیشت کے لئے درست خیال نہیں کرتے اور امریکی ہمنوا بن رہے ہیں۔ جانے شام، لیبیا، عراق اور افغانستان کی تباہی کے باوجود یہ بات خطہ عرب کو کیوں سمجھ نہیں آ رہی کہ امریکہ اگر کسی کا دوست ہے تو محض اپنے مفادات کا اور ضرورت پڑنے پر اپنے حلیفوں کو روندنے سے بھی باز نہیں آتا۔ چنانچہ اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کی اولیں شرط فلسطینیوں کی الگ ریاست اور وہ بھی 1967سے قبل والی، لازم قرار دی جائے تاکہ انہیں بھی سکھ کا سانس نصیب ہو۔