پہلی مسجد کو ویران کرنا ناجائز ہے

September 18, 2020

تفہیم المسائل

سوال: ایک سڑک کے کنارے جانبِ مغرب 25دکانیں اور مشرق میں چند دکانیں ہیں ، 25دکانوں کے مالک نے دکانداروں کی سہولت کے لیے چھوٹی سی مسجد بنادی ،جس میں آج بھی اپنی مدد آپ کے تحت پنج وقتہ اذان وجماعت کا اہتمام ہے ۔مسجد اندازاً چار مرلہ پر تھی ،اب جانبِ مغرب مزید تین مرلہ جگہ خرید کر تعمیری کام شروع ہے، چند لوگوں کی خواہش ہے کہ نمازِ جمعہ شروع کرائی جائے جبکہ ملحقہ آبادی میں پہلے سے جمعہ ہوتا ہے اور اس آبادی کا مین راستہ بھی اسی زیرِ بحث مسجد کے عین سامنے ہے ،جہاں سے جامع مسجد محض 550فٹ اوردرمیان میں صرف چار گھر حائل ہیں ،اس مسجد کے مغرب کی جانب صرف دو گھر ہیں ،جنوب میں محض پانچ گھر ہیں ،مزید آگے ایک اور جامع مسجد عین روڈ پر ہے ،جو اس مسجد سے 900فٹ دور ہے ۔ خواہش مند ساتھی کہتے ہیں کہ یہاں مسافروں کے لیے جمعہ کا انتظام کرنا ہے حالانکہ مسافر پر جمعہ نہیں ہے ،جبکہ مذکورہ بالا جامع مساجد میں صرف ایک سے ڈیڑھ منٹ میں پہنچاجاسکتا ہے ،کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس مسجد کو جامع کرکے محض اختلافات کی بنیاد ڈالی جارہی ہے ۔سوال یہ ہے کہ چند افراد کی خواہش پر اتنی نزدیک جامع مسجد ہونے کے باوجود یہاں جمعہ کرانا درست ہے یا نہیں ؟،(ایک بندہ ، جہلم)۔

جواب:نمازِ جمعہ کا اجتماع اسلام کی شوکت کا مظہر ہے ، شِعارِ اسلام ہے ۔آپ نے لکھا کہ انتہائی قریب دو جامع مساجد ہیں اوردونوں میں جمعہ قائم ہوتا ہے ،لہٰذا اس مسجد میں جمعہ قائم نہ کریں اورجمعہ کے دن ظہر کے وقت مسجد بند رکھیں ۔صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ’’شہر میں مُتعدد جگہ جمعہ ہوسکتاہے ،خواہ شہر چھوٹا ہو یا بڑا اور جمعہ دومسجدوں میں ہو یا زیادہ ، (درمختار)۔مگربلاضرورت بہت سی جگہ جمعہ قائم نہ کیاجائے کہ جمعہ شعائرِاسلام سے ہے اور جامع جماعات ہے اوربہت سی مسجدوں میں ہونے سے وہ شوکت اسلامی باقی نہیں رہتی ،جو اجتماع میں ہوتی ، نیز دفع حرج کے لیے تعدد جائز رکھاہے توخوامخواہ جماعت پراگندہ کرنا اور محلہ محلہ جمعہ قائم کرنانہ چاہیے ۔

نیز ایک بہت ضروری امر جس کی طرف عوام کو بالکل توجہ نہیں ،یہ ہے کہ جمعہ کو اورنمازوں کی طرح سمجھ رکھاہے کہ جس نے چاہا نیاجمعہ قائم کرلیا اور جس نے چاہا پڑھا دیا ،یہ ناجائز ہے، اس لیے کہ جمعہ قائم کرنا بادشاہِ اسلام یا اس کے نائب کاکام ہے اور جہاں سلطنتِ اسلامی نہ ہو ،وہاں جوسب سے بڑا فقیہ سُنّی صحیح العقیدہ ہو ،اَحکام شرعیہ جاری کرنے میں سلطان اسلام کے قائم مقام ہے، لہٰذا وہی جمعہ قائم کرے ،بغیر ا س کی اجازت کے نہیں ہوسکتا اوریہ بھی نہ ہوتو عام لوگ جس کو امام بنائیں ،عالم کے ہوتے ہوئے عوام بطور خود کسی کو امام نہیں بناسکتے، نہ یہ ہوسکتا ہے کہ دوچار شخص کسی کو امام مقر رکرلیں ، ایسا جمعہ کہیں سے ثابت نہیں،(بہارِ شریعت ،جلداول، ص:764)‘‘۔

امام اہلسنّت امام احمد رضا قادری رحمہ اللہ تعالیٰ سے سوال ہوا:’’ایک قصبہ میں جامع مسجد ہے کہ ہمیشہ اُس میں جمعہ ہوتا ہے اب ایک مسجد بنا ہوئی اُس کو جامع مسجد بنانا اور قدیم کی جامع مسجد کو ترک کردینا یا دونوں جگہ جمعہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟‘‘۔آپ نے جواب میں لکھا: ’’قصبہ وشہر جہاں جمعہ جائز ہے، وہاں نماز جمعہ متعدد جگہ ہونابھی جائز ہے اگر چہ افضل حتّی الوسع ایک جگہ ہوتا ہے اور اگلی مسجد جامع کو ترک کردینے کے اگر یہ معنی کہ اُس میں نماز ہی چھوڑ دی جائے ، تو قطعاً نا جائز کہ مسجد کا ویران کرنا ہے او راگر یہ مراد کہ نماز تو وہاں ہوا کرے مگر جمعہ وہاں کے بدلے اب اس مسجد جدید میں ہو، اس میں اگر وہاں کے اہل اسلام کوئی مصلحتِ شرعیہ قابل قبول رکھتے ہوں توکیا مضائقہ ، ورنہ مسجد جامع وہی مسجد قدیم ہے او راس میں نماز جمعہ کا ثواب زائد، (فتاویٰ رضویہ ، جلد8،ص:312)‘‘۔ امام اہلسنّت امام احمد رضا قادری اور صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی رحمہا اللہ تعالیٰ کی تصریحات کے مطابق اگر مذکورہ مسجد میں جمعہ کی نماز قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے یا قرب وجوار کی مساجد میں پہلے سے قائم جمعے کااجتماع متاثر ہوتاہے توآپ اپنی مسجد میں جمعہ قائم نہ کریں ۔