اس کی زمیں بے حدود، اس کا اُفق بے ثغور (قسط نمبر6)

September 27, 2020

جب بیرئیر اسٹینڈ ایک طرف کرتے ہوئے داخلے کا اِذن ملا اور لوگوں کے ہجوم میں ہم بھی شامل ہوئے، تو میری یادوں میں جیسے The Fall of Granadaفلم کی وہ ریل چلنے لگی، جو کوئی چھے صدی قبل ایسے ہی ایک دن کا منظر ہوگا۔’’تو کیا یہی وہ دروازہ تھا؟‘‘ مَیں نے خود سے پوچھا، تو میری معلومات نے سرہلایا ۔ ’’ہاں یہی۔ جس سے فاتح جرنیل گھوڑے پر سوار اپنے فوجیوں کے ساتھ قومی جھنڈا لہراتے ہوئے داخل ہوئے تھے۔ دروازے پر کھڑے عرب دربانوں نے اپنے ہاتھوں میں پکڑے نیزے زمین پر مارتے ہوئے انہیں اندرجانے کا راستہ دیا تھا۔

تعاقب میں ملکہ ازابیلا اور بادشاہ فرنینڈڈ گھوڑوں پر سوار ساتھ ساتھ چلتے داخل ہوئے تھے۔‘‘ ’’کیا یہی وہ گیٹ تھا، جس نے زوال کے اُن لمحوں کا سامنا کیا؟‘‘ خودسے ایک بار پھر سوال تھا۔ ’’یقینا یہی تھا۔‘‘ جی چاہتا تھا ذرا رُکوں۔ اس کا پَٹ پکڑوں اور پوچھوں، تمہیں کیسا لگا تھا؟اُف کتنا تفاخر تھا، اُن کے چہروں پر۔ کتنا جوش اور خوشی رقصاں تھی وہاں۔ اب سیکڑوں سال بعد اُس عہد ساز زمانے کے سردوگرم چشیدہ عروج و زوال کی خوشیوں، غموں کے امین دروازے میں قدم رکھتے ہوئے میرا دل بوجھل سا تھا۔ تب یہ ٹاور آف جسٹس کہلاتا تھا۔

اُس وقت کے مسلمان بادشاہوںنے اِس کی پیشانی پر لکھوا رکھا تھا۔’’یہاں آپ کو انصاف ملے گا۔‘‘ اور حقیقت بھی یہی تھی، یہاں مظلوموں کو انصاف ملتا تھا۔چاروں طرف نگاہیں جیسے طواف کی سی حالت میں تھیں۔ڈیوڑھی سے آگے محل کا پہلا حصّہ ہے۔ یہ کورٹ آف جسٹس، جسے Mexuarکہا جاتا ہے، کمرا دَر کمرا انسان کو آرٹ اور فن کی اتھاہ گہرائیوں میں لے جاکر حیرت کے جہاں وَا کرتا ہے۔ چھتیں، دیواروں کے بالائی حصّے قرآنی آیات سے سجے ہوئے تھے، عظیم الشان گنبد کو دیکھ کر آنکھیں پھٹتی تھیں۔ سنہری حروف میں ’’ولا غالبُ الا اللہ‘‘ بہت نمایاں ہے۔نگاہیں اِن حروف پر جَمی ہیں۔ گنبد کی گہرائی میں فن کاری کے ستارے، دائرے،چاند کیسے رقصاں ہیں۔ دماغ کہیں تاریخ کی بھول بھلّیوں میں الجھنے لگا۔

اشبیلیہ ڈھے رہا تھا اور محمد بن الاحمر کو احساس ہورہا تھا کہ اشبیلیہ کے بنی حمود کا ساتھ دینا تو گویا اپنی موت کو دعوت دینا تھا۔ اُس نے غرناطہ پر اپنے قبضے کو تسلیم کروانے کی قیمت عیسائیوں کا ساتھ دے کر ادا کی تھی۔ اقتدار مسلّم ہوگیا تھا، لوگوں نے غالب کا خطاب دیا، مگروہ ندامت سے گڑ گیا۔ حکم دیا، غالب صرف اللہ ہے، یہی لکھا اور بولا جائے۔ محل میں دیواروں پر یہ تحریر اُس کے اُسی جذبے کی عکّاس تھی۔ اس نے اپنے چہرے کو داغ دار ضرور کرلیا، مگر آنے والی صدیوں میں غرناطہ مسلمانوں کی عظمتوں کا پیام بَر بن گیا۔

تاہم، یہاں سوال اٹھتا ہے، تدبّر و فراست اہم ہیں، مگر غیرت و حمّیت بھی اپنی جگہ مسلّم ہے۔ اس نے اپنے اقتدار کو بڑھاکر ڈھائی سو سال تک پھیلا لیا، لیکن زوال تو پھر بھی مقدّربنا۔ سقوطِ غرناطہ اسلامی تاریخ میں اپنی الم ناکیوں کے ساتھ درج ہوا۔ مجھ پر پھر یاسیت کا حملہ ہونے لگا، تو مَیںنے خود سے کہا،’’بند کر، یہ عروج و زوال کے باب، جو تُو کھول بیٹھی ہے۔ ’’ہر عروجے رازوال‘‘ تو ایک سکّہ بند حقیقت ہے۔‘‘

گردوپیش پھر نگاہوں کی زد میں تھے۔ بعض جگہ دیواریں صاف تھیں۔کہیں پڑھا ہوا یاد آیا کہ متعصب لوگوں نے دیواروں پر اپنے ہاتھوں کی پہنچ تک اِن آیات کو مٹا ڈالا۔ سب سے زیادہ متاثر یہ حصّہ ہوا تھا، جسے عیسائیت کی پوشاک پہنانے کی ہر کوشش کی گئی۔شاید اُس وقت انہیں یہ علم نہ تھا کہ یہ بیش بہا خزانہ آنے والے وقتوں میں ان کی اولاد کے لیے سونے کے انڈے دینے والی مرغی جیسا ہوگا۔ دوسرا حصّہ Comaresکہلاتا ہے، یعنی شاہی دربار۔ کمال کی فن کاری بکھری ہوئی تھی یہاں۔ فوارے، بہتا پانی ،سبزہ ،پھول، کمروں کا حسن تعمیر، قرآنی آیات کی کندہ کاری۔

میں گُم صم کھڑی سلطنت غرناطہ کے اِس اہم حصّے کو، جہاں اہم فیصلے، اہم احکامات جاری ہوئے، غیر ملکی شاہ و سفراء صدیوں تک آتے رہے، بغور دیکھ رہی تھی۔ میری آنکھیں بھٹکے ہوئے آہو کی مانند چہار جانب گھومتی پھرتی تھیں اور مسندِ شاہی پر بیٹھے بہت سے کردار اپنے تصوّراتی ہیولوں سے بصارتوں کی زد میں تھے۔ یہی وہ جگہ تھی، جہاں وہ جیالا کمانڈر انچیف آف غرناطہ، موسیٰ بن ابی غسّان آخری تاج دارِ غرناطہ، ابو عبداللہ اور دیگر اکابرینِ سلطنت کو کھڑے ہونے اور عیسائیوں کے ساتھ لڑنے کے لیے مائل کررہا تھا۔ مصالحت کی ہر تجویز کو وہ گاجر مولی کی طرح کاٹ کاٹ کر پھینک رہا تھا۔’’نہیں نہیں،مجھے نہیں قبول، کوئی شرط،کوئی معاہدہ۔

مَیں غرناطہ کا دفاع کروں گا،اپنی آخری سانس تک۔ میرے لیے عزت سے مرنا زیادہ اہم اور پسندیدہ ہے، بہ نسبت ایک محل میں ذلت کی زندگی گزارنے سے۔‘‘شیر کی مانند دھاڑتی یہ آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی تھی۔ مجھے پھر جذباتی دورہ پڑنے لگا تھا۔ ٹپ ٹپ دو آنسو آنکھوں سے نکلے، جنہیں فوراً پلّو سے صاف کیا۔ افسوس صد افسوس، کِسی نے اُسے نہیں سُنا۔ وہ سب صلح کا فیصلہ کربیٹھے تھے۔ غسّان اکیلا ہی نکل کھڑا ہوا۔ دشمنوں کے ساتھ لڑتا بہت سوں کو جہنم واصل کرتا دریائے Xamil میں کود کر تاریخ میں خود کو امَر کرتے ہوئے یہ پیغام دے گیا کہ صلح کے بعد بھی ذلّت تو مقدر بنی۔

کچھ حرج تھا، اگر عزت کی موت کو ترجیح دیتے، مگر ایسا تو جذبہ ایمانی ہی سےممکن تھا۔ ملکہ کے کمرے، جھروکے، سامنے کے مناظر،کمرے میں بنی جالی جس کے نیچے عودولوبان جلتے اور خوشبو سارے کمرے کو معطّر کرتی تھی۔ ارونگ کی کہانیاں کیسی سحر انگیز ہیں۔ واشنگٹن ارونگ، ایک امریکی، جو سفارت کار ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ دان، مضمون نگار اور کہانی کار بھی تھا۔ وہ رپ وین ونکل (Ripvan Winkle) اور ایسی ہی کئی کہانیوں اور مجموعوں کا خالق۔

ایسا تاریخ دان اور محقّق کہ پیغمبرِ انسانیت، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی لکھنے والا۔ الحمرا اور اسپین کے مور اس کے مطالعے کا خاص موضوع تھے۔1829ء میں غرناطہ آیا، حکّام سے درخواست کی کہ اُسے الحمرا میں رہنے کی اجازت دی جائے کہ وہ اِس ماحول میں رہتے ہوئے لکھنا چاہتا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ اُس نے اپنی کہانیوں میں وہ ماحول دکھانے کی پوری کوشش کی۔ وہ لوگوں کو ڈھونڈتا، اُن سے ملتا اور پھر کہانیاں تخلیق کرتا۔ بڑی طلسماتی کہانیاں، محلّاتی سازشوں میں گندھی، توہمّات میں سانس لیتی،عقیدے اور یقین کے ساتھ چلتی ہوئی۔اُن کے ملبوسات، اُن کی شاہی پوشاکیں،ہیروں سے چمکتے دمکتے تاج،کنیزیں اور خدّام۔ مشکی گھوڑے،چاند راتیں، گویا ایک داستان طلسمِ ہوش رُبا۔

یہ طلسمی ماحول اپنی شاہانہ عظمتوں کے ساتھ آج بھی اِس سیاحت کے دوران محسوس کیا جاسکتا ہے۔ حمّام یہاں سے قریب ہی ہیں۔ فوّارے سے پانی گرنے کی موسیقیت اور بالا خانے کے ٹیرس پر بیٹھے موسیقاروں کے سازوں سے پھوٹتی مدھر دُھنیں کیسے شام کا بانکپن بڑھاتی تھیں۔ اس کا آخری حصّہ سب سے حسین اور سب سے حیرت انگیز کورٹ آف لوائنز(Court of lions) ہے۔الحمرا کی تصویریں جب بھی دیکھیں، نصر سلطنت کا یہی حصّہ نمائندگی کرتا سامنے آیا۔سچی بات ہے، میں گنگ کھڑی تھی، اُسی طرح جیسے1442ء میں وہ سب فاتح کھڑے تھے، جو فاتح کی حیثیت سے اس حصّے میں داخل ہوئے تھے۔ مسیحی جرنیل،اس کے مشیروں، بادشاہ اور ملکہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں۔

میرا جی چاہتا تھا، مَیں کہیں بیٹھ جائوں۔اِن بارہ شیروں، سے جن کے دہانوں سے کبھی مسلسل پانی موتی برسایا کرتا تھا، پوچھوں، کہوں، ’’کچھ سُنائو مجھے اُن وقتوں کا احوال، جب تمہارے اِس آنگن میں شہزادے، شہزادیاں اور کنیزیں چلا پھرا کرتی تھیں۔ کتنی داستانیں تم دن رات سُنتے ہوگے۔ تم نے وہ وقت بھی دیکھا ہوگا، جب نئے لوگ، نئے حکمران یہاں آئے تھے۔ تم نے اِسی محل میں، جہاں اذانیں گونجتی تھیں، جہاں مساجد کے نشان تھے۔تثلیث کا نغمہ بھی سنا ہوگا۔کبھی آنکھوں سے آنسو ٹپکے،کبھی چہرے پر حُزن ویاس کے جذبات بکھرے؟ بتائو تو مجھے۔‘‘ ہاں، مجھے تو ایک اور بات بھی تم سے پوچھنی ہے۔ ذرا قدم اٹھاتے ہوئے تمہارے صحن سے اس شان دار کمرے میں تو جھانک لوں۔ارونگ نے بڑی ہیبت ناک کہانی سُنائی ہے اور تفصیل کچھ یوں ہے۔ ’’مولائی حسن کی محبوب بیوی، ثریا سے ابنِ سراج قبیلے کے سردار کا جنونی سا عشق تھا۔ ایک دن خلیفہ نے باغ میں دونوں کوساتھ ساتھ بیٹھے دیکھ لیا۔طیش تو بہت آیا۔ تاہم، اپنی رسوائی کے پیشِ نظر خاموش رہا۔

موزوں وقت دیکھ کر قبیلے کے سرکردہ لوگوں کو کھانے پر بلایا اورپھر اِسی کمرے میں سب کو قتل کردیا۔‘‘کمرے کے حُسن و جمال اِس کے منفرد روشن دانوں، ان سے آتی روشنی اور ہوا کے جھونکے کو محسوس کرتے ہوئے میں نے پوچھا تھا ’’بتائوناں..... کیا واقعی ایسا ہوا تھا، ابو عبداللہ اور اس کے باپ مولائی حسن، ماں عائشہ، سوتیلی عیسائی ماں ثریا کے درمیان تنازعے کا سبب یہی واقعہ تھا۔یا پھر یہ محض تاریخ کی ایک گپ ہے؟‘‘ جھروکوں سے باہر کے مناظر بھی بڑے دل فریب تھے۔ البیازین کی بستی نیچے ڈھلانوں پر بکھری کتنی خوب صورت نظر آتی تھی۔ یہ مسلمانوں کی بستی تھی۔یہاں مور رہتے تھے۔جھروکوں کی کندہ کاری کا بھی جواب نہ تھا۔ واشنگٹن ارونگ کی کہانیاں پھر یاد آنے لگیں۔

یہیں کہیں ایسے ہی کِسی جھروکے سے عائشہ نے ابوعبداللہ کو ٹوکری میں بٹھا کر نیچے اُتارا تھا۔ یہیں کہیں وہ جگہ بھی ہوگی کہ جہاں کھڑے یا بیٹھے اُس چارلس پنجم نے کہا تھا۔ ’’بڑا ہی بدنصیب تھا وہ ابوعبداللہ بیدل، جس سے یہ سب کچھ چِھن گیا۔‘‘یہیں مجھے کولمبس کی یاد آئی۔ ارونگ نے اسی جگہ کا تو ذکر کیا ہے کہ وہ یہاں کھڑا ملکہ ازابیلا کے حضور عرضی پیش کرتے ہوئے کہتا تھا۔ ’’ملکۂ عالیہ! نئی دنیائوں کی دریافت میں میری مدد کیجیے۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ آپ کے تاج کے ہیروں میں ایک اور قیمتی ہیرے کا اضافہ ہوگا۔‘‘

سوچتی ہوں، کس قدر بصیرت کا مالک تھا، وہ بوڑھا ملاح۔ اپنے حسابوں وہ جو کچھ ڈھونڈنے نکلا تھا۔ اُس سے کتنی اعلیٰ و ارفع چیز قدرت نے اُسے عنایت کی۔ مَیں ایک بار پھر اپنی نوخیز جوانی کے ناسٹلجیا کے سحر میں گم ہوگئی تھی اُف! نسیم حجازی کا اُندلس کے پس منظر میں لکھا ناول، وہ اندازِ بیاں اورمجھ جیسی جذباتی لڑکی۔ مَیں پڑھ کے رو رو کر بے حال ہوگئی تھی۔ماں پوچھتی، ’’تمہاری آنکھیں کیوںسوجی ہوئی ہیں؟ کیا ہوا ہے تمہیں؟‘‘ ماں کو کیا بتاتی؟کہیں اُس وقت معلوم تھا کہ ایک دن میں خود وہاں کھڑی جبل الشہدا کودیکھوں گی، جہاں اُس نوجوان، منحنی سے جسم والے ابو عبداللہ نے غرناطہ کی کُنجی فرنینڈڈ کو دی تھی اور اس نے جذبات سے مغلوب ہوکر اپنی ملکہ کو پکڑائی تھی۔

وہ ابو عبداللہ رخصت ہوا۔ کچھ آگے جاکر پہاڑی سے مُڑا۔ اپنے تعاقب میں نگاہیں دوڑائیں۔اس کی سلطنت ، اس کا شان دار ویگا، الحمرا کے باغ باغیچے، برج، فصیلیں اور وہ سب شان و شوکت کے لازمے۔ ’’اللہ اکبر‘‘ اُس کے ہونٹوں سے نکلا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر روپڑا۔ تب اُس کی ماں، عائشہ نے تاریخ میں امر ہوجانے والا جملہ کہا۔’’جسے تم مرد ہوکر بچا نہ سکے،اب اُس کے لیے عورتوں کی طرح روتے ہو۔‘‘ ’’موروں کی آہ۔‘‘یہی وہ پہاڑی ہے، جسے مقامی لوگوں نے یہ نام دے دیا ہے۔ باغات والے حصّے میں بھی بہت وقت گزرا۔ کھجور کے درختوں نے جگہوں کی رعنائی بڑھادی تھی یا پھر ہماری نظروں اور دل میں اِس سے محبت کی وہ چاہت تھی، جسے کوئی نام دینا ذرا مشکل ہے۔

جگہ جگہ بیٹھتے، باتیں کرتے، اپنے جیسے حُلیوں، شکلوں والے لوگوں سے آگے بڑھ کر ملتے تھے۔ اُف خدایا! شام بھی اب سرمئی پیرہن میں لپٹی دھیرے دھیرے الحمرا کے درودیوار پر پھیل رہی تھی۔سچّی بات ہے، اس نے الحمرا کا حُسن اور بڑھا دیا تھا۔ اتنے تھکے ہوئے تھے کہ قدم اٹھانے دو بھر ہورہے تھے۔دفعتاً ایک گاڑی پاس سے گزری، جسے میں نے ہاتھ کے اشارے سے روکااور سیما کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان سے درخواست کی کہ ’’یہ دل کی مریضہ ہیں، پلیز انہیں گیٹ تک لفٹ دے دیں۔‘‘ اور پھر گرتے پڑتے، جگہ جگہ رُک کر دَم لیتے، تھوڑا سا ٹانگوں کو سکون دیتے بالآخر گیٹ تک پہنچ گئے۔ (جاری ہے)