کُل جماعتی کانفرنس کے نام

September 20, 2020

بلاول بھٹو کی دعوت پر میاںنواز شریف کُل جماعتی کانفرنس سے خطاب کریںگے یا پھر ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کی ترجمانی کے لئے مریم نواز تخلیہ سے باہر آئیںگی یا نہیں، جس سے واضحہو جائے گا کہ اے پی سی ایک اور پھوکا فائر ہوگی یا پھر متحدہ اپوزیشن کچھ دم خم کا مظاہرہ کرے گی۔

ابھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میںعددی اکثریت کی حامل اپوزیشن کو مِسنگ ایم پیز کے ہاتھوںجو شرمندگی اُٹھانا پڑی، اُس کی خفت اگر دُور کی بھی تو آل پاکستان بار کونسل کی اے پی سی نے، جہاںسب سے زیادہ چھوٹے صوبوں کی پارٹیوںکے لیڈر زیادہ جوش میں نظر آئے۔

شہری آزادیوں کی پامالیوں، آزادیِ صحافت پہ بڑھتی قدغنوں اور وفاقی اکائیوں کی محرومیوں کے ناطے اٹھارہویںترمیم اور ساتویں نیشنل فنانس کمیشن کے ایوارڈ کے خلاف جاری ناجائز تجاوزات کے خلاف وکلا برادری کا میدان میں اُترنا آج ہونے والی کُل جماعتی کانفرنس کے لئے ایک نئی مہمیز فراہم کر سکتا ہے۔

بشرطیکہ مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی اپنی اپنی مصلحت پسندی کے تذبذب سے باہر نکلیں۔ پرانی جماعتوں کی زیرِعتاب پرانی قیادتوںکے خلاف ہماری احتساب کی یکطرفہ اور منقسمانہ مشقِ ستم پر پاکستان بار کونسل نے تبرہ بھیج کر قانون کی حکمرانی اور سب کے شفاف احتساب کا مطالبہ کر کے سیاسی قیادتوں پر لگائے گئے دھبے صاف کرنے کی کوشش تو ضرور کی لیکن یہ امر اپنی جگہ ہے کہ پرانی قیادتیںابھی بھی کٹہرے میں کھڑی ہیں، جبکہ عمران حکومت کی کوشش ہے کہ ’’لُٹ کے کھا گئے‘‘ کا بیانیہ چلتا رہے تاکہ اُس کی اپنی بےاعمالیوں اور طرح طرح کے اسکینڈلوں سے لوگوں کی توجہ ہٹی رہے۔

بہتر ہوگا کہ دونوںبڑی پارٹیوںکے وہ رہنما جن پر مبینہ کرپشن کے کیس چل رہے ہیں، وہ پہلے اپنی پاکدامنی ثابت کرنے تک اپنی جماعتوں کو اپنے ناکردہ گناہوں کے بوجھ سے آزاد کریں۔ اب وقت ہے کہ مین اسٹریم پارٹیوں میں نئی نسل کی قیادت بھرپور طریقے سے اپنی ذمہ داریاںسنبھالے۔

لگتا ہے کہ بلاول بھٹو اب بااختیار اور حقیقی پارٹی چیئرمین بن چکے ہیں اور زیادہ مشاق اور متحرک ہوتے دکھائی دے رہے ہیں لیکن مسلم لیگ ن ابھی تک مخمصے میںپھنسی ہوئی ہے۔ میاںنواز شریف بیماری کے باعث جلدی واپس آنے سے رہے اور میاںشہباز شریف بطور اپوزیشن لیڈر ٹُھس ہو کر رہ گئے ہیں۔

اُن کی پائوںپڑنے کی سیاست نہ صرف ناکام ہو گئی ہے بلکہ پی ایم ایل این کو ہی لے بیٹھے گی۔ بہتر ہوتا کہ مریم نواز کو سامنے لایا جاتا لیکن خاندانی سیاست کی مصلحتوںکا جمہوری تقاضوںسے کیا سروکار۔

تحریکِ انصاف کی حکومت کی جتنی ہوا نکلتی جا رہی ہے، اُتنا ہی زیادہ یہ حزبِ اختلاف پہ حملہ آور ہو رہی ہے اور شہری آزادیوں، پارلیمان کی حیثیت اور آئینی حکمرانی کے تقاضوںسے منہ موڑتی چلی جا رہی ہے۔

فنانشل ٹاسک فورس کے حوالے سے جو قانون سازی درکار تھی، اُس کی آڑ میںاُس نے نہ صرف پارلیمان کے استحقاق کا تماشہ لگا دیا بلکہ انسانی حقوق اور انصاف کے تقاضوں کو پامال کرنے کی شقیںبھی پاس کروا دیں۔ اب منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنانسنگ یکجا کر کے نیب کا دائرہ بڑھا دیا گیا ہے اور بغیر وجہ بتائے لوگوں کو 120روز تک زیرِتفتیش رکھتے ہوئے ہر طرحکی تکنیک استعمال کی جا سکے گی۔

اپوزیشن کا خدشہ درست ہے کہ وہ فنانشل ٹاسک فورس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے حکومت سے تعاون کو تیار تھی لیکن حکومت نے کالی دفعات کو پاس کروانے کے لئے قومی اتفاقِ رائے کو بُری طرح سے تقسیم کر دیا۔

آج کی اے پی سی کو غور کرنا ہوگا کہ لوگ سیاست، چالو جمہوریت اور لیڈران کرام کی کارستانیوںسے کیوںنالاںہو چکے ہیں۔ مہنگائی، بیروزگاری اور معاشی کنگالی کے بڑھنے اور اچھی حکومت کے بجائے مافیائوںکے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخکے باوجود بے بس عوام اپوزیشن کی جانب راغب نہیںہو رہے۔

جمہوریت کی بحالی اور تسلسل میںچارٹر آف ڈیموکریسی نے اہم رول ادا کیا تھا، اگر اُس کی اسپرٹ اور تقاضوںکو برقرار رکھا جاتا تو شاید جمہوریت بی بی کو خفت نہ اُٹھانا پڑتی۔ عوام ہوںیا محروم وفاقی اکائیاں، سبھی کی مانگیںبڑھ گئی ہیں۔ پرانے نظام پہ اعتماد ختم ہو کے رہ گیا ہے اور پرانے مجروحسوشل کنٹریکٹ کو نئے چیلنجوںسے ہم آہنگ کرنے کے لئے ہر طرف سے آوازیںاُٹھ رہی ہیں۔

آج کی اے پی سی میںشامل جماعتوںکو عہد کرنا ہوگا کہ (1) انسانی حقوق کے عالمی اعلان نامے اور سیاسی و شہری حقوق کے یو این کے معاہدے کی مکمل پاسداری کی جائے گی اور تمام شہریوںکو بلااستثنیٰصنف، عقیدہ اور قومیت بطور شہری مساوی حقوق دیے جائیں گے۔ خاص طور پر خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔

(2) اٹھارہویںترمیم کو مستحکم کرنے کے لئے ڈیویلیویشن کے عمل کو اداراتی سطح تک لے جایا جائے گا تاکہ مرکزی نوکرشاہی اور انتظامی ادارے صوبوں کے حقوق پہ ڈاکہ نہ ڈال سکیں۔

(3) آئین اور منتخب اداروں کی حاکمیت کو ایسے یقینی بنایا جائے گا کہ ہر ادارہ اپنے دائرہ عمل تک محدود رہے۔

(4) سینیٹ کے براہِ راست انتخاب، موثر مقامی حکومتوںکا لازمی قیام، انتخابی نظام میںاصلاحات اور عوامی منشا کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائےگا۔

(5) وفاقی عدلیہ، وفاقی سول و ملٹری سروسز و دیگر اداروں میں ضروری اصلاحات۔

(6) تمام آئینی عہدوںپہ تعیناتی کے لیے پارلیمنٹ کی دو طرفہ کمیٹیوںکو بااختیار کیا جائے گا اور انیسویںترمیم ختم کی جائے گی۔

(7) عوام کے سماجی، معاشی اور طبقاتی حقوق، آزادیوں اور ضرورتوںکے لئے عوامی ترقی کا ماڈل یوں اپنایا جائے گا کہ پاکستان قرضوں کے جال سے خلاصی پا سکے۔

(8) ملک کی سلامتی کے امور ایک قومی طرزِ عمل کا تقاضا کرتے ہیں جس کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز میں اتفاقِرائے ضروری ہے۔ نیز سماجی، معاشی، ماحولیاتی، غذائی سلامتی کو ضروری اولیت دے کر غربت و افلاس، جہالت و بیماری اور کثافت کا خاتمہ کیا جا سکے۔

(9) تمام سیاسی جماعتیں عہد کریںکہ وہ آئینی بالادستی اور عوامی حکمرانی پہ کسی طرحکی آمرانہ قوتوں سے کوئی سمجھوتہ نہیںکریںگی تاکہ آزادیِ جمہور اور جمہوریت مستحکم بنیادوںپر آگے بڑھ سکے۔ وقت بدل چکا ہے اور اُس کے نئے تقاضے اِک نئے ایجنڈے اور نئی قیادت کے متقاضی ہیں۔

جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے​