1100ارب روپے کالولی پاپ؟

September 22, 2020

حالیہ برسات نے کراچی میں جو تباہی مچائی تھی، اس نے کراچی میں رہنے والوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ اس غریب پرور شہر کا کوئی والی، وارث نہیں۔ دنیا کا پانچواں بڑا شہر، جو پاکستان کا معاشی، صنعتی، کمرشل اور فنانشل حب ہے، 1ہفتے سے زیادہ پانی میں ڈوبا رہا جس سے معمولاتِ زندگی بری طرح متاثر ہوئے۔ ایدھی کے مطابق 27اگست کی بارش سے پانی میں ڈوب کر اور کرنٹ لگنے سے خواتین اور بچوں سمیت 49افراد جاں بحق ہوئے۔ ماہرین کے مطابق کراچی میں نالوں سے پانی کی عدم نکاسی کا سبب کچرے کی صفائی نہ ہونا ہے۔ اس بار کراچی کے پوش علاقے میں بھی 6دن سے زائد بجلی فراہم نہیں کی جا سکی، لوگ اندھیرے میں مدد کیلئے فون کرتے رہے جبکہ موبائل نیٹ ورک بھی بند رہا جس سے یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ ہم جدید دنیا کے کسی مہذب معاشرے کا حصہ ہیں۔ میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ یہ شہر کی بدقسمتی ہے کہ اسکی اونر شپ کسی سیاسی جماعت نے نہیں لی۔ یہ شہر ملک کے مجموعی ریونیو کا 68فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے۔

پاکستان بننے پر کراچی دارالحکومت بنا اور ترقی کا سارا زور بھی وہیں رہا جس کا زیادہ تر فیض کراچی والوں ہی کو ملا۔ جب دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہوا تو یہ بڑا دھچکا تھا۔ جس کا نتیجہ ایوب خان کیخلاف زبردست مزاحمت کی صورت میں نظر آیا۔۔ پھر 1973کا آئین بنا اور صوبائی خودمختاری ملی اور سندھ کو ون یونٹ کے خاتمے کے بعد اُسکی تاریخی شناخت واپس ملی۔ بعد ازاں سندھی زبان کے سرکاری اعتراف پر ہم نے ’’اردو کا جنازہ ہے‘‘ کی رقعت آمیز آوازیں سنیں۔وزیراعظم عمران خان نے ’’کراچی ٹرانسفارمیشن پلان‘‘ یعنی کراچی کو تبدیل کرنے کے منصوبے کے تحت اس شہر کے لئے 1100ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کر دیا ہے اور یہ نوید سنائی ہے کہ اس پیکیج کے تمام منصوبے آئندہ 3سال میں مکمل ہو جائیں گے اور کراچی کے سارے بڑے مسائل حل ہو جائیں گے۔ حالیہ مون سون کی بارشوں نے کراچی میں جو تباہی مچائی، اس کے بعد پہلے وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کراچی کیلئے 802ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا اور 2دن کے بعد وزیراعظم عمران خان نے کراچی آکر 1100ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا۔ کہیں یہ پیکیجز اس چیخ و پکار کو ختم کرنے کیلئے عجلت میں تو نہیں دیے گئے، جو بارش کی تباہ کاریوں کے باعث برباد شہریوں نے شروع کی تھی؟ کیا یہ ماضی کی طرح کراچی پر صرف سیاست تو نہیں ہو رہی؟

3سال میں 3مرحلوں میں اگر 1100ارب روپے کے تمام منصوبے مکمل کرنا ہیں تو اس کیلئے ہر سال 366ارب روپے درکار ہوں گے۔ رواں مالی سال کے دوران 802ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کیلئے سند ھ حکومت نے کراچی کیلئے صرف 31.99ارب روپے مختص کر رکھے ہیں جبکہ وفاقی حکومت کے ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں سے کراچی سمیت سندھ کے تمام منصوبوں کیلئے صرف 8.3ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ مختص رقم کبھی بھی پوری جاری نہیں ہوتی۔ اگر جاری ہو بھی جائے تو رواں مالی سال کے دوران کراچی ترقیاتی پیکیج کیلئے صرف 35سے 36ارب روپے دستیاب ہونگے۔ رواں سال ہی مزید تقریباً 331ارب روپے درکار ہونگے۔ کیا وفاقی اور صوبائی حکومتیں اتنی بڑی رقم کا انتظام کر سکیں گی؟ حقیقت یہ ہے کہ دونوں حکومتوں کے پاس اتنی مالیاتی گنجائش ہی نہیں ہے کہ وہ اتنی بڑی رقم کا بندوبست کر سکیں۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت پچھلے پانچ سالہ دور میں خواہشوں پر مبنی ترقیاتی بجٹ بناتی رہی اور 300ارب روپے سے زیادہ کے ترقیاتی بجٹس کا اعلان کرتی رہی لیکن سال کے آخر میں اس بجٹ کی آدھی رقم بھی فراہم نہ کر سکی۔ گزشتہ دو سال سے ترقیاتی بجٹ کا اعلان ہی کم کیا جا رہا ہے۔ پھر بھی سندھ حکومت 130ارب روپے کے ترقیاتی اخراجات سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سندھ حکومت کی پورے صوبے کے ترقیاتی بجٹ کیلئے زیادہ سے زیادہ مالیاتی گنجائش 150ارب روپے تک ہے۔ اس میں وفاقی حکومت اور غیرملکی امداد بھی شامل ہو گی۔ اسی طرح وفاقی حکومت بھی گزشتہ کئی سال سے صوبوں کے لئے اپنے ترقیاتی بجٹ میں 500سے 600ارب روپے تک مختص کرتی ہے لیکن سال کے آخر میں صوبوں کو 200سے 250ارب روپے تک ملتے ہیں۔ سندھ کو تو گزشتہ 5سال میں 20ارب روپے سے زیادہ رقم نہیں ملی۔ ایم کیو ایم کے رہنما خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ کراچی پیکیج کی رقم شہر میں خرچ ہونے کی امید اس لیے بھی بڑھ گئی ہے کہ اب ایم کیو ایم کا میئر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیاوجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے کراچی کی منتخب بلدیاتی حکومت کو پیکیج نہیں دیا، وزیراعظم کو کراچی پر 1100ارب لگانے تھے تو منتخب بلدیاتی حکومت کے ذریعے لگاتے، خدشات نے یقین کی صورت اختیار کرلی جب ایڈمنسٹریٹر کا تعین ہوا۔ جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمٰن نے بھی کہا ہے کہ جو کراچی کو 1100ارب روپے کا پیکیج دیا گیا ہے وہ حیران کن ہے۔ وفاقی حکومت کا کل ترقیاتی بجٹ 650ارب روپے ہے جس میں سے کراچی کیلئے صرف 18ارب رکھے گئے ہیں۔ اب 1100ارب کا اعلان ہوا ہے تو 18ارب نکال کر بقیہ 1082ارب روپے بنتے ہیں وہ کہا ں سے آئینگے۔انہوں نے زور دیا کہ کراچی کی آبادی 3کروڑ سے زیادہ ہو چکی ہے مگر 2017ءکی مردم شماری کے مطابق اسکو ڈیڑھ کروڑظاہر کر کے اسکے حق پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے اور اب بلدیاتی الیکشن نئی مردم شماری کی آڑ میں کئی سالوں تک ایڈمنسٹریٹروں کے ذریعے جن کا تعلق بھی اس شہر کراچی سے نہیں ہے کھلواڑ کرا کر ملتوی کیا جاتا رہے گا۔ دیکھتے ہیں کہ اگلے الیکشن میں کراچی کا میئر کہاں سے لایا جائے گا؟